جرمنی میں تہذیبوں کا تصادم کیا رُخ اختیار کرے گا

مہاجرین کو گلے لگانے پر قدامت پسند جرمن ناراض۔


ندیم سبحان میو December 18, 2016
آبادی برقرار رکھنے کے لیے یورپی ملک کو تارکین وطن کی ضرورت ہے۔ فوٹو : فائل

گذشتہ ایک سال سے یورپی بالخصوص جرمن شہریوں کے روزوشب یہ پریشان کُن عوامی بحث سُنتے ہوئے گزر رہے ہیں کہ شناخت یا پہچان کی تعریف کیا ہے اور غیرملکیوں پر یہ تعریف کیسے لاگو ہوتی ہے؟ اگست 2015ء کے اواخر میں، مشرق وسطیٰ سے بڑی تعداد میں تارکین وطن کی یورپ آمد پر تناؤ شدید ترین شکل اختیار کرگیا تھا۔ آسٹریا میں ایک مقفل ٹرک سے اکہتر بدقسمت افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔

یہ ٹرک انسانوں کے اسمگلر چھوڑ کر فرار ہوگئے تھے۔ ریاست زاکسن کے علاقے ہائدہناؤ میں تارکین وطن کی عارضی پناہ گاہ کے باہر غنڈوں نے پولیس اہل کاروں پر حملہ کردیا۔ پھر جب جرمن چانسلر انجیلا مرکل تارکین وطن سے ہمدردی ظاہر کرنے کے لیے اس پناہ گاہ کے دورے پر آئیں تو مشتعل مظاہرین نے ان کا استقبال '' انسان ہم ہیں! '' جیسے نعروں سے کیا۔ انھیں طوائف، فاحشہ، اور 'فوکس فوغیتر' (ہم وطنوں کو دھوکا دینے والی) جیسے ناموں سے پکارا گیا۔ مؤخرالذکر دراصل ایک خطاب ہے جو نازی دور میں بہ کثرت استعمال ہوتا تھا۔

پانچ روز کے بعد، اکتیس اگست کو، مرکل نے برلن میں سالانہ پریس کانفرنس بُلائی۔ ان لمحات میں ہنگری کے دارالحکومت بڈاپسٹ میں موجود شامی تارکین وطن جرمنی روانگی کے لیے تیار ریل گاڑیوں پر سوار ہونے کی کوشش میں ایک دوسرے کو روند رہے تھے۔ پریس کانفرنس کے دوران انجیلا ہمیشہ کی طرح پُرسکون اور مطمئن نظر آرہی تھیں۔

مرکل نے کہا کہ متوقع طور پر سال کے اختتام تک تارکین وطن کی تعداد آٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گی (تاہم تعداد دس لاکھ سے بڑھ گئی تھی۔) انھوں نے صحافیوں کو یاددہانی کرواتے ہوئے کہا کہ جرمن آئیں سیاسی پناہ کا حق دیتا ہے اور اس کی اولین شق میں درج ہے،''انسان کی عزت نفس واجب الاحترام ہوگی'' اور حقیقتاً جرمنوں کی بڑی تعداد آئین کی پاسداری کرتے ہوئے تارکین وطن کے ساتھ ذلت و توہین آمیز رویہ اختیار کرنے اور ان پر سنگ باری کرنے کے بجائے ان کی معاون و مددگار بن گئی تھی۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے جرمن چانسلر نے مزید کہا تھا،''جرمنی ایک مضبوط اور طاقت وَر ملک ہے۔ ہم ترقی یافتہ ہیں، اور ہم یہ (کام ) کرسکتے ہیں!''

انجیلا مرکل اور جرمن شہریوں نے اپنے ملک کو ایک عالم گیر ڈرامے کے اہم ترین اسٹیج میں بدل دیا ہے۔ کئی عشروں سے عالمی آبادی کے مقابلے میں ترک وطن کرنے والوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق 2015ء میں تارکین وطن کی تعداد چوبیس کروڑ چالیس لاکھ تھی۔ یہ تمام لوگ اپنے آبائی اوطان چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں بسے ہوئے ہیں۔



گذشتہ برس کے اختتام پر آبائی وطن سے جبراً بے دخل ہونے والے انسانوں کی تعداد دو کروڑ دس لاکھ تھی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد پناہ گزینوں کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ سائنس دانوں کو توقع ہے کہ موسمی تغیرات اس تعداد میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ تسلسل کے ساتھ آنے والی خشک سالی اور سطح ہائے سمندر کے بلند ہونے سے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوں گے۔ کچھ سائنس داں شام میں جاری خانہ جنگی کا کسی حد تک ذمہ دار موسمی تغیرات کو بھی سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے یورپ کی جانب انسانی ہجرت کا حالیہ سلسلہ شروع ہوا۔

یورپ وہ براعظم ہے جہاں جنگ عظیم دوم کے بعد دنیا کے ایک تہائی تارکین وطن آبسے ہیں۔ کسی زمانے میں یورپی ممالک کے شہریوں کی بڑی تعداد نے ریاست ہائے متحدہ امریکا کا رُخ کیا تھا مگر اب خود ان ملکوں میں تارکین وطن اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں کہ ان کا موازنہ امریکی سرزمین پر بسنے والے تارکین وطن سے کیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس حقیقت کو بہت کم یورپی ذہنوں اور دلوں نے تسلیم کیا ہے۔

خود امریکا میں بھی، جسے جان ایف کینیڈی نے ' تارکین وطن پر مشتمل قوم' قرار دیا تھا، مہاجرت باعث تقسیم ایشو ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے۔ 1750ء کی دہائی میں بنجمن فرینکلن کو پنسلوانیا میں جرمنوں کی مسلسل آمد نے تشویش میں مبتلا کردیا تھا۔ امریکی صدر کو یہ فکر لاحق ہوگئی تھی کہ یہاں غیرملکیوں کی اکثریت ہوجائے گی اور ریاست کی شناخت غیرملکی ثقافت میں گُم ہوجائے گی۔

انجیلا مرکل کی مہاجرین کو گلے لگانے کی پالیسی کے مخالفین کو غالباً یہی فکر لاحق ہے۔ دریسدن اور ارفورت کے شہر گذشتہ برس کے دوران قدامت پسندوں کی ہنگامہ خیز سرگرمیوں کا مرکز بنے رہے۔ شب میں یہاں ریلیاں نکلتی رہیں اور دائیں بازو کے مقررین لوگوں کے جذبات بھڑکاتے رہے۔ اس کے نتائج مہاجرین کے کیمپوں اور پناہ گاہوں پر سیکڑوں حملوں کی صورت میں ظاہر ہوئے۔ تاہم دوسری جانب معتدل سوچ کے حامل جرمن میونخ کے ریلوے اسٹیشن پر مسلمان مہاجرین سے بھری ریل گاڑیوں کو ہاتھوں میں اشیائے خوراک، پانی، اور کھلونے پکڑے اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجائے خوش آمدید کہہ رہے تھے۔

جرمنی پریشان حال مہاجرین کو گرم جوشی سے گلے لگا رہا ہے لیکن وہ دیگر یورپی ممالک کو اپنی تقلید پر قائل نہ کرسکا۔ اسی بنیاد پر جرمنی کے ریاستی وزیر برائے یورپ مائیکل روتھ نے رواں برس اپریل میں کہا تھا کہ یورپی ممالک کا اتحاد کمزور پڑچکا ہے۔ بعدازاں جون میں یہ کمزوری دنیا پر اس وقت عیاں ہوگئی جب برطانیہ کے عوام نے یورپ سے علیٰحدگی کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس فیصلے کے محرکات میں تارکین وطن براہ راست شامل نہیں تھے، کیوں کہ برطانیہ نے شاذ ہی کسی مہاجر کو پناہ دی تھی، لیکن عوامی جائزوں سے ظاہر تھا کہ یورپی باشندوں کے علاوہ غیریورپی مہاجرین کی برطانیہ آمد کو محدود کرنا ' بریکسٹ' ووٹ کا بنیادی محرک بنا۔

برطانیہ میں جو کچھ ہوا وہ، اور دوسرے یورپی ممالک میں ہجرت کی بڑھتی ہوئی مخالفت جرمنی کی اندرونی صورت حال سے جُڑے خطرات کو اُبھار رہی ہے۔ کیا جرمن اپنی تاریخ کے برعکس ایک ایسی قوم میں ڈھل سکتے ہیں جو غیرملکیوں کو خوش آمدید کہتی ہو؟ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو پھر تارکین وطن اور انھیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھنے والوں سے بھری دنیا میںسب کے لیے امید باقی ہوسکتی ہے۔

1970ء کی دہائی میں، میں بیلجیئم میں واقع جرمن اسکول آف بزنس میں زیرتعلیم تھا۔ یہاں فوکر دیم نامی ایک استاد ہمیں معاشرتی علوم پڑھایا کرتے تھے۔ دراز قد فوکر دیم پرکشش شخصیت کے مالک تھے۔ کنپٹیوں پر پڑے ہوئے گھنگھریالے سنہرے بال ان کی شخصی دل کشی میں اضافہ کرتے تھے۔ ان کی کلاس میں مجھے پہلی بار ہولوکاسٹ سے آگاہی ہوئی۔

ایک پورے پیریڈ کے دوران انھوں نے اجتماعی کیمپوں (concentration camps) میں رونما ہونے والے واقعات کے عینی شاہدین کے بیانات پڑھ کر سنائے۔ 1939ء میں جنم والے فوکر دیم دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر محض چھے برس کے تھے۔ ان کے والد بھی مدرس اور جرمن ریاست ہیسے کے ایک چھوٹے سے گاؤں میں نازی پارٹی کے رہنما تھے مگر اس وقت یہ بات میرے علم میں نہیں تھی۔

میرا اپنے استاد سے چالیس سال سے کوئی رابطہ نہیں تھا مگر ان کی تلاش یوں مشکل ثابت نہیں ہوئی کہ وہ معروف سماجی کارکن بن چکے تھے، جن کا تذکرہ مقامی ذرائع ابلاغ میں اکثر و بیشتر ہوتا رہتا تھا۔ محترم استاد سے رابطہ بحال ہونے پر پتا چلا کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کم سن تارکین وطن کو پڑھا رہے تھے۔ یہ کم عمر مہاجرین ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں جرمنی میں داخل ہوئے تھے۔ فوکر دیم نے مجھے ہیسے کے ایک قصبے روتنبرگ کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ ملک کے وسطی علاقے میں واقع اس قصبے کی آبادی تیرہ ہزار سے اوپر تھی اور اس کے باسی مہاجرین کی صورت حال سے قدرے بہتر انداز میں نمٹ رہے تھے۔

گذشتہ موسم سرما کی ایک برستی صبح کو میں اور دیم سولھویں صدی عیسوی میں تعمیر کردہ ٹاؤن ہال کی سیڑھیاں چڑھ کر میئر کرسچیئن گرون والڈ کے دفتر میں پہنچ گئے۔ کرسچیئن بھی ان کا سابق شاگرد تھا۔ روتنبرگ ایک قدیم، خوب صورت قصبہ ہے۔ پتھر اور لکڑی سے بنے ہوئے گھر مرکزی بازار کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔

دریائے فلدا کے ساتھ ساتھ بھی ان کی ایک قطار دور تک چلی گئی ہے۔ گرون والڈ کے دفتر کی کھڑکی سے دکھائی دینے والے پروٹسٹنٹ چرچ کی گھنٹیوں کی آواز نے ہمارے ٹھیک نو بجے پہنچنے کی تصدیق کردی تھی۔ قصبے سے جنوب مشرق کی جانب قدرے بلندی پر واقع Alheimer Kaserne کے فوجی اڈے پر 719 شامی، افغان، عراقی اور دوسرے تارکین وطن ایک اور دن کا آغاز کررہے تھے۔

39 سالہ گرون والڈ چرب زبان مگر محتاط شخص تھا۔ چھوٹے، خاکستری بال اور ناک پر دھری سیاہ عینک مل کر اس کی شخصیت کا عجیب سا تأثر دے رہے تھے۔ پانچ سال پہلے وہ اس عہدے پر منتخب ہوا تھا اور قصبے میں کاروباری سرگرمیوں کے فروغ کو اس نے اولین ترجیح بنارکھا تھا۔ گرون والڈ کا کہنا تھا کہ مہاجرین کے بارے میں اس کے ذہن میں جو تصور تھا وہ اس سے مختلف ثابت ہوئے تھے۔ جولائی 2015ء میں جب ریاستی حکام نے اسے آگاہ کیا کہ تین اگست کو سیکڑوں مہاجرین روتنبرگ پہنچیں گے تو گرون والڈ کے بقول ' یہ خبر کسی بم کی طرح پھٹی ۔'

قصبے کے آڈیٹوریم میں سات سو کے لگ بھگ افراد جمع ہوئے۔

یہاں ریاستی حکام نے انھیں بتایا کہ مہاجرین کو ابتدائی طور پر چند ماہ کے لیے Alheimer Kasern میں رکھا جائے گا۔ اس اڈے کی مرمت پر فوج نے چار کروڑ یورو خرچ کیے تھے اور بعدازاں اسے بند کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا تھا۔ حکام نے بتایا کہ جیسے جیسے مہاجرین پناہ اور مستقل رہائش گاہوں کے لیے باضابطہ درخواست دیں گے ، ویسے ویسے انھیں یہاں سے منتقل کیا جاتا رہے گا۔ حکام نے تارکین وطن کی یہاں منتقلی کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا کہ مہاجرین کے لیے قائم کیے گئے کیمپ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں رہی تھی بلکہ کیمپ کے باہر بھی بے شمار لوگوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔

روتنبرگ ہال کی فضا میں کھنچاؤ سا پیدا ہوگیا تھا۔ ''ان کا خرچا کون برداشت کرے گا؟'' کسی نے سوال کیا۔ '' کیا انھیں آرمی بیس سے باہر جانے کی اجازت ہوگی؟'' قصبے کے ایک اور باسی نے استفسار کیا۔ ''ان سے قصبے میں کوئی بیماری تو نہیں پھیل جائے گی؟'' ایک اور متفکرانہ آواز سنائی دی۔ گرون والڈ کے مطابق ہم فکرمند ضرور تھے مگر کسی نے کھڑے ہوکر یہ نہیں کہا کہ ہم ان سے خوف زدہ ہیں، یا یہ کہ ہم نہیں چاہتے وہ یہاں آئیں۔

تھامس بادیر ریاست ہیسے کا نرسنگ کیئر مینیجر ہے۔ گذشتہ برس جولائی میں وزارت سماجی امور کی جانب سے تھامس کو فون کال پر بتایا گیا کہ اسے پناہ گزینوں کے نئے کیمپ کی ذمہ داری سنبھالنی ہوگی۔ انتیس جولائی بروز بدھ آرمی بیس پہنچ کر اس نے دفتر سنبھال لیا۔ اولین پناہ گزینوں کی آمد چار روز کے بعد متوقع تھی۔ بادیر کی فون کال وصول کرنے کے بعد گرون والڈ نے دو کارکن اس کی جانب روانہ کردیے تھے اور پھر خود بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ اس نے بادیر کے ساتھ مل کر کیفے ٹیریا کی صفائی ستھرائی کی اور میزیں اور کرسیاں لگائیں۔ بادیر نے بتایا کہ دو دن کے بعد کیمپ میں چھے سو افراد بڑھ چڑھ کر مختلف کاموں میں حصہ لے رہے تھے۔

ابتدا میں تھامس بادیر اور ان کی ٹیم کو خاصی مشکلات پیش آئیں پھر معاملات ہموار ہوتے چلے گئے۔ مگر دیگر شہروں میں تارکین وطن سے متعلق صورت حال کافی پیچیدہ اور مشکل تھی۔ ہیمبرگ میں تارکین وطن کے معاونت کار انسلیم اسپرینڈل نے مجھے بتایا،''جرمنی میں اس صورت حال کے لیے کوئی بھی تیار نہیں تھا۔۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں۔'' پچھلے سال ہیمبرگ کو 35000پناہ گزینوں کو سنبھالنا پڑا تھا جب کہ پورا امریکا دنیا بھر سے 70000 تارکین وطن کو پناہ دیتا ہے۔

اسپرینڈل کے مطابق ''جرمنی میں شاذ ہی کوئی بے گھر نظر آتا ہو مگر اب لوگوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر سو رہی تھی، لیکن خدا کا شکر ہے کہ جلد ہی انھیں چھت میسر آگئی۔'' اسپرینڈل کے اسٹاف نے پناہ گزینوں کو خالی عمارتوں، شپنگ کنٹینرز اور گرم خیموں میں ٹھہرایا۔ برلن میں متعدد مہاجرین کو اسکول کے جمنازیم اورTempelhof ایئرپورٹ کے ایک ہینگر میں ٹھہرایا گیا تھا۔ خاندانوں یا مہاجرین کے مختلف گروپوں کو خلوت فراہم کرنے کے لیے ان کے درمیان پلاسٹک کی شیٹوں کے پردے بناکر تان دیے گئے تھے۔

روتنبرگ میں بادیر نے مجھے بیرکوں پر مشتمل تین منزلہ عمارت کا دورہ کروایا۔ طویل مگر صاف ستھرے برآمدوں کے ساتھ کمروں کی قطاریں تھیں۔ ان میں کبھی سپاہی قیام کرتے تھے مگر اب یہ مہاجر خاندانوں کے زیراستعمال تھے۔ مہاجرین روتنبرگ کی سڑکوں پر عام نظر آتے ہیں۔ آپ انھیں شیرخوار بچوں کی گاڑیاں اور سائکلیں دھکیل کر بلندی پر واقع آرمی بیس کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ عطیہ شدہ کپڑوں اور دیگر اشیاء کے علاوہ انھیں 112 یورو فی بالغ فرد اور 63 یورو فی بچہ کی شرح سے الاؤنس بھی ملتا ہے۔ مہاجرین یہ رقم قصبے ہی میں خرچ کرتے ہیں۔ گرون والڈ کا کہنا ہے کہ اس اعتبار سے ان کی یہاں آمد معاشی طور پر سود مند ثابت ہوئی ہے۔ تاہم اس مثبت پہلو کے باوجود روتنبرگ کے کئی باسی ان کی آمد پر معترض ہیں۔ وہ فیس بُک اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر مہاجرین مخالف خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

گرون والڈ کو پناہ گزینوں سے شکایتیں بھی ہیں۔ میئر کے مطابق وہ سماجی شعور سے بے بہرہ ہونے کا مظاہرہ کرتے ہیں، مثلاً وہ پارکوں میں کچرا پڑا ہوا چھوڑ دیتے ہیں؛ اور فٹ پاتھوں پر سائیکل چلاتے ہیں۔ اور پھر سب سے اہم مسئلہ فلش ٹوائلٹ کا استعمال ہے۔ ایشیائی طرز کی ٹوائلٹس کے عادی بہت سے مہاجرین مغربی طرز کے ٹوائلٹس کے اوپر چڑھ کر انھیں استعمال کرتے ہیں۔ ان کے وزن سے بعض اوقات ٹوائلٹس ٹوٹ جاتی ہیں۔ غسل خانوں، صفائی ستھرائی اور دوسرے معاملات پر جرمنوں اور مہاجرین کے درمیان ایک ثقافتی خلیج پائی جاتی ہے۔ مشترکہ زبان کی عدم موجودگی اس خلیج کو پاٹنے میں ناکامی کی اہم وجہ ہے جسے دور کرنے کی کوششیں بھی کی جارہی ہیں۔

روتنبرگ میں سابق اساتذہ کا ایک گروپ مہاجرین کو جرمن زبان سکھانے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک صبح میں نے دو گھنٹے سفید ریش، قوی الجثہ اور خوش مزاج استاد گوترفرائد کے ساتھ گزارے۔ آرمی بیس کی آبادی چوں کہ ہر ماہ دو ماہ کے بعد بدلتی رہتی ہے لہٰذا اس روز فرائد کو بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آج اس کا شاگرد کون ہوگا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ مہاجرین میں سے پانچ افغانوں کو لیے ہوئے آگیا جن کی عمریں بارہ سے پینتیس سال کے درمیان معلوم ہورہی تھیں۔ اس نے تصاویر کی مدد سے انھیں حروف تہجی سکھانے شروع کردیے۔ اس کلاس میں طالب علم پہلی بار جرمن زبان کی ' الف بے' سے واقف ہورہے تھے۔

ایک سہ پہر کو روتنبرگ میں میری ملاقات تینتالیس سالہ شامی سے ہوئی جو دو سال سے جرمنی میں تھا، اور اس نے جرمن زبان کا چھے ماہ کورس بھی مکمل کر رکھا تھا۔ میں احمد کے گھر میں بیٹھ کر کیک تناول کرتے ہوئے ایک ترجمان کے ذریعے اس سے ہم کلام تھا۔ بہت سے پناہ گزینوں کی طرح احمد بھی اپنا مکمل نام بتانے سے گریزاں تھا۔ اسے خدشہ تھا کہ پورا نام ظاہر ہونے پر دمشق میں رہنے والے اس کے عزیزواقارب پریشانی میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔ وہ دمشق میں الیکٹریشن کا کام کرتا تھا۔ شام سے فرار ہوکر وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ پہلے مصر پہنچا تھا۔ جلد ہی احمد کو اندازہ ہوگیا کہ عرب بھائی ان کی آمد سے خوش نہیں تھے۔ ان کے برعکس جرمنی نے اپنے دروازے ان پر کھول دیے تھے۔

یہاں انھیں روتنبرگ کے مرکزی علاقے میں ایک اپارٹمنٹ دے دیا گیا تھا اور ماہانہ اخراجات کے لیے رقم بھی مل رہی تھی۔ احمد اس مہربانی کے لیے جرمن حکومت کا تہہ دل سے شکرگزار تھا۔ مگر دو سال گزر جانے کے باوجود وہ بے روزگار تھا۔ محنت کے عادی احمد کے لیے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا دشوار ثابت ہورہا تھا۔



اس نے مجھے بتایا،''میں سودا سلف لینے یا پھر اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنے کے لیے ہی گھر سے باہر نکلتا ہوں، کیوں کہ اگر کسی نے پوچھ لیا کہ میں کیا کرتا ہوں تو شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔ خود کو مصروف رکھنے کے لیے میں اکثر گھر کی صفائی ستھرائی کرتا رہتا ہوں۔'' قریب ہی بیٹھے ہوئے احمد کے تین بیٹے بڑے غور سے ہماری باتیں سن رہے تھے۔ ان کی عمریں بالترتیب آٹھ، چودہ اور سولہ سال تھیں۔ اسکول میں پڑھتے ہوئے انھیں ڈیڑھ سال گزر گیا تھا۔ اسی لیے وہ اچھی خاصی جرمن بول لیتے تھے۔ بڑا لڑکا حجام بننے کا خواہش مند تھا، اور گھر کے قریب واقع ایک سیلون میں اس ہنر کی تربیت بھی لے رہا تھا۔ منجھلا تعلیم جاری رکھنا چاہتا تھا۔ اسے فٹبال کا بھی شوق تھا اور وہ اسکول کی ٹیم میں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلتا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے اب تک جرمنی میں آباد ہونے والے مہاجرین کی تعداد ایک اندازے کے مطابق پانچ کروڑ تک پہنچ گئی ہے۔ آج وہاں رہنے والے ہر آٹھ میں سے ایک شخص کی جائے پیدائش جرمنی نہیں ہے۔ اسی حقیقت کے پیش نظر یکم جون 2015ء کو انجیلا مرکل نے جرمنی کو ''مہاجرین کا ملک'' قرار دیا تھا۔ یہاں آ بسنے والے اولین مہاجرین نسلاً جرمن ہی تھے۔

ان کی تعداد سوا کروڑ کے لگ بھگ تھی جنھیں جنگ عظیم کے خاتمے پر مشرقی یورپ سے بے دخل کردیا گیا تھا۔ وہ بم باری سے تباہ شدہ ایک عسرت زدہ ملک میں پہنچے تھے، تاہم نسلاً جرمن ہونے کے باوجود مقامی بھائیوں نے انھیں خوش آمدید نہیں کہا تھا۔ جرمن چانسلر کی پارٹی کرسچیئن ڈیموکریٹک یونین کی کارکن اور قومی پارلیمان کی رُکن ایریکا استین بیخ بتاتی ہیں کہ جنگ عظیم دوم کے بعد وہ پولینڈ سے اپنی والدہ اور بہن کے ہمراہ ریاست شلسویگ ہولشتائن کے ایک گاؤں میں پہنچی تھیں۔ جب ایریکا کی ماں نے اس کی بہن کے لیے ایک کسان سے دودھ مانگا تو جواباً اس نے کہا کہ تم لوگ کاکروچوں سے بھی بدتر ہو۔

ترکوں کے لیے البتہ جرمنوں کا رویہ نرم رہا۔ یہ 1950ء اور 60ء کی دہائیوں کی بات ہے جب معیشت تیزی سے بحالی اور ترقی کی جانب گام زن تھی۔ مغربی جرمنی کو افرادی قوت درکار تھی، چناں چہ کارکنان پہلے اٹلی، پھر یونان اور اسپین سے بلائے گئے مگر زیادہ تعداد میں ترکی سے بھرتی کیے گئے تھے۔ بیشتر کارکنان مرد تھے اور تنہا ہی مغربی جرمنی آئے تھے۔ یہاں وہ فیکٹریوں، کارخانوں یا پھر تعمیراتی کمپنیوں میں ملازم ہوگئے تھے۔ رہائش کے لیے انھیں بیرکیں اور بڑے بڑے ہال دے دیے گئے تھے، جن میں درجنوں کی تعداد میں یہ ہنرمند اور مزدور رہتے تھے۔

مقامی باشندوں کو ان سے کوئی پُرخاش یوں نہیں تھی کہ ان کے خیال میں یہ ' مہمان مزدور' تھے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ایک یا دو سال کام کرنے کے بعد یہ اپنی جمع پونجی سمیٹ کر واپس لوٹ جائیں گے اور ان کی جگہ دوسرے 'مہمان' لے لیں گے، مگر ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ آجر ان کارکنان کو کھونا نہیں چاہتے تھے جنھیں انھوں نے تربیت دے کر ہنرمند بنایا تھا۔ پھر کچھ عرصے کے بعد ان مزدوروں اور ہنرمندوں نے اپنے اپنے اہل خانہ کو بھی 'درآمد' کرنا شروع کردیا۔ فتح ایورن کے والد نے اپنی بیوی اور تین بچوں کو جرمنی بُلا لیا۔ فتح کی پیدائش جرمنی میں ہوئی تھی۔ فتح ایورن روتنبرگ سے پانچ میل دور واقع بیبرا نامی قصبے میں تُرک، اسلامی کمیونٹی سینٹر کا سیکریٹری ہے جس کی بنیاد اس کے والد نے 1983ء میں رکھی تھی۔

بیرون ملک سے ہنرمند بُلانے کا پروگرام 1973ء میں اس وقت بند کردیا گیا جب عرب ممالک کی جانب سے امریکا، برطانیہ سمیت کئی ممالک کو تیل کی فراہمی منقطع کردینے کے باعث بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی تھی، لیکن آج جرمنی میں تُرک نژاد باشندوں کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔

ان میں محض نصف جرمن شہری ہیں۔ کچھ یہاں نمایاں مقام بھی حاصل کرچکے ہیں جیسے کہ گرین پارٹی کے مشترک لیڈر صیم اوزدمیر ۔ جرمنی نے ترکوں اور دوسرے تارکین وطن کی آمد سے ہونے والے تجربے سے سیکھتے ہوئے سولہ برس پہلے حصول شہریت کی شرائط نرم کردی تھیں۔ 2000ء تک صرف اسی شخص کو جرمن شہریت دی جاتی تھی جس کے والدین یا ماں یا باپ میں سے کوئی ایک جرمن شہری ہوتا۔ آج اگر آپ کو جرمنی میں رہتے ہوئے آٹھ برس گزر چکے ہیں، یا آپ کے والدین یا ماں یا باپ میں سے کوئی ایک جرمن شہری ہے تو پھر آپ بھی اس ملک کی شہریت حاصل کرسکتے ہیں اور کچھ صورتوں میں دوسرے ملک کی شہریت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں 2005ء میں ایک قانون منظور کیا گیا تھا جس کے تحت حکومت ان لوگوں کو جرمن زبان کے کورس کرواتی ہے جنھیں جرمنی میں پناہ دے دی گئی ہو یا دی جانے والی ہو۔

جرمن سیاست دانوں میں اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ملک کو تارکین وطن کی ضرورت ہے۔ سبب یہ ہے کہ جرمنی میں پیدائش و اموات کی شرح کے درمیان نمایاں فرق پیدا ہوگیا ہے۔ سال میں جتنی پیدائشیں ہوتی ہیں، ان سے اوسطاً دو لاکھ زیادہ لوگ موت کے منھ میں چلے جاتے ہیں۔ اگر تارکین وطن کو خوش آمدید نہ کہا جائے تو آبادی گھٹتی چلی جائے گی۔ برلن انسٹیٹیوٹ برائے آبادی و ترقی نے، جو ایک تھنک ٹینک ہے، تخمینہ لگایا ہے کہ اگر کام کرنے کے قابل آبادی کو برقرار رکھنا ہے تو پھر جرمنی کو 2050ء تک سالانہ پانچ لاکھ مہاجرین کی ضرورت ہوگی مگر مشکل یہ ہے کہ پناہ گزینوں کی اکثریت نہ تو ہنرمند ہے اور نہ ہی اس کے مشہور زمانہ اپرنٹس شپ پروگرام میں داخلہ لینے کی اہل۔ ایک تخمینے کے مطابق 15 فی صد پناہ گزین یکسر ناخواندہ ہیں جب کہ جو خواندہ ہیں ان میں سے بھی بیشتر جرمن معیار تعلیم پر پورے نہیں اترتے۔

روتنبرگ کے قریب بید ہرسفیلڈ میں، میں نے مہاجرین کے اسکول کا دورہ کیا۔ انھیں دو سال کے عرصے میں جرمن زبان کا اتنا علم حاصل کرنے کا ہدف دیا گیا تھا جس کی بنیاد پر وہ میٹرک کی سند کے مساوی ڈپلوما حاصل کرسکیں، جو ان کی اپرنٹس شپ پروگرام میں شمولیت کی ضمانت بنتا۔ یہاں مہاجرین کی چار کلاسیں لگائی گئی تھیں۔ ان میں بیٹھے ہوئے بیشتر افراد کی عمریں میٹرک کے طالب علم کے لحاظ سے زیادہ تھیں۔ یہاں میں نے اداس چہرے والے سترہ سالہ افغان لڑکے مصطفیٰ کو پہچان لیا جس سے میری ملاقات ایک روز قبل پناہ گزین نوجوانوں کے لیے مختص کیے گئے گھر میں ہوئی تھی۔ نوجوان افغانی نے مجھے بتایا تھا کہ جرمنی آکر وہ کس قدر مطمئن و مسرور تھا۔ ناں صرف اس وجہ سے کہ وہ یہاں محفوظ تھا بلکہ اس وجہ سے بھی کہ وہ یہاں اسکول جاسکتا تھا۔ افغانستان میں واقع اپنے گاؤں میں اس نے صرف قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی تھی۔

بیدہرسفیلڈ اسکول کے ڈائریکٹر ڈرک بیلوشاشن کہتے ہیں کہ بیشتر پناہ گزین لکھنے پڑھنے کا موقع میسر آنے پر بے حد خوش ہیں۔ دوسری جانب زیادہ تر جرمن انھیں پڑھانے کو ڈیوٹی سمجھتے ہیں اور بہ قول ڈرک، ڈیوٹی ہمیشہ بُری ہوتی ہے۔ تارکین وطن آموزش کے عمل میں جوش و خروش کا مظاہرہ کررہے ہیں مگر سماجی کارکن جوآنا میٹز کے خیال میں ان میں سے نصف ڈپلوما حاصل کرنے میں ناکام رہ جائیں گے، کیوں کہ نصاب بہت زیادہ ہے اور وقت بہت کم۔

سیکھنے کی بہتر صلاحیت رکھنے والے کم سن پناہ گزین، جیسے کہ احمد کے بچے، ممکنہ طور پر معاشی نقطۂ نظر سے جرمنی کے لیے مفید ثابت ہوں گے، لیکن مہاجرین کی پوری آبادی کے لیے یہ کہنا قبل از وقت ہوگا، کیوں کہ وفاقی لیبر ایجنسی کا کہنا ہے کہ پانچ سال گزرجانے کے بعد نصف اور بارہ سال کے بعد ایک چوتھائی پناہ گزین ہنوز بے روزگار ہوں گے۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کو داخلے کی اجازت کا سبب معاشی نہیں بلکہ انسانی کہا گیا تھا مگر عوام کی اکثریت یہ حکومتی موقف مسترد کرچکی ہے۔ وہ چند لوگ جو مہاجرین کی پناہ گاہوں پر بوتل بم اچھال رہے ہیں یا چانسلر کو مغلظات بک رہے ہیں دراصل اس بڑے جرمن طبقے کی نمائندگی کررہے ہیں جو خاموش ہے لیکن اپنے ملک میں مہاجرین بالخصوص مسلم تارکین وطن کی آمد سے خوش نہیں۔

ہجرت اور تارکین وطن کے انضمام سے متعلق تحقیقی ادارے برلن انسٹیٹیوٹ فار انٹگریشن اینڈ مائگریشن ریسرچ سے وابستہ ماہرسماجیات نائیکا فوروتان کہتی ہیں کہ جرمنوں کی بڑی تعداد ہجرت اور اسلام کی حقیقت کو شعوری طور پر تسلیم کرتی ہے مگر بہت سے لوگ دوسری رائے رکھتے ہیں۔ 2014ء میں نائیکا اور ان کی ٹیم نے پیرس اور برسلز میں ہونے والے حملوں سے قبل 8270 جرمنوں سے ایک سروے کیا تھا۔ ان میں سے 40 فی صد کا کہنا تھا کہ سر پر اسکارف پہننے والے جرمن نہیں ہوسکتے، جب کہ 40 ہی فی صد 'مشکوک' مساجد کی تعمیر محدود کردینے کے حق میں تھے۔ 60 فی صد ختنے پر پابندی چاہتے تھے اور 40 فی صد کی رائے میں جرمن ہونے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو ان کی زبان آتی ہو۔

دہشت گردانہ حملوں سے قبل، اور سال نو کے آغاز پر شمالی افریقا سے آنے والے مہاجرین کی جانب سے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے واقعات رونما ہونے سے پہلے بھی بیشتر جرمن مسلمانوں کو ایک خطرہ سمجھتے تھے۔ ان واقعات کے بعد دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو فعال ہونے کا موقع مل گیا۔ Alternative für Deutschland (AfD) نصف ریاستوں کی قانونی ساز اسمبلیوں میں نمائندگی رکھنے والی دائیں بازو کی مقبول سیاسی جماعت ہے۔ اے ایف ڈی کے راہ نما Björn Höcke کہتے ہیں کہ ہجرت کی وجہ سے باہمی اعتماد کی فضا تباہ ہوگئی جو کبھی جرمن معاشرے کا خاصہ ہوا کرتی تھی۔

مہاجرین ان ریاستوں میں قلیل تعداد میں ہیں جو سابق مشرقی جرمنی کا حصہ تھیں۔ انھی ریاستوں میں تارکین وطن کی سب سے زیادہ مخالفت پائی جاتی ہے۔ یہ ریاستیں معاشی طور پر مغربی جرمنی کی ریاستوں سے کمزور ہیں۔ ممکنہ طور پر یہاں امارت اور غربت کے درمیان وسیع ہوتی خلیج مہاجرین مخالف جذبات کو مہمیز کرسکتی ہے۔ تاہم نائیکا کے مطابق مجموعی طور پر جرمنی کی معیشت بہت مضبوط ہے۔ بے روزگاری کی شرح خاصی کم ہے اور جرمن حکومت اس قابل ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں میں سرمایہ کاری جاری رکھتے ہوئے تمام پناہ گزینوں کو ملک کا حصہ بناکر قومی دھارے میں شامل کرلے۔ ماہرسماجیات کے مطابق اصل مسئلہ اقتصادی بوجھ کا نہیں بلکہ تہذیبوں اور ثقافتوں کے تصادم کا ہے۔

چوالیس سالہ فوروتان، جس کی ماں جرمن اور باپ ایرانی تارک وطن تھا، ملک کی موجودہ صورت حال کا حل تعلیم میں دیکھ رہی ہے۔ ماہرسماجیات کے مطابق پناہ گزین مخالف جذبات بدلنے کے لیے لوگوں کو تعلیم دیے جانے کی ضرورت ہے اور جرمنی ماضی میں، محدود پیمانے پر ہی سہی، ایسا کرچکا ہے۔ آج اس ملک میں یہودی مخالفت کی شدت کافی کم ہوچکی ہے۔

ایک وجہ تو یہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، یہودیوں سے سخت عناد رکھنے والی نسل کے بیشتر لوگ دنیا سے جاچکے ہیں، اور دوسری یہ کہ نئی نسل اسکولوں کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے اور ٹیلی ویژن اور دوسرے ذرائع ابلاغ سے مستفید ہوتے ہوئے پلی بڑھی ہے۔ اساتذہ کی تربیت، درسی نصاب اور پھر ذرائع ابلاغ تک پہنچ نے ان میں یہودی مخالف جذبات اس شدت سے بھڑکنے نہیں دیے۔ یہی حکمت عملی پناہ گزینوں کے ضمن میں بھی اختیار کی جاسکتی ہے۔ بہ الفاظ دیگر جرمنی کو دنیا کے لیے اپنی راہیں کھولنی ہوں گی اور تبدیلی لانی ہوگی۔ قدامت پسند اس عمل میں مزاحم ہیں مگر صرف یہی طبقہ اس تصور کی مخالفت نہیں کررہا۔ مسلمان مہاجرین بھی جدیدیت کو گلے لگانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ دو سال قبل کیے گئے ایک سروے کے مطابق ان میں سے 30 فی صد بنیاد پرست تھے ۔ ان کی خواہش تھی کہ اسلام ساتویں صدی عیسوی والی شکل و صورت میں واپس آجائے اور اس کے اصول و ضوابط سیکولر قوانین پر غالب ہوں۔

کروزبرگ کی ایک مسجد میں میری ملاقات نوجوان مذہبی معلم سرغان سے ہوئی۔ دوسرے مسلمانوں کی طرح وہ بھی جرمنوں کے نفرت انگیز رویے سے شاکی تھا۔ سرغان کے خیالات جان کر میں حیران رہ گیا۔ اس کی اور اے ایف ڈی کے قدامت پسند راہ نما کی سوچ میں سرمُو فرق نہیں تھا۔ اس نے کہا،''پناہ گزینوں کا اس ملک سے کوئی تعلق ہے اور نہ مسلمانوں کا اس سرزمین سے کوئی ناتا۔'' وہ اپنے شناساؤں اور عزیزواقارب کو اس بات پر راغب کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ہوسکے تو ترکی واپس چلے جائیں، کیوں کہ جرمنی میں قرآنی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا بے حد مشکل ہے۔ قدامت پسند مسلمانوں اور جرمنوں کے درمیان جو معاملات وجہ نزع بن رہے ہیں ان میں مسلمانوں کا خواتین سے ہاتھ نہ ملانا اور ہم جنس پرستی کے خلاف عدم برداشت کا رویہ بھی شامل ہے۔ مگر یہاں ایسے مسلمان بھی ہیں جن کے لیے ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں۔ وہ کسی بھی رنگ میں ڈھلنے کے لیے تیار ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں