فلمساز جس کی دعوتیں بڑی مشہور تھیں آخری حصہ
فلم ’’نادان‘‘ جہاں فلمساز قدیرخان اورہدایتکار اقبال اختر کے لیے ایک آزمائش تھی
فلم ''نادان'' جہاں فلمساز قدیرخان اورہدایتکار اقبال اختر کے لیے ایک آزمائش تھی، وہاں اداکارندیم کے لیے بھی فلم ''نادان'' ایک بہت بڑا چیلنج تھی۔اب یہ کیوں چیلنج فلم تھی یہ میں آگے چل کر بیان کروںگا۔ فی الحال یہ بتاتا چلوں کہ اقبال اختر فلم ایڈیٹنگ کے شعبے کے دادا استاد تھے۔کراچی میں اس شعبے سے وابستہ زیادہ تر افراد اقبال اختر ہی کے شاگرد تھے۔خاص طور پر شفیع قاضی، ایم عقیل، اے سعید اور فلم ایڈیٹر زلفی نہ صرف ان لوگوں نے کراچی میں نام پیدا کیا بلکہ اے سعید اور زلفی نے تو لاہورکی فلم انڈسٹری میں بھی اپنا ایک منفرد مقام بنایا اور انھیں وہاں کئی فلموں میں بہتر فلم ایڈیٹرزکے ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ اب میں پھر اقبال اخترکی طرف آتا ہوں۔ اقبال اخترکو انڈیا کی ایک فلم ''گوپی'' دکھائی گئی اور یہ کہا گیا کہ آپ نے اس فلم کا ہو بہو چربہ اتارنا ہے۔
گوپی میں دلیپ کمار ہیرو تھا اورآپ نادان میں ندیم کو بطور ہیرو لے رہے ہیں۔ فلمساز قدیرخان جو بمبئی سے آئے ہوئے مصنف و ہدایت کار شوکت ہاشمی سے فلم ''جلے نہ کیوں پروانہ'' بنوا کر اپنی اچھی رقم ڈبوچکے تھے، مذکورہ فلم بری طرح فلاپ ہوئی تھی۔ فلمسازقدیر خان اب مزید کوئی رسک نہیں لینا چاہتے تھے۔ یہاں میں پھر ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ پاکستان فلم انڈسٹری کا وہ دور ایک ایسا دور تھا جس میں مصنف، فلمسازوہدایت کار شباب کیرانوی، ہدایت کارخالد خورشید (سابق کے کمار) اور ہدایت کار نذر الاسلام تسلسل کے ساتھ انڈیا کی کامیاب اور سپر ہٹ فلموں کو مشرف با اسلام کررہے تھے اور کاپی فلمیں اس دور میں خوب بزنس کررہی تھیں۔
فلمساز قدیر خان بھی نادان بناکر اپنا سارا پچھلا نقصان پورا کرنا چاہتے تھے اور ان کی خواہش تھی کہ اب ہدایت کار اقبال اختر اپنی تمام مہارت اس فلم کے بنانے میں استعمال کریں۔ فلمساز قدیر خان نے اقبال اختر سے کہا میں بھی فلم انڈسٹری میں پیسہ کمانے کے لیے آیا ہوں پیسہ گنوانے کے لیے نہیں اور جب لاہور کی فلم انڈسٹری میں بڑے بڑے فلمسازوہدایت کارکاپی فلمیں بنارہے ہیں تو آپ کی تو ابھی ابتدا ہے آپ کو بھی فلم انڈسٹری میں اپنے لیے جگہ بنانی ہے اور پیسہ بھی کمانا ہے اس طرح سارے معاملات طے ہوگئے اور ہدایت کار اقبال ہر چیلنج قبول کرنے کے لیے تیار ہوگئے۔
ہیرو ندیم کے ساتھ نشو کو ہیروئن لے کر فلم کی شوٹنگ کا آغاز کردیاگیا، فلم گوپی کی کہانی سلجھا نند مکھرجی نے لکھی تھی جب کہ نادان کی کہانی پر اداکار رحمان کا نام دیا گیا اور رحمان کو فلم میں ایک کردار بھی دیا گیا۔ فلم کے مکالمے مشہور فلمی صحافی اور رائٹر دانش دیروی نے لکھے۔ گوپی میں موسیقارکلیان جی آنند تھے۔
''نادان'' کی موسیقی کراچی کی موسیقار جوڑی لال محمد اقبال کے سپرد کی گئی لیکن ہوا یوں کہ موسیقار لال محمد اقبال اپنی جگہ اڑگئے کہ وہ ہم گوپی کے گانوں کی کاپی نہیں کریںگے بلکہ اپنی دھنیں بنائیںگے اور انھوں نے پندرہ بیس دن مانگے کہ وہ اوریجنل دھنیں بناکر آپ کو پیش کریںگے اگر گوپی سے اچھی دھنیں نہ دے سکے تو وہ فلم نادان چھوڑدیںگے۔ پھر مشروط انداز میں تین ہفتوں کے بعد جب فلمساز اور ہدایت کار کو اپنی دھنیں سنائیں تو وہ تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے اور انھیں موسیقار منتخب کرلیاگیا۔ فلم کی ساری موسیقی بڑی خوبصورت تھی۔ اچھی دھنیں تھیں اور خاص طور پر ایک گیت تو کمال کا کمپوز کیا تھا۔
بھولا بھولا میرا نام
ہنسنا گانا میرا کام
پھر یہ گانا فلم کی ہائی لائٹ بنا تھا۔ہدایت کار اقبال اختر نے فلم کے کورس ڈانس بھی بہت خوبصورت فلمبند کیے تھے اور ندیم کے ساتھ نشو کی جوڑی کو فلم میں اس طرح پیش کیا تھا کہ یہ جوڑی فلم گوپی کی جوڑی دلیپ کمار اور سائرہ بانو سے کسی طرح بھی کم نہیں تھی اور ندیم دلیپ کمارکے گیٹ اپ میں ساری فلم پر چھایا ہوا تھا، نشو کا بھی ہنستا مسکراتا چہرہ فلم بینوں کو رجھانے کا باعث بنا تھا۔
نادان فریم ٹو فریم گوپی کی کاپی تھی۔ ہدایت کار اقبال اختر نے بڑی سوجھ بوجھ سے کام لیا تھا۔ بحیثیت فلم ایڈیٹر بھی فلم کے ٹیمپو کو فاسٹ کرنے اور برقرار رکھنے میں اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کردی تھیں اور ہدایت کار اقبال اختر نے اس محاورے کو سچ کردکھایا کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے، فلم کے کیمرہ مین جان محمد تھے اور جان محمد نے بھی فلم نادان کے ایک ایک فریم میں اپنی محنتوں سے جان ڈال دی تھی جب نادان نمائش کے لیے پیش ہوئی تو باکس آفس پر اس نے ہر شہر میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے تھے۔ نٹ کھٹ ندیم نے اپنی بے ساختہ اور خوبصورت اداکاری سے فلم نادان ہٹ کرا دی تھی اور اس طرح میلہ لوٹ لیا تھا۔
یہاں یہ بات بھی بتانی ضروری ہے کہ دلیپ کمار اور سائرہ بانو کی فلم گوپی صرف اوسط درجے کی کامیاب فلم تھی جب کہ نادان بہت ہی کامیاب فلم ثابت ہوئی اس فلم نے گولڈن جوبلی منائی تھی اور نادان نے فلمساز قدیر خان کی پچھلی فلم کی ناکامی کے سارے داغ دھودیے تھے اور فلمساز قدیر خان نے نادان کی کامیابی کا زبردست جشن منانے کے لیے پھر ایک شاندار دعوت اور پارٹی کا اہتمام کیا تھا اوراس طرح فلمسازکی طرف سے دوستوں کی دعوت کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔
فلم نادان کی بے مثال کامیابی کے بعد ہدایت کاراقبال اختر نے ایک فاتح کی حیثیت سے لاہور کی فلم انڈسٹری کا رخ کیا جہاں ہدایت کار اقبال اخترکو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور فلمسازوں نے اس ہدایت کار کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھادی تھیں اور لاہور میں اقبال اختر نے ابتدا میں کئی فلمیں میگا کاسٹ کی شروع کیں جن میں محمدعلی، وحید مراد، ندیم اور شاہد کو کاسٹ کیا گیا اور اقبال اختر کو بڑی کاسٹ کی فلموں کے ہدایت کار کا طعنہ بھی دیا گیا اب لاہور میں ہدایت کار نذر الاسلام کی ٹکر کا جو ہدایت کار تھا وہ اقبال اختر ہی تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ نذرالاسلام بھی ہدایت کار بننے سے پہلے ڈھاکا میں ایک فلم ایڈیٹر تھا۔ ڈھاکا کی بیشتر بنگلہ فلموں میں بطور فلم ایڈیٹر کام کیا مگر بحیثیت ایک کامیاب ہدایت کار نذرالاسلام کو بھی شہرت اور مقام لاہور کی فلم انڈسٹری ہی سے ملا اور دوسری دلچسپ بات دونوں میں یہ مشترک تھی کہ دونوں بڑی کاسٹ کے بغیر فلمیں نہیں بناتے تھے اور یہ بات دونوں ہدایت کاروں نے آخری وقت تک برقرار رکھی پھر ایک وہ دور آیا کہ پاکستان فلم انڈسٹری کو جنرل ضیا کی نظر لگ گئی۔ اسٹوڈیوز میں سناٹے چھاگئے۔
فلمی دنیا سے متعلق افراد مالی پریشانیوں سے دوچار ہونے لگے اس دور میں بہت سے فلمی افراد لاہور کی فلم انڈسٹری چھوڑگئے۔ متبادل کاروبار کی طرف منتقل ہوگئے اور ٹیکنشنز کے گھروں کے چولہے بجھنے لگے۔ اسی دوران ہدایت کار اقبال اختر بھی لاہور چھوڑنے پر مجبور ہوگئے اور واپس کراچی آگئے۔ کراچی کی فلم انڈسٹری پہلے ہی سے زوال پذیر تھی وہ بھی ہدایت کار اقبال اختر کوکوئی سہارا نہ دے سکی اسی دوران وہ بیمار ہوگئے کافی دنوں تک ایک حوصلہ مند انسان کی طرح بگڑے ہوئے حالات اور بیماری سے لڑتے رہے اور پھر اپنے پی آئی بی کے پرانے گھر میں ہی بیماری کے دوران ہی اﷲ کو پیارے ہوگئے۔
مجھے اخبارات کے ذریعے ان کے انتقال کی خبر ملی فلم شرمیلی کے دوران میرے ساتھ بھی اقبال اخترکی بڑی شفقت رہی تھی میں ان کے سوئم کی فاتحہ میں مسجد کا پتا معلوم کرکے پی آئی بی کالونی گیا اور فاتحہ میں شریک ہوا مگر مجھے یہ دیکھ کر بڑا دکھ ہوا کہ وہاں کراچی کی کوئی اہم فلمی شخصیت مجھے نظر نہیں آئی۔ صرف ان کے چند شاگرد اور ایک معاون ہدایت کار عارف خان ہی نظر آیا۔ یہ دیکھ کر مجھے اقبال اختر کا وہ زمانہ یاد آگیا جب اس کے ارد گرد بڑے بڑے فلمسازوں، ہدایت کاروں اور اداکاروں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی۔ فلمی دنیا سے متعلق اس بے حسی پر میری آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔