رمضان اور کشکول گدائی
لیکن صدقات اور زکوٰۃ میں نہ تو غنی کا کوئی حصّہ ہے اور نہ اُس شخص کا جو تندرست اور توانا اور کمانے پر قادر ہو
حضرت عبیداﷲ بن عدی بن خبار سے روایت ہے کہ مجھے دو آدمیوں نے بتایا کہ وہ حجۃ الوداع کے موقعے پر نبی کریم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ اُس وقت لوگوں میں مال زکوٰۃ تقسیم فرما رہے تھے۔انھوں نے بھی کچھ مال لینے کی خواہش ظاہرکی تو آپ نے ان دونوں پر نظر دوڑائی اور ہم کو تندرست و توانا پایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر تم لینا چاہو تو میں تم کو اس مال میں سے کچھ دے سکتا ہوں۔
لیکن صدقات اور زکوٰۃ میں نہ تو غنی کا کوئی حصّہ ہے اور نہ اُس شخص کا جو تندرست اور توانا اور کمانے پر قادر ہو (ابو دائود/ نسائی/ مشکوٰۃ) اس حدیث مبارکہ سے یہ بات تو پوری طرح واضح ہوگئی جو بھی شخص تندرست، توانا اور اپنے ہاتھ پائوں سے سلامت اور محنت مزدوری کرکے رزق حلال کمانے کے قابل ہو تو اُسے ہر صورت کام کاج کرکے روزی کمانا چاہیے نہ کہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کرنا چاہیے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے معاشرتی و سماجی نظام میں اس قدر کمزوریاں، خامیاں اور نقائص ہیں کہ یہ ایک منقسم، منتشر، بے سمت، بے چین اور اخلاقی گراوٹ کا شکار نظر آتا ہے اور یہاں بھیک مانگنا کوئی معیوب بات نہیں بلکہ یہ بھی ایک ''پروفیشن'' بن چکا ہے۔
ملک کے ہر شہر، گائوں، قصبے، سڑکوں، گلیوں، بازاروں، ایئر پورٹس، ریلوے اسٹیشنوں، بسوں اور ویگنوں میں تندرست، توانا، توانگر اور ہاتھ پائوں سے سلامت مرد، عورتیں، بوڑھے، بچّے کشکولِ گدائی لیے صدائیں لگائے روز بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
گداگری کا پیشہ رمضان المبارک کے بابرکت اور رحمتوں والے مہینے میں خوب پروان چڑھتا ہے۔ پیشہ ور گداگر اپنے آبائی قصبوں اور دیہاتوں سے نکل کر ملک کے اہم شہروں اسلام آباد، لاہور، کراچی، کوئٹہ، پشاور، حیدرآباد، ملتان اور فیصل آباد وغیرہ کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔ چونکہ شہروں میں زیادہ متمول اور نسبتاً خوش حال لوگ رہتے ہیں جو خاص طور سے رمضان المبارک میں اپنے مال و متاع کی زکوٰۃ، صدقات اور خیرات وغیرہ کثرت سے غرباء و مساکین میں تقسیم کرتے ہیں۔
اسی لیے یہ پیشہ ور گداگر اور دیہی و پس ماندہ علاقوں کے غریب، نادار، مفلس اور ضرورت مند لوگ بھی رمضان میں ''کمائی'' کے لیے شہری علاقوں میں ڈیرے ڈال لیتے ہیں۔ آغا خان ڈیولپمنٹ نیٹ ورک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سالانہ 13 ارب 78 کروڑ روپے سے زاید زکوٰۃ دی جاتی ہے جب کہ 16ارب کے لگ بھگ چیریٹی کی مد میں دیے جاتے ہیں۔ گویا مجموعی طور پر کم و بیش 30 ارب روپے مالی طور پر خیرات کیے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ تقریباً ساڑھے 11 ارب روپے سالانہ کی امدادی اشیاء بھی غریبوں اور ضرورت مندوں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور خیرات کے ان اربوں روپوں سے اپنے کشکول بھرنے کے لیے ہٹے کٹے پیشہ ور گداگروں کے غول کے غول ملک کے طول و عرض میں سرگرم ہوجاتے ہیں۔اس نظام میں بنیادی تبدیلی لانا ناگزیر ہے اور سماجی بہبود کے منصوبوں میں گداگری کے خاتمے کو اولیت دینی چاہیے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں سڑکوں پر پیشہ ور بھکاریوں کا جم غفیر نظر آنے کا مطلب ہی یہی ہے کہ سسٹم میں مضمر خرابیوں کی اصلاح کی طرف حکمرانوں نے مناسب توجہ نہیں دی۔اس جانب سنجیدگی سے اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً دو لاکھ سے زاید پیشہ وربھکاری ملک کے مختلف شہروں میں باقاعدہ ایک منظم نیٹ ورک کے تحت صبح و شام ''محنت مزدوری'' کررہے ہیں جو مختلف گروپوں اور گروہوں میں تقسیم ہیں اور ہر گروپ اورگروہ باقاعدہ ایک سرغنہ یا سردار کی زیر نگرانی کام کرتا ہے۔آپ کبھی پیشہ ور بھکاریوں کی نفسیات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ یہ لوگ ہر طرح کے جذبات و احساسات سے عاری ہوتے ہیں۔بھیک مانگنا ان کے لیے قطعاً کوئی شرم کی بات نہیں، اسی لیے دوسروں کے آگے دستِ سوال بڑھانے میں انھیں کوئی جھجک محسوس ہی نہیں ہوتی۔
دراصل پیشہ ور گداگروں کو ان کے ''گرو'' خاص قسم کی ٹریننگ دیتے ہیں۔ بھکاریوں کو چند ایسے مخصوص التجائی فقرے اور جملے یادکروائے جاتے ہیں،جن سے معصومیت ومسکینی ٹپکتی ہے اورسننے والوں کے دل میں ان سے ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور وہ بادل نخواستہ تندرست وتوانا بھکاریوں کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔پورے رمضان اور عیدالفطر کے ایّام میں شہر کی مختلف شاہراہوں پر واقع سگنلز پر،علاقائی مساجد کے گیٹ پر، بازاروں، شاپنگ سینٹروں، بس اسٹاپوں، ریستورانوں، ہوٹلوں و دیگر مقامات پر بھکاری بچّے، مرد اور عورتیں عوام النّاس کے آگے پیچھے گھومتی نظر آتی ہیں۔
نوجوان گداگر لڑکیاں بالعموم غیرمناسب لباس پہنے چھوٹے چھوٹے ننگ بدن بچّوں کو بغل میں دبائے مردوں کے دائیں بائیں چکر لگاتی رہتی ہیں۔ کبھی ان کا دامن، آستین اور ہاتھ پکڑلیتی ہیں، نازیبا اشارے کرتی ہیں اور بھیک لیے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ بعض تیز و طرار اور جرائم پیشہ گداگر عورتیں جیب کاٹنے، خواتین کی سونے کی انگوٹھی، کان کی بالیاں اور پرس چھیننے کی وارداتیں بھی کرتی ہیں۔ گداگری کے پیشے سے وابستہ لوگ عجیب و غریب خصلتوں اور مزاج کے حامل ہوتے ہیں۔
عزّت و خودداری نام کی کسی چیز سے یہ نابلد ہوتے ہیں۔ ان کا سرغنہ ان سے ہر طرح کا بیگار، عورتوں اور بچّوں کو گداگری کے جہنّم میں جبری طور پر جھونک دیا جاتا ہے۔ گداگروں کے سرغنہ اور سردار کے جرائم پیشہ گروہ، بردہ فروشوں اور تخریب کاروں سے بھی تعلق ہوتے ہیں جو کمسن بچوں کو اغوا کرکے بھکاریوں کے سرغنہ کو فروخت کردیتے ہیں جو ان بچّوں کو بھیک مانگنے کی تربیت دیتے ہیں۔
بعض سفّاک و ظالم تو بچّوں کے ہاتھ پائوں دانستہ توڑ کر انھیں چلنے پھرنے سے معذور کردیتے ہیں اور ایسے بچوں کو مختلف مزارات، درگاہوں، بس اسٹاپوں، بازاروں و دیگر مقامات پر بٹھا کر بھیک منگوائی جاتی ہے اور اغوا شدہ لڑکیوں کو جوان ہونے پر جسم فروشی کے گھنائونے دھندے پر لگادیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے حکومتی سطح پر گداگری کے پیشے اور بھکاریوں کی حوصلہ شکنی اور ان کی اصلاح کے لیے کوئی سنجیدہ اور بامعنی کوششیں نہیں کی گئیں۔
یہی وجہ ہے کہ پیشہ ور گداگر اور بھکاریوں کے روپ میں جرائم پیشہ لوگ پوری آزادی کے ساتھ ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور بطور خاص رمضان المبارک میں تو ان لوگوں کی گویا چاندی ہوجاتی ہے۔ تاہم اس مرتبہ کراچی کی سول انتظامیہ اور پولیس نے شہر میں پیشہ ور گداگروں کے خلاف بھرپور آپریشن کا فیصلہ کرلیا ہے اور بھکاریوں کو پکڑ کر جیل بھیجنے کے علاوہ ایدھی ہوم اور سوشل ویلفیئر ہائوس میں رکھا جائے گا۔
کمشنر کراچی روشن علی شیخ کے بقول گداگروں کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی جائے گی۔ امید کی جانی چاہیے کہ کمشنر کراچی کی کوششیں رنگ لائیں گی اور کراچی کے شہری اس رمضان المبارک میں پیشہ ور بھکاریوں اور جرائم پیشہ افراد سے محفوظ رہیں گے۔