میڈیا کی ڈیمانڈ اور ابلاغ عامہ کا نصاب آخری حصہ

’ایڈوانس رپورٹنگ‘ کے کورس میں طلبا کو توسیعی اور تفتیشی خبر نگاری وغیرہ کی مشقیں کرائی جاتی ہیں۔


Dr Naveed Iqbal Ansari December 14, 2016
[email protected]

اسپیشلائزڈ جرنلزم کورس میں طلبا کو عام خبروں کے علاوہ بزنس، کامرس اور اسپورٹس کی خبروں کی تیاری سے متعلق مہارت پیدا کی جاتی ہے کیونکہ ان شعبوں یا بیٹ کی خبریں تیار کرنے کے لیے خاص مہارت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ریسرچ میتھڈ اور ریسرچ رپورٹ دو الگ الگ کورسز ہیں جن میں طلبا کو ذرائع ابلاغ میں تحقیقی کام کرنے اور رپورٹ وغیرہ تیار کرنے سے متعلق تعلیم دی جاتی ہے جو کہ آج کے ذرائع ابلاغ کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔

ملک میں عام انتخابات کے موقع پر اور فیچر و اسپیشل رپورٹ، سپلیمنٹ تیار کرنے کی بہت زیادہ ضرورت پڑتی ہے لہٰذا یہ کورس پڑھنے سے طلبا میں مطلوب قابلیت و صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح میڈیا لاز میں قومی و بین الاقوامی صحافتی قوانین اور ضابطہ اخلاق سے متعلق معلومات فراہم کی جاتی ہے جس سے طلبا جب عملی طور پر ذرائع ابلاغ میں کام کرتے ہیں تو ان سے غلطیوں کا امکان کم سے کم ہوتا ہے اور وہ اپنے فرائض بہتر انداز میں انجام دیتے ہیں۔

'ایڈوانس رپورٹنگ' کے کورس میں طلبا کو توسیعی اور تفتیشی خبر نگاری وغیرہ کی مشقیں کرائی جاتی ہیں اور اس سلسلے میں اسائمنٹ بھی دیے جاتے ہیں۔ صحافتی حضرا ت بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں تفتیشی خبر نگاری کی ضرورت کس قدر ہے۔ ہمارے نصاب میں کریٹیو رائٹنگ کا کورس بھی شامل ہے۔ اس میں طلبا کو ڈرامے، ناول، افسانے اور نامور ادیب و مصنفین کے بارے میں مطالعہ کرایا جاتا ہے اور پسند کے اعتبار سے انھیں مطالعے اور لکھنے کی طرف راغب کیا جاتا ہے۔ اس کورس کا ایک مقصد ایسے طلبا کی تلاش بھی ہوتی ہے جو ماضی کی طرح کوئی نامور لکھاری یا ادیب وغیرہ بن کر سامنے آئیں۔ ان کے علاوہ طلبا کو ریڈیو، ٹی وی، نیوز پروڈکشن اور پروگرام، ایڈورٹائزنگ، پبلک ریلیشن اور میگزین و بک کی تیاری کے لیے نیوز پیپر، میگزین اینڈ بک پروڈکشن بھی پڑھائی جاتی ہے جو کہ براہ راست ذرایع ابلاغ کی ضرورت بھی ہے۔ شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی میں ایک ایف ایم نشریات کا اسٹوڈیو سمیت مکمل سیٹ اپ ہے، جہاں طلبا عملی طور پر خود سے ریڈیو کے مختلف پروگرام تیار کرکے پیش کرتے ہیں۔

مذکورہ نصاب شعبہ جرنلزم نہیں ہے بلکہ یہ نصاب شعبہ ابلاغ عامہ کا نصاب ہے، جو بنیادی طور پر طلبا کو کثیر جہتی نظر و فکر عطا کرنے کے ساتھ انھیں کثیر جہتی شعبہ جات میں بطور روزگار مہیا کرنے کے مواقع بھی مہیا کرتا ہے۔ جس کے باعث طلبا صرف ایک صحافی بننے کے بجائے ایک ادارے کی شکل اختیار کرتے ہیں۔

یہ مختصر سا تجزیہ اس جانب اشارہ کررہا ہے کہ ابلاغ عامہ کا یہ نصاب جسے بعض افراد پرانا یا فرسودہ بھی قرار دیتے ہیں، آج بھی ان طالب علموں کی ضرورت ہے جو آگے چل کر میڈیا کی دنیا میں قدم رکھنا چاہتے ہیں، یہ نصاب ان کے قدم کو استحکام بخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور اس ملک و معاشرے کے لیے صحافی بھی تیار کرنے میں مدد دیتا ہے جو میڈیا کی حقیقت میں ضرورت ہوں۔ لیکن یہاں ایک تلخ پہلو میڈیا کی ڈیمانڈ میں پوشیدہ ہے۔ ایک ڈیمانڈ وہ تھی جو اب ماضی کا حصہ بن چکی ہے، جس میں مولانا ابوالکلام آزاد کو کوئی شخص محض حکومتی جرمانے اور اخبار کی مالی مشکلات کے لیے امدادی چیک بھیجتا تو مولانا نہ صرف وہ چیک واپس بھیج دیتے بلکہ ساتھ ایک رقعہ بھی لکھ دیتے اور بعد میں اداریے میں بھی اظہار خیال کرتے کہ یہ صحافت نفع یا نقصان کا نہیں سراسر گھاٹے کا سودا ہے، جس کو گھاٹا عزیز ہو وہی اس گلی کوچے میں آئے۔

آج چونکہ میڈیا کاروباری حضرات کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے لہٰذا اس کی اب ڈیمانڈ بھی کاروباری ہوگئی ہے، اب اسے نہ ان طالب علموں کی ضرورت ہے جو نصاب میں صحافتی قانون اور اخلاقیات کا درس پڑھ کر آئیں، نہ ان کہنہ مشق سینئر صحافیوں کے مشورے کی ضرورت ہے کہ جو انھیں بتائیں کہ نیوز کیا ہوتی ہے، بریکنگ نیوز کون سی خبر ہوسکتی ہے۔

میڈیا کی ڈیمانڈ تو بس اب اتنی ہے کہ فوراً سے بیشتر ریٹنگ بڑھتی رہے، خواہ اس سے معاشرے کا بیڑا غرق ہی کیوں نہ ہوتا رہے۔ یہی وجہ ہے کہ خبروں کی اس دوڑ میں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر شکیل اوج کی شہادت ایک گولی لگنے سے ہوئی، مگر مختلف ٹی وی چینل پر کئی گولیوں کی تعداد الگ الگ سنائی جارہی تھی اور صبح 11 بجے کے قریب ہونے والے اس واقعے کی خبر اگلے دن پاکستان کے بڑے اخبار میں شائع ہوئی تو اس میں چھ گولیاں لگنے کا ذکر تھا۔ ابھی چند روز قبل ہی کی بات ہے کہ ایک مشہور بزنس مین کی خودکشی کی خبر میں ایک چینل نے آٹھویں منزل اور دوسرے نے چھٹی منزل سے نیچے گرنے کی خبر دی۔

یہ معاملہ صرف فوری خبر تک محدود نہیں، 2012 میں اندرون سندھ کے ایک شخص نے پانی سے کار چلانے کا دعویٰ کردیا۔ ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینل نے خوب کوریج دی، حتیٰ کہ ٹاک شوز میں اس شخص بلاکر ملک کے مایہ ناز سائنسدانوں (ڈاکٹر عطاالرحمان اور ڈاکٹر قدیر خان) تک سے ٹاکرا کرادیا گیا۔ آج کہاں ہے وہ پانی کی گاڑی؟

ایسی بے شمار مثالیں ہیں ۔ دوسری طرف بعض اداروں کے اشتہارات خبروں کی شکل میں شایع ہونا اب معمول بن چکا ہے۔ مختصراً یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ذرایع ابلاغ خاص کر ٹی وی چینلز کی ڈیمانڈ، اشتہارات، ریٹنگ اور زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا ہے۔

ظاہر ہے پھر اس میں ایسے کسی نصاب کی پذیرائی اور ڈیمانڈ کیسے ہوسکتی ہے جو ملک و معاشرے کی اخلاقیات، حدود اور میڈیا کی حدود کا بھی تعین کرتا ہو۔ نصاب کے نظریاتی پہلو بھی اگر مارکیٹ ڈیمانڈ کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی جائے تو پھر ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب نصاب کا یہ نظریاتی پہلو سکڑ کر میڈیا کی کمرشلائز ڈیمانڈ ہی بن کر رہ جائے گا، جو قانون و اخلاقیات سے قطع نظر صرف منافع کمانے کا ہنر ہوگا۔

نصاب کو اگر مارکیٹ ڈیمانڈ پر ہی مرکوز کردیں تو طالب علم حاضر و موجود نظام کے ایک کُل پرزہ کے طور پر تو ضرور فٹ ہوسکے گا، مگر وہ طالب علم انقلاب برپا نہیں کرسکتا۔ ملک وقوم، معاشرے کی بھلائی میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتا، نہ ہی اس میں تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوسکتی ہیں۔ ہمیں بہت سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے نصاب سے وہ ربورٹ تیار کرنا چاہتے ہیں جو مارکیٹ اور ڈیمانڈ پوری کریں یا پھر وہ طالب علم تیار کرنا چاہتے ہیں جو اپنے ہنر کے ساتھ ساتھ اس ملک وقوم کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت اور فہم و فراست اور جذبہ بھی رکھتے ہوں۔ جب تعلیم کا بنیادی مقصد نوکری کا حصول ہوگا تو معاشرے میں نوکر ہی پیدا ہوں گے، رہنما نہیں۔ آؤ غور کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔