بلاول کی باری
بلاول بھٹو زرداری ، جن کی تقاریر کو ہم نے ہمیشہ پر لطف پایا
بلاول بھٹو زرداری ، جن کی تقاریر کو ہم نے ہمیشہ پر لطف پایا، اپنے ایک غیرمحتاط ٹوئٹ کے باعث گذشتہ دنوں خبروں میں رہے۔ صاف نظر آرہا ہے کہ اب وہ ان سرگرمیوں سے محظوظ ہونے لگے ہیں۔ مطالبات داغے، دعویٰ ٹھونکا، بڑھک ماری اور پیرس ہلٹن کے ساتھ سیلفی بنوا لی۔ ن لیگ پر کرپشن کی چوٹ کرتے ہوئے اُن کے ہونٹوں پر ایک خاص مسکراہٹ ہوتی ہے، جو عام لوگوں کو ہنسنے پر اکساتی ہے۔
اس ٹوئٹ پر ن لیگ کے کرارے جواب نے بھی ، جسے آکسفورڈ کی تعلیم کو شرمندہ کرنے والے ٹکڑے نے زبردست تڑکا لگا، ٹھیک ٹھاک خبریں بٹوریں۔اورنگ زیب فاروقی نے واضح کر دیا کہ وہ کسی طور پرویز رشید سے کم نہیں۔ لکھ لیجیے صاحب، ماحول اب مزید گرم ہوگا۔ انتخابات دھیرے دھیرے قریب آرہے ہیں۔ میاں نواز شریف نئے آرمی چیف کی تعیناتی جیسے اہم ترین فیصلے کے بعد، گو یہ ایک معمول کا فیصلہ ہونا چاہیے تھا، نہ صرف نیا چیف جسٹس تعینات کر چکے ہیں، بلکہ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے اپنا چیف جسٹس لانے کا الزام بھی سہہ چکے ہیں۔ خورشید شاہ صاحب کو خوب علم ہے کہ اب چیف جسٹس کا فیصلہ ویسے نہیں ہوتا، جیسے ایک بار پی پی نے کیا تھا، اب سنیارٹی دیکھی جاتی ہے، مگر کیا کیجیے، اگلے انتخابات قریب آرہے ہیں۔ فرینڈلی اپوزیشن کا داغ اب دھونا ہوگا۔
تو ہم بات کر رہے تھے بلاول بھٹو زرداری کے ٹوئٹ کی۔ اسی تسلسل میں مشیر اطلاعات سندھ، مولا بخش چانڈیو، جو کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں سے لاعلم رہنے میں مطمئن، چوہدری نثار کو بلاول کی شہرت سے خوف زدہ ہوکر بہکی بہکی باتیں کرنے کا طعنہ دے ڈالا۔ ضرور اپنے اِس بیان پر آپ اپنا کاندھا تھپکا ہوگا۔ آپ کو سندھ کے وزراء سے درجنوں شکایات ہوں گی، مگر یہ یاد رکھیں، اُنھوں نے اپنے پر مزاح بیانات کے ذریعے عوام کا دل بہلانے کا ہمیشہ اہتمام کیا۔ کبھی منظور وسان اپنے دلچسپ خوب سنایا کرتے تھے۔ سائیں قائم علی شاہ کا تو ذکر ہی کیا۔ وہ تو مقالات کا موضوع ہیں۔
ویسے مولا بخش چانڈیو اکیلے نہیں، جن کی توپوں کا رخ چوہدری نثار کی سمت رہا۔ شاہ محمود قریشی بھی اُن کی پریس کانفرنس کو سپریم کورٹ پر براہ راست حملہ ٹھہرا چکے ۔ شاہ صاحب تول کر، بلکہ زور ڈال کر بولنے کے عادی ہیں۔ سپریم کورٹ پر براہ راست حملہ کہہ کر دراصل اُنھوں نے میاں صاحب کے دوسرے دور حکومت کے اُس افسوسناک واقعے کی طرف اشارہ کیا ، جب وزیر اعظم پاکستان اور چیف جسٹس آف پاکستان ایک دوسرے کے مد مقابل آن کھڑے ہوئے تھے، اور عدلیہ تقسیم ہوگئی ۔ شاہ صاحب منجھے ہوئے سیاست دان ہیں۔ ہمارا مشورہ ہے کہ سیاسی نجومی ان پر نظر رکھیں، اگلے انتخابات سے قبل اُن کے اقدامات اور فیصلے ہی یہ خبر دیں گے کہ پی ٹی آئی کا کیا مستقبل ہے۔
چوہدری نثار ویسے ہی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں، اور سادگی کے باعث اس بات سے بے خبر ہیں کہ اس کا'' ذمہ وار'' کوئی اور نہیں، وہ خود ہیں۔ سانحۂ کوئٹہ پرجو عدالتی رپورٹ سامنے آئی ہے، اس پر ان کا آگ بگولا ہونا حیران کن نہیں۔ سنتے ہیں، اس رپورٹ پر کچھ حلقے ناراض ہوئے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رپورٹ کا بڑا حصہ سچ پر مبنی ہے۔۔۔ہم تو کہتے ہیں کہ گذشتہ ہفتے خبروں کی دوڑ میں، باکسر عامر خان کے گھریلو جھگڑے کے بعد، سب سے زیادہ توجہ چوہدری نثار ہی نے حاصل کی۔
گو حق اسد شفیق کا بنتا ہے، جس نے ایک مشکل پچ پر، کٹھن حالات میں جب سینئرز نے حسب عادت دھوکا دینے کا سلسلہ جاری رکھا، ایک شان دار اننگز کھیلی۔ البتہ چھٹے نمبر پر سب سے زیادہ سنچریاں جڑنے کا ریکارڈ بنانے کے باوجود وہ کروڑوں عوام کا دل جیتنے میں ناکام رہا کہ اس کے لیے آفریدی جیسی دلیری درکار۔ مانا یہ دلیری اکثرمیچز میں بے نتیجہ رہی، بلکہ شکست کا بھی سبب بنی، مگر صارفیت کا زمانہ ہے بھائی۔ اسد شفیق دس سنچریاں مزید داغ دے، تب بھی اُسے کون پوچھے گا۔نہ تو اشتہار ملنے کے، نہ ہی سپراسٹار کا درجہ حاصل ہوگا۔
یہ مت سمجھیں کہ ہم بھٹک گئے۔ ہمیں خبر ہے جناب، اس کالم کا آغاز بلاول بھٹو زرداری سے ہوا تھا، جن کی بابت مولا بخش چانڈیو فرماتے ہیں: ''ہم ان کے ایک ایک لفظ کو صحیح سمجھتے ہیں!'' اور ان کے بیان میں اچنبھا کیسا۔ ان کے عہدے کا تقاضا یہی ۔ اگر چانڈیو صاحب ایسا نہ سوچیں، تو اُنھیں ہم جیسا کالم نگار بننے پر اکتفا کرنا پڑے۔ اور یہ سراسر گھاٹے کا سودا ۔ اچھا، سنتے ہیں، 23 دسمبر کو ایک اہم واقعہ رونما ہونے کو ہے کہ آصف علی زرداری وطن لوٹ رہے ہیں۔ بلاول بھٹو کی بات پر یقین کیاجائے، تو ان کا شان دار استقبال ہو گا۔ خدا سب کو اپنے حفظ و ایمان میں رکھے۔ ہمیں محترمہ کا 18 اکتوبر کا وہ استقبال نہیں بھولتا، جس کا انجام سانحۂ کارساز جیسے المیے کی صورت ہوا۔
خیر، بات ہورہی تھی جناب آصف علی زرداری کی، جو اینٹ سے اینٹ بجانے کے بیان کے بعد غالباً تبدیلی آب و ہوا کے لیے بیرون ملک چلے گئے تھے۔ لوٹنے کا ایک سبب تو یہی کہ الیکشن قریب ، پھر یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ انھیں اب پاکستان کی آب و ہوا میں صحت بخش تبدیلی محسوس ہوئی ہو۔ ہمیں امید ہے، ان کی آمد ذوالفقار مرزا کو بھی کچھ متحرک کر دے گی، جو آخری بار کاؤ بوائے کیپ میں عدالت میں پیشی پر دکھائی دیے تھے۔
ویسے فضا کچھ تو بدلی ہے۔ ہندوستانی فلمیں ریلیز ہونے کو ہیں۔ یہ تو ایک اچھا اقدام۔ البتہ ایک بات یاد رکھیے ، کراچی آپریشن کے معاملے میں فضا میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ معاملات جوں کے توں ہیں۔ اور بہتر ہے ، جوں کے توں رہیں، بلکہ موزوں ترین تو یہ ہے کہ جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی کے بعد سیاسی جماعتوں کو آزادانہ، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ماضی میں بھی ''ڈرائی کلین '' کے تجربات لاحاصل ثابت ہوئے تھے۔
یہ کہنے میں ہمیں کوئی عار نہیں کہ تبدیلی اور ترقی، ہر دو کا مرکز فی الحال پنجاب، یا لگی لپٹی رکھے بغیر کہا جائے تو لاہور ہے۔ گو میں سرگوشیوں میں بات کرتے ان اعلیٰ افسران کی محفلوں میں شریک رہا ، جن کے خیال میں عمران خان سے مایوس حلقے اب بلاول کو لانچ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں، مگر مجھے خبر ہے ، میاں صاحب پر ایک عظیم قوت کا سایہ ہے۔ یہ ایک سڑک ہے، جو گرم پانیوں تک جاتی ہے۔ سڑک، جس پر چین اور روس کی نظریں مرکوز ۔ غیب کا علم فقط خدا کی ذات کو، مگر یہ سچ ہے کہ ماضی میں، مشکل مراحل پراس سڑک نے ان کی حفاظت کی، اور یوں لگتا ہے، مستقبل میں بھی یہ انھیں تحفظ فراہم کرے گی۔ بلاول کی باری میں ابھی دیر ہے۔