قطب شمالی میں آب و ہوا کی تبدیلی

گرمی کی شدت اور برف پگھلنے سے رینڈیئر اور اس کے گلہ بانوں کا وجود خطرے میں


Mirza Zafar Baig December 18, 2016
اندیشہ ہے کہ کہیں کرۂ ارض سے اس شان دار اور ان مول جانور کا وجود ہی نہ مٹ جائے۔ فوٹو : فائل

اس دنیا میں آب و ہوا کی تبدیلی یعنی گلوبل وارمنگ اور کرۂ ارض پر پڑنے والی شدید ترین گرمی نے جہاں دنیا کے دوسرے مقامات پر تباہی مچائی ہے، وہیں قطب شمالی کے خطے میں واقع سائبیریا میں بھی ایک بڑا طوفان برپا کردیا ہے۔ اس خطے میں برف پگھلنے کی وجہ سے ایک طرف تو پانی کی سطح بلند ہوگئی ہے، دوسری طرف یہاں رہنے اور بسنے والے مخصوص جانور رینڈیئرز کے لیے بھی غذائی قلت کا مسئلہ پیدا ہوگیا اور اسی وجہ سے 80,000 کے قریب رینڈیئرز بھی لقمۂ اجل بن گئے ہیں۔

دنیا بھر میں آب و ہوا میں تبدیلی کے اس عمل سے جہاں نہ جانے کتنے ہی جانوروں کی بقا اور سلامتی کا مسئلہ پیدا ہوا ہے، وہیں بے چارے رینڈیئرز بھی اس کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ نہ جانے آب و ہوا کی تبدیلی اور اس کے نتیجے میں مدتوں سے منجمد برف کے پگھلنے سے ابھی اور کون کونسی تباہیاں آنا باقی ہیں۔ اس سے پہلے جب ہم آب و ہوا کی تبدیلی پر بات کرتے تھے اور اس حوالے سے اس منظر کی تصویر کشی کرتے تھے تو ہمیں سب سے زیادہ مقبول اور قابل شناخت تصویر قطبی ریچھ کی دکھائی دیتی تھی جو بے چارہ برف کی چادر کے پگھلنے سے بے گھر ہوچکا ہے اور نہ جانے کتنی مشکل سے اس بچی کھچی چادر پر کسی نہ کسی طرح اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے اور یہ کسی بھی لمحے موت کے منہ میں جاسکتا ہے۔

اب جیسے جیسے ریسرچ ہورہی ہے اور قطب شمالی پر درجۂ حرارت بڑھنے سے ہزاروں سال سے منجمد برف کی چادر تیزی سے پگھل رہی ہے، ویسے ویسے نئے نئے اور حیرت انگیز اور ہلادینے والے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ مثال کے طور پر puffins یا بحری طوطے الاسکا کے ساحلوں پر مُردہ حالت میں پہنچ رہے ہیں۔ ان ساحلوں پر ان مردہ طوطوں کے ڈھیر جمع ہوچکے ہیں۔



ایک اور جانور بھی اس قیامت کی لپیٹ میں آگیا ہے اور وہ ہے امریکی pikas یا بے دُم خرگوش، وہ بے چارے بھی اس قیامت سے بہت پریشان ہیں، یہ خرگوش زیادہ سرد مقامات کی تلاش میں پہاڑوں کی زیادہ بلندیوں میں پہنچ جاتے ہیں، مگر اب موسم تبدیل ہونے سے نہ انہیں پناہ مل پارہی ہے اور نہ ہی خوراک، ایسے میں ان کا وجود بھی خطرے میں پڑتا جارہا ہے۔

wolverines یا ولورین وہ ممالیہ ہے جو برف سے محبت کرتا ہے اور شمالی امریکا کے شمال میں واقع جنگلات میں پایا جاتا ہے، یہ ولورین بے چارہ بھی سرسبز علاقوں کی تلاش میں ہے، مگر اسے کچھ نہیں مل پارہا، نہ سبزہ اور نہ سفید برف کی چادر۔ یہ جائے تو کہاں جائے!

اور اس کے بعد رینڈیئر بھی اس طوفان کی زد میں آگئے ہیں۔ سائبیریا میں یہ 80,000کے لگ بھگ فاقہ کشی کا شکار ہوکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ ان میں سے بہت سے رینڈیئرز کے مردہ جسم سائبیریا کی منجمد برف میں دفن ہوگئے تھے جو برف پگھلنے کے بعد منظر عام پر آگئے ہیں۔ یہ انکشاف مقامی سائنس دانوں کی ایک تازہ ریسرچ کے نتیجے میں ہوا ہے جس کے مطابق گذشتہ عشرے میں روسی جزیرہ نما ''یامال'' میں رینڈیئرز کی بڑے پیمانے پر اموات کے دو بڑے واقعات پیش آئے ہی جنہوں نے مقامی اور بین الاقوامی ماہرین حیاتیات کو ہلاکر رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین نے آب و ہوا میں تبدیلی اور درجۂ حرارت میں اضافے کو بہت بڑا قاتل عنصر قرار دیا ہے اور اس کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔



روس کا جزیرہ نما یامال شمال مغربی سائبیریا میں واقع ہے اور اسے دنیا میں رینڈیئرز کے سب سے زیادہ ریوڑ پیدا کرنے والا خطہ قرار دیا جاتا ہے۔ یہ جانور شدید یخ بستہ سردی اور دبیز برف کی تہہ میں رہنے کے لیے نہایت مناسب ہے، کیوں کہ یہ آب و ہوا رینڈیئر کو ہر لحاظ سے سوٹ کرتی ہے۔ صدیوں سے اس خطے میں رینڈیئرز کے غول کے غول گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں یہاں کے مقامی Nenets لوگ بڑی محنت اور شوق سے پالتے اور ان کی بریڈنگ کرتے ہیں۔ Nenets لوگ قطب شمالی کے اس سرد خطے کے آخری حقیقی خانہ بدوش ہیں جو صدیوں سے رینڈیئر پالتے چلے آرہے ہیں۔ گویا یہ لوگ اس خطے کے اصل وارث ہیں۔

لیکن آب و ہوا کی تبدیلی ان جائز وارثوں کی موجودگی میں بھی اب اس ماضی کے قیمتی اور معدوم ہوتے جانور یعنی رینڈیئر کی سلامتی اور بقا کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بنتی جارہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان برادریوں اور افراد کی بقا کا مسئلہ بھی پیدا ہوتا جارہا ہے جو اپنی زندگی اور اپنی معاشی جدوجہد کے لیے ان رینڈیئرز پر انحصار کرتے ہیں اور یہی جانور ان کا مرنا جینا ہے۔

حال ہی میں جرنل بایولوجی لیٹرز میں شائع ہونے والے ایک تحقیقی مطالعے میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گذشتہ عشرے کے دوران کم از کم 80,000 رینڈیئرز جزیرہ نما یامال میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ تو گذشتہ عشرے کی بات ہے، لیکن سائنس دانوں نے یہ خدشہ بھی ظاہر کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے اس سے کہیں زیادہ رینڈیئرز ہلاک ہوسکتے ہیں جس کے لیے ابھی تک کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔



یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ نومبر 2013ء میں لگ بھگ 61,000 رینڈیئرز جو ان کی مقامی آبادی کا ایک چوتھائی تھے، وہ بھی اسی جزیرہ نما پر فاقہ کشی اور بھوک کے ہاتھوں اپنی جانوں سے گئے۔ محققین کے مطابق یہ مقامی طور پر رینڈیئرز کی ہلاکت کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔

اس سے پہلے اتنی بڑی تعداد میں رینڈیئرز کبھی ہلاک نہیں ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ 2006 میں بھی اسی بھوک اور فاقہ کشی کے باعث 20,000 اضافی رینڈیئرز بھی اپنی جانوں سے گئے تھے۔ سائنس داں یہ خیال بھی ظاہر کرتے ہیں کہ ان دونوں واقعات میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مرنے والے رینڈیئرز اپنی پناہ گاہوں میں برف کی نہایت موٹی اور منجمد تہہ کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔ اس برف کی موٹی تہہ نے ان رینڈیئرز کے لیے مقامی جانوروں یا شکار اور دیگر نباتات تک ان کا پہنچنا ناممکن بنادیا تھا جس کی وجہ سے وہ بھوکے رہنے پر مجبور ہوئے اور اسی بھوک کے ہاتھوں مارے گئے۔

کچھ بھی کھائے پیے بغیر رینڈیئرز کافی بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے تھے۔
واضح رہے کہ یہاں کے مقامی Nenets لوگوں کا طرز زندگی کچھ ایسا ہے کہ وہ رینڈیئرز کو پال پوس کر اور ان کی گلہ بانی کرکے ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ بڑے بڑے قبیلوں کی شکل میں رہنے والے یہ مقامی افراد کئی کئی سو رینڈیئرز کے گروپس کی صورت میں انہیں پالتے ہیں اور انہی کے سہارے زندگی بسر کرتے ہیں۔



رینڈیئرز اپنے نکیلے پیروں کی مدد سے برف کی پتلی تہہ کو توڑ دیتے ہیں، لیکن ریسرچ کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 2006اور2013 میں برف زیادہ موٹی اور ٹھوس تھی جس کی وجہ سے ان رینڈیئرز کے لیے اسے توڑنا ممکن نہیں ہوا اور وہ بے چارے بھوک کے ہاتھوں مارے گئے۔

٭لیکن اصل وجہ کیا تھی؟
سائنس داں کہتے ہیں کہ اس ہلاکت کی بنیادی اور اصل وجہ غیرمعمولی گرم درجۂ حرارت تھا جو عام طور سے اس خطے میں نہیں ہوتا۔ جب اس خطے میں برف پگھلی تو اس کی وجہ سے عمل تبخیر کی سطح بھی بلند ہوئی اور نمی کی سطح میں بھی نمایاں اضافہ ہوا جس کے بعد موسلادھار اور تیز بارش ہوئی جس نے پہلے سے موجود برفانی میدانوں کو مزید گیلا کردیا۔ پھر اچانک درجۂ حرارت میں نمایاں کمی ہوئی تو برف تیزی سے جمنے لگی۔+



بتایا جاتا ہے کہ نومبر2013 میں یہاں مسلسل چوبیس گھنٹے تک طوفانی بارش کے بعد یہاں کا درجۂ حرارت منفی چالیس ڈگری فارن ہائیٹ تک گرگیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بارش نے اوپر سے لے کر نیچے تک نرم برف کا بالکل صفایا کردیا اور اس کے بعد ٹھوس اور منجمد برف کی سلیں سامنے آئیں جو ظاہر ہے کسی بھی طرح اتنی آسان نہیں تھیں کہ رینڈیئرز اس میں اپنے کُھروں سے کھدائی کرسکتے۔



اس سے پہلے کہ یہ برف موسم گرما میں نرم ہونی شروع ہوتی، یہاں کے مقامی افراد اپنے رینڈیئرز کی بڑی تعداد کو کھو چکے تھے یا پھر ان کے جانور ٹنڈرا کے سخت بے رحم علاقے میں پھنس چکے تھے اور بعد میں وہ بھی اپنی جانوں سے گئے۔ سائنس دانوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان مقامی افراد کے پاس ایسی کوئی چیز نہیں تھی جس سے وہ اپنے جانوروں کو کسی نہ کسی طرح کھینچ کھانچ کر اپنے کیمپوں تک پہنچاتے۔ ان لوگوں نے یہ کیا کہ اپنا سارا وقت اپنی بحالی میں لگایا، اپنے خیمے دوبارہ کھڑے کیے، اپنے بچے کھچے رینڈیئرز کو جمع کیا اور ان کی مدد سے آنے والے وقت میں اپنے ریوڑ دوبارہ تیار کرنے کی پلاننگ کی۔ ساتھ ساتھ اپنے مچھلی پکڑنے کے اوزار اور دیگر آلات بھی دوبارہ تیار کرلیے۔

واضح رہے کہ مقامی Nenets افراد کا اپنے قدیم اور روایتی کلچر اور تہذیب سے بڑا گہرا اور اٹوٹ رشتہ قائم ہے، نہ وہ رینڈیئر کے بغیر رہ سکتے ہیں اور نہ رینڈیئرز ان کے بغیر اپنا وجود برقرار رکھ سکتے ہیں۔ گویا یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔

Nenets لوگ اپنے رینڈیئرز کی کھال سے اپنے لیے لباس تیار کرتے ہیں، اس کا گوشت بہ طور غذا استعمال کرتے ہیں اور اس کی ہڈیوں سے اپنے لیے آلات و اوزار تیار کرتے ہیں۔ Nenets لوگ اپنے رینڈیئرز کے ریوڑوں سمیت موسم بدلتے ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کرتے ہیں۔ ان کا سالانہ ہجرت کا اپنا ایک خاص روٹ ہے جس پر سفر کرتے ہوئے وہ دیگر مقامات تک جاتے ہیں، یہ وہ راستے ہیں جنہیں وہ صدیوں سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں۔



سائبیریا کے رینڈیئرز کے ایک مقامی گلہ بان Sergei Hudi کا کہنا ہے:''یہ رینڈیئر ہمارا گھر ہے، یہ ہماری خوراک ہے، یہ ہمارے لیے حرارت فراہم کرنے کا ذریعہ ہے اور یہی ہماری ٹرانسپورٹ ہے۔''

رینڈیئرز سے مقامی Nenets افراد بہت پیار کرتے ہیں۔ مرد تو مرد ان کی عورتیں اور بچے بھی اپنے اس قدیم ساتھی کے دیوانے ہیں۔ یہ لوگ رینڈیئرز کی سالانہ دوڑ میں بھی بڑے ذوق و شوق سے حصہ لیتے ہیں۔ اس موقع پر بڑا جوش و خروش دکھائی دیتا ہے۔ دنیا سے بالکل الگ تھلگ رہنے والے یہ لوگ آج بھی دنیا کی ترقی اور خوش حالی سے بے خبر، لیکن اپنے حال میں مگن اور خوش ہیں۔



سائبیریا کے جزیرہ نما یامال میں بارشیں بہت زیادہ شدید ہونے لگی ہیں اور اسی وجہ سے سائبیریا مسلسل گرم ہوتا چلا جارہا ہے۔ خاص طور سے جب یہاں مقامی طور پر برف کے تہوار منائے جاتے ہیں تو بارش کا برسنا ایک معمول بنتا جارہا ہے۔ اس کی وجہ سے نہ صرف مقامی رینڈیئرز کی آبادی کے لیے خطرات پیدا ہورہے ہیں، بل کہ Nenets گلہ بانوں اور ان کی برادریوں کے لیے بھی نئے نئے مسائل پیدا ہونے لگے ہیں اور یہ معصوم اور بے ضرر جانور بھی خطرات میں گھرتا چلا جارہا ہے۔ ذرا سوچیے کہ اگر اس خطے کو ایک بار پھر خشک سالی نے بہت بڑے پیمانے پر اپنی لپیٹ میں لے لیا تو کیا ہوگا؟

National Snow and Ice Data Center کے مطابق بحرمنجمد شمالی میں اس بار اکتوبر میں برف باری کی سطح کسی بھی اکتوبر میں برف باری کی ریکارڈ کی گئی سطح سے کم ترین تھی اور خاص طور سے کارا سمندر میں یہ زیادہ ہی کم رہی۔



The International Union for Conservation of Nature کے خیال میں اس خطے میں رینڈیئرز کے وجود کے لیے بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اس کے مطابق رینڈیئرز کی آبادی 1990کے بعد سے 20 فی صد تک کم ہوگئی ہے۔ اگر یہ کمی اسی طرح جاری رہی تو اندیشہ ہے کہ کہیں کرۂ ارض سے اس شان دار اور ان مول جانور کا وجود ہی نہ مٹ جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں