علماء کا مقام اور ان کی تنخواہیں
اکیسویں صدی میں پندرہ بیس ہزار روپے میں گزارا کرنے والے اتنے بڑے عالم سے بڑا درویش صوفی اہل اﷲ کون ہوسکتا ہے
راقم کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ ان مسائل پر زیادہ لکھا جائے کہ جن پر عموماً ہماری توجہ ہی نہیں ہوتی یا وہ ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ آج ایک ایسے ہی مسئلے پر ایک اچھی تحریر خالد جامعی کی نظر سے گزری، جس میں انھوں نے علما کی تنخواہوں پر بات کی ہے۔ بلاشبہ یہ ایک اہم ترین مسئلہ ہے، جس پر دانستہ یا نادانستہ طور پر توجہ نہیں دی گئی۔
خالد جامعی کہتے ہیں کہ ہم نے ذاتی طور پر چند سال پہلے معلومات کی تو یہ بات ہمارے علم میں آئی کہ ایک بہت بڑے مدرسے کے محترم شیخ الحدیث کی تنخواہ صرف پندرہ ہزار روپے ماہانہ تھی، حالانکہ وہ محترم عالم عربی، فارسی، اردو، پنجابی، پشتو اور ترکی زبان بھی جانتے تھے، وہ انگریزی سے بھی بہت اچھی طرح واقف تھے۔ سرکاری اداروںکے ایک ناخواندہ، ناتراش چپراسی کی تنخواہ اور مراعات ان محترم شیخ الحدیث سے کئی گنا زیادہ ہیں، اس کے ساتھ بے شمار مراعات، سہولیات الگ ہیں، مثلاً علاج معالجہ کی مفت سہولت، رہائش گاہ، مختلف الاؤنسز، ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن اور بچوں کی ملازمت وغیرہ وغیرہ۔
خالد صاحب مزید لکھتے ہیں کہ ایک اسلامی مملکت میں جسے دعویٰ ہے کہ وہ ایک نظریاتی اسلامی مملکت ہے، اس عظیم اسلامی مملکت میں ایک عالم کی یہ توقیر اور ایک جاہل کی یہ عزت۔ اکیسویں صدی میں پندرہ بیس ہزار روپے میں گزارا کرنے والے اتنے بڑے عالم سے بڑا درویش صوفی اہل اﷲ کون ہوسکتا ہے، جو مدرسے اور مسجد کو خیر آباد کہہ کر کسی سرکاری کثیرالقومی ادارے میں ملازمت کرے تو اسے نہایت آرام سے ڈیڑھ لاکھ روپے ماہانہ، شاندار رہائش گاہ، ائیرکنڈیشنڈ کمرہ، دیگر بے شمار سہولیات مل سکتی ہیں۔ لیکن کوئی شیخ الحدیث اپنے مدرسے، مسجد کو چھوڑ کر کسی سرکاری ادارے، کارپوریشن یا کسی ملٹی نیشنل میں فرائض انجام دینے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اس توکل، بے نیازی اور دنیا سے بے پروائی کا راز ان کے اس ایمان و یقین میں پوشیدہ ہے جو اسلامی علمیت نے عطا کیا ہے۔
لیکن بنیادی سوال یہی ہے کہ علما کے معاوضے کیوں اتنے کم ہیں؟ علما اتنے کم معاوضوں کے باوجود شب و روز دین کی خدمت میں مصروف ہیں، وہ کبھی ان قلیل معاوضوں پر کوئی احتجاج یا حرف شکایت تک زبان پر نہیں لاتے، آخر کیوں؟ توکل، صبر و شکر کی اصطلاحات کا عملی نمونہ کیا عہد حاضر میں ان قلیل المشاہیرہ علما کے سوا کوئی اور ہوسکتا ہے؟ لوگ درویش، صوفی، اہل اﷲ کا پوچھتے ہیں کہ عصر حاضر میں اﷲ والے نہیں ملتے، وہ جا کر ان علما کو دیکھ لیں، اکثر علما آپ کو اسی حال میں ملیں گے۔ یہی علما جو شب و روز دین کی نشر و اشاعت میں مصروف ہیں۔ یہ اللہ کے کام میں ایسے مشغول ہیں کہ معاش کمانے کے لیے فرصت نہیں۔ یہ خود دار ہیں سوالی نہیں۔
ان علما سے محبت، ان کی تقلید، ان کی خدمت دین کا تقاضا ہے، ان کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی ضرورت دین میں شامل ہے، انھیں دنیا کی مصروفیات، مشاغل سے فارغ کرکے فارغ البال، مرفع الحال اور خوش حال رکھنا اس امت کی ذمے داری ہے اور ہر اسلامی حکومت کی اساسی ذمے داری ہے۔ کیا ہماری ریاست یہ کام کر رہی ہے؟
خالد جامعی کا یہ سوال بڑا اہم ہے کہ اس سلسلے میں ہماری ریاست کیا کردار ادا کر رہی ہے۔ بات یہ ہے کہ ہماری ریاست کا کردار اس وقت نہ تو ایک اسلامی ریاست والا ہے، نہ ہی لبرل ہے، یہ تو عوام ہیں جو ریاست کے مقابلے میں اپنی ذمے داری کسی حد تک پوری کرتے ہیں اور اپنے جید علما کو نہ صرف احترام دیتے ہیں بلکہ ہمہ وقت خدمت کے لیے تیار بھی رہتے ہیں۔ گو کہ ایسا مظاہرہ نچلی سطح پر کم نظر آتا ہے، مثلاً ہم اپنے بچے کے ٹیوشن کے لیے فی مضمون ہزار روپے سے زائد دینے میں ذرا نہیں سوچتے، مگر ایک قاری کو جو بچوں کو گھر قرآن پاک کی تعلیم دینے آتا ہو، یہ سوچتے ہیں کہ مفت میں ہی پڑھا دے تو بہتر ہے، دو بچوں کی فیس دے کر دو بچے مفت میں پڑھانے کا سوچتے ہیں۔
بہرکیف خالد جامعی آگے مزید لکھتے ہیں کہ پاکستان اور ہندوستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں علما کے معاوضوں کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دین کو کوئی بھی ریاست علم نہیں سمجھتی، لہٰذا اس علم کے حامل کو عالم نہیں سمجھتی۔ جدید ریاست صرف دنیاوی علم کی اور علوم عقلیہ کے عالم کی سرپرستی کرتی ہے، کیونکہ کانٹ کی فکر پھیلنے کے بعد علم وہ ہے جو عقلیت (ریشنل ازم) اور تجربیت (امپیریل ازم) کے پیمانوں پر پورا اتر سکے اور اس کو ریاضی کی زبان میں بیان کیا جاسکے۔ لہٰذا اصل العلوم (سپریم نالج) اور العلم صرف سائنس ہے۔ یوں کانٹ کے بعد دنیا کے ہر علم کو صرف اور صرف سائنس کے پیمانے پر پرکھا جاتا ہے۔ آگے چل کر خالد جامعی بڑا اہم نکتہ بیان کرتے ہیں کہ عہد حاضر میں اگر کوئی علم سائنس سے کمتر ہے، تب بھی وہ اپنے ساتھ سائنس کا سابقہ لاحقہ لگا کر ہی عزت حاصل کرسکتا ہے، لہٰذا ہیومینٹیز کے مضامین کو اب سوشل سائنس، علم کتاب خانہ کو لائبریری سائنس، انسانی مزاج، رویوں کو بیہیویئر سائنس کہہ کر ان علوم کا درجہ بلند کردیا جاتا ہے۔
چونکہ مذہبی علوم جنھیں بعض جدیدیت پسند علما اسلامک سائنس کہتے ہیں، ان کو کوئی سائنس نہیں مانتا۔ لہٰذا ریاست ان علوم سے لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔ عالم اسلام مغرب کے سامنے احساس کمتری کا شکار ہے، لہٰذا وہ ہر جدید عقلی علم کے ساتھ اسلام کا ٹکڑا لگا کر مغرب سے اپنے تعلق کو ظاہر کرتا ہے۔ اسلامک سائنس، اسلامک سوشل سائنس، اسلامک پولیٹیکل سائنس وغیرہ کو مغرب میں کوئی تسلیم نہیں کرتا، نہ ہی ان کی تدریس وہاں کی جامعات میں ہوتی ہے۔ پروفیسر خورشید احمد سے ٹمپا یونیورسٹی کے مکالمے میں شریک ایک ماہر فقہ نے پوچھا تھا کہ جب آپ جدید علوم عقلیہ کے ساتھ اسلامی کا سابقہ، لاحقہ لگاتے ہیں تو کیا علمی طور پر یہ درست طریقہ ہے؟ کیونکہ اسلام مطلق (ایبسلوٹ) ہے اور تمام جدید علوم عقلیہ متغیر (چینج ایبل) جو بدلتے رہتے ہیں، تو مطلق کے ساتھ متغیر کا جوڑ عقلی، منطقی طور پر درست بھی ہے اور کیا یہ اصطلاح اسلامی علمیت میں درست بھی تسلیم کی جاسکتی ہے؟
راقم نے یہاں خالد جامعی کی تحریر کا مختصر سا حصہ پیش کیا ہے، ورنہ ان کا مضمون بہت طویل اور معلومات پر مبنی ہے۔ کوئی قاری چاہے تو راقم سے 03333283485 پر رابطہ کرسکتا ہے۔ بہرحال اس کالم کا مقصد ایک اہم مسئلے کی جانب توجہ دلانا تھا، جس پر ریاست کی تو کوئی توجہ ہے نہیں ہے یا اب اس کی ترجیحات کچھ اور ہی ہیں، تاہم یہ لوگوں کی بھی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اس رویے کی طرف توجہ دیں اور اپنے علما کے مسائل کو بھی سمجھیں، ان کی ہر طرح سے مدد کریں تاکہ وہ دین اور اس امت کی اور تندہی سے خدمت کریں اور ان کی مصروفیات دیگر مسائل کے بجائے خالص دین اور امت کے لیے وقف رہیں۔ امید ہے کہ ہم سب اس اہم مسئلے پر غور کریں گے۔