یہ بھارتی فلمیں کیوں
دشمن دشمن ہے وہ زیادہ سے زیادہ نقصان کا خواہشمند ہوتا ہے اور اگر نقصان زیادہ نہ ہو تو وہ اس پر غم کرتا ہے
لاہور:
سترہ دسمبر کو میں ایک پاکستانی کی طرح گزشتہ کل 16دسمبر سے وابستہ اپنی کربناک یادوں کا بوجھ اٹھائے یہ سطریں لکھ رہا ہوں۔ ہماری پاکستان کی مختصر سی تاریخ کا کوئی وقفہ ایسا نہیں گزرا جس میں ہم کسی نہ کسی حادثے اور غم کا بوجھ اٹھائے ہوئے نہ ہوں۔ ملک ٹوٹنے کا لازوال غم ہمیں سنبھلنے نہیں دیتا کہ کوئی دوسرا سانحہ ہمیں اس غم و اندوہ میں آ لیتا ہے اور ہمیں ادھ موا کر دیتا ہے۔
ڈھاکا کے بعد پشاور میں بچوں کا سانحہ ہم کیسے بھول سکتے ہیں اسی طرح کوئی دن نہیں جاتا کہ اور کوئی نہیں تو بھارت ہی اپنا شوق پورا کرنے کے لیے کہیں نہ کہیں ہمیں کسی المیہ سے دوچار کر دیتا ہے، جیسا اب کے نکیال سیکٹر میں بھارت نے پاکستانی بچوں کی اسکول بس پر پھر حملہ کر دیا، دس طلبہ زخمی ہو گئے اور ڈرائیور شہید ہو گیا جو بچ گئے ان کی زندگی ابھی باقی تھی ورنہ دشمن نے تو ان سب کو اپنی خونریزی کا نشانہ بنا لینا تھا۔ اس سانحہ میں جو بچ گئے جنھیں زخمی کیا گیا ہے خدا جانے ان کی کیا حالت ہے۔ بعض زخمی تو عمر بھر کے لیے زخمی ہو جاتے ہیں۔
دشمن دشمن ہے وہ زیادہ سے زیادہ نقصان کا خواہشمند ہوتا ہے اور اگر نقصان زیادہ نہ ہو تو وہ اس پر غم کرتا ہے۔ ہمارا دشمن ہمارا مستقل پڑوسی ہے اور یک گونہ، یہ ایک ایسی بات ہے جو بظاہر پریشان کن ہے لیکن اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ہم دشمن سے ہر وقت خبردار رہتے ہیں، اب دشمن تو تاریخ نے پیدا کر ہی دیا ہے جس میں ہم کچھ کر نہیں سکتے کہ پڑوسی کو دور کیسے کریں لیکن اس کی دشمنی سے خبردار رہ سکتے ہیں نہ کہ اس کی فلموں کے لیے بے چین ہو جاتے ہیں جیسے کہ ان دنوں ہمارے سینما والے شروع ہو گئے ہیں کہ نئی نہیں تو فی الحال ابھی وہ پرانی فلمیں ہی دوبارہ دکھانی شروع کر دیں جن کی نمائش پابندی کی وجہ سے ادھوری رہ گئی تھی، ہم ان دنوں بھارتی فلموں کے لیے بے چین ہو رہے ہیں اور امکان ہے کہ ان کی نمائش کی اجازت مل جائے گی اور ہم پاکستانی اپنے دشمن کی فلموں کو اپنے سینماؤں میں شوق سے دیکھ رہے ہوں گے چونکہ زبان انداز ایک سا ہی ہے ۔
اس لیے بھارتی فلمیں ہمیں پسند ہیں مگر افسوس کہ ہم پاکستانی اس قدر بے حس یا بے غیرت نہیں تھے کہ اپنے دشمن کی پذیرائی کرتے اور اپنے خرچ پر اس کی فلمی صنعت کی مدد کرتے۔ ہمارے حکمرانوں کو اگر بھارتی فلموں کا شوق ہے اور ان کے اہل و عیال انھیں دیکھنا چاہتے ہیں تو شوق سے وہ ان فلموں کی نمائش کا خصوصی بندوبست کر لیں لیکن یہ گند وہ پورے ملک میں نہ پھیلائیں۔
ہم پاکستانی بطور ایک عیاش کے بھارتی فلموں اور عام کلچر کو پسند کرتے ہیں، بھارتی ناری کی بندیا اور ساڑھی ہمیں بہت پسند ہے لیکن پسند تو اور بھی بہت کچھ ہے لیکن کیا ضروری ہے کہ ہم بھارت کے عام کلچر کو بھی پسند کریں جو ہماری روایات کے مطابق نہیں ہے اور اپنا ایک الگ انداز رکھتا ہے، ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں یا ہمیں اسے بھلانے پر آمادہ کر لیا جاتا ہے کہ ہم نے بھارت کو اپنا دشمن جان کر اس سے سب کچھ الگ کر لیا تھا۔ زبان بدل گئی اور لباس بدل گیا لیکن مندر اور مسجد میں جو فرق تھا وہ مزید مستحکم ہو گیا اور ہم اگرچہ پڑوسی تھے اور زمین کے ایک ہی حصے میں آباد تھے لیکن اس سب کے باوجود ہم الگ الگ تھے۔ ہماری زبان جو کل تک ملتی جلتی تھی وہ اب ایک دوسرے سے مختلف ہو گئی اور تہذیبی لباس بھی بدل گیا، شادی بیاہ پر ہماری خواتین کا لباس مختلف رہا اور ہم نے زبان اور لباس تک میں اپنے آپ کو الگ رکھنے کی کوشش کی اور اس میں کامیاب رہے۔
آج قریب ترین پڑوسی اور کئی باتوں میں مشترک ہونے کے باوجود کوئی بھی ہمیں دیکھ کر اور برت کر پہچان سکتا ہے کہ ہم ایک الگ الگ قومیں ہیں۔ حالات اور جغرافیہ نے اگر ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے لیکن ہمارے درمیان جو نظریاتی دوری ہے اور ہمارے مخصوص کلچر میں جو اختلاف ہے وہ تاریخ اور جغرافیہ نہیں مٹا سکا اور نہ ہی مستقبل میں اس کا کوئی امکان ہے۔ مسلمان اور بھارت میں مستقل آباد ہندو قوم دونوں جدا ہیں ان کا رہن سہن ایک دوسرے سے الگ الگ ہے اور ان کی عام زندگی کا انداز بھی مختلف ہے۔ بہرکیف اس پر بحث اس لیے بے کار ہے کہ دونوں قوموں کا مذہب تک ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے اور یہ جہاں بھی ہیں۔
ان کا رہن سہن الگ الگ ہے۔تعجب ہے کہ یہ سب کچھ سامنے کی باتیں ہیں مگر پھر بھی ہم بھارتی فلموں کے طلب گار ہیں جن میں بھارتی کلچر کی نمائش کی جاتی ہے اور ہمارے بچے تک یہ سب دیکھ کر شرما جاتے ہیں لیکن ہمارے بعض سینما والے بھارتی فلموں کے دل و جان سے خواہشمند ہیں اور اپنے سینماؤں میں ان کی نمائش کے طلب گارہیں۔ یہ فلمیں اپنے ساتھ جو کچھ لاتی ہیں وہ پاکستانیوں کو معلوم ہے لیکن یہ وہ بھی پاکستانی ہیں جو اپنی مالی منفعت کے لیے بھارتی فلموں کے طلب گار ہیں کہ ان کی آمدن میں اضافہ ہو۔ خواہ ان فلموں کیوجہ سے ان کے ماحول کو کس قدر نقصان کیوں نہ ہو اور ان کی نئی نسل کو زندگی کا وہ انداز چلتا پھرتا دکھایا جائے جو ان کو منظور نہیں اورجس کو چھوڑ کر انھوں نے ایک ایسا پاکستان حاصل کیا جس کا کلچر یقینی طور پر ہندو کلچر سے مختلف ہو اور جس میں ایک مسلمان معاشرے کا مذاق نہ اڑایا جائے۔