کالے بکروں کی نہیں کالی بھیڑوں کی قربانی دیجیے

اگر پی آئی اے یونہی اپنی خامیوں کو پس پشت ڈال کر صدقہ کرتی رہی تو بہت جلد کالے بکرے روئے زمین پر ناپید ہوجائیں گے


خوشنود زہرا December 20, 2016
اگر قومی ادارہ کالے بکروں کے بجائے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو دل پر پتھر رکھ کر صدقہ کردے تو یہ کالے بکروں کی نسل پر احسان ہوگا۔

یوں تو ہم صدقہ و خیرات پر صدقِ دل سے قائل ہیں اور اس کے ثمرات سے آگاہ بھی، لیکن اِس کے کرامات کا فیض جس انداز میں قومی ائیرلائن نے اٹھایا اُس نے تو بہت سے بدعقیدہ لوگوں کا قبلہ بھی سنوار دیا۔ جدید ٹیکنالوجی کے اخراجات سے بچنے اور پی آئی اے کی ترقی سے جلنے والوں کا منہ کالا کرنے کے لئے کالے بکروں سے بہتر توڑ کیا ہوسکتا ہے؟ اور یقیناً اگر ہم غلطی نہیں کر رہے تو ایوی ایشن کی تاریخ میں اس رسم کے اجراء کا سہرا پی آئی اے کے سر ہی سجے گا، لیکن اگر قومی ادارہ بجائے کالے بکروں کے اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کو دل پر پتھر رکھ کر صدقہ کرے تو میرا خیال ہے کہ یہ کالے بکروں کی نسل پر احسان ہوگا۔

قصہ مختصر کریں تو 7 دسمبر کو پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے کو انجن میں خرابی کی وجہ سے حادثہ پیش آیا جس میں جنید جمشید اور ڈی سی او چترال سمیت 47 مسافر پوری قوم کو سوگوار چھوڑ کر کبھی نہ لوٹ کر آنے والے سفر پر روانہ ہوگئے۔ اس واقعہ نے پاکستان کے علاوہ نیا بھر کی ایوی ایشن انتظامیہ میں ہلچل مچادی۔ اس خوفناک سانحہ کے بعد ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ حکومت، وزارت ہوا بازی اور اس طیارے کو اڑان کی اجازت دینے والے بااختیار افراد سے دو دو ہاتھ کرتی اور جو اس سانحہ کا ذمہ دار ہے اُس کو ٹھکانے لگاتی لیکن ایسا کچھ نہ ہوسکا اور فرانسیسی تحقیقاتی کمیشن پر ذمہ داری ڈال کر حکومت تو اپنے فرض سے سبکدوش ہوگئی اور جہاں تک بات رہی پی آئی اے انتظامیہ کی تو اُس نے بہترین حل تلاش کرتے ہوئے طیارے کی اڑان سے پہلے سیاہ بکروں کو صدقہ کرنے کا آغاز کردیا۔

اگر پی آئی اے نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کو یوں ہی پسِ پشت ڈال کر صدقہ کرتی رہی تو سچ پوچھیے تو خدشہ ہوچلا ہے کہ ایسی صورت میں کالے بکرے روئے زمین پر ناپید ہوجائیں گے، کیوںکہ اب تو شاید ہی قومی ائیرلائن کی کوئی ایسی پرواز ہو جس میں کوئی خرابی نہ پائی جاتی ہو۔ کوئی ایک کہانی ہو تو بیان کی جائے، کبھی پرواز میں گھنٹوں کی تاخیر، کبھی مسافر ائیرپورٹ پر رات گزارنے پر مجبور، کبھی پرواز مسافر لے گئی تو سامان چھوڑ گئی، کبھی دوران پرواز مسافر بھوکے رہے تو کبھی مسافروں کو باسی اور ناقص غذا کھانے کو پیش کردی۔ اس کا سیدھا حل خصوصاً پی آئی اے کے مالی حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے یہی تھا کہ غلطیوں کے کفارے کے طور پر بکروں کو ذبح کرنے کے بجائے لاپرواہ، بدعنوان اور 47 افراد کی موت کے براہ راست ذمہ دار افراد کو نکال باہر کیا جائے۔

ویسے تو یہ بھی عین ممکن ہے کہ پی آئی اے انتظامیہ باسی کھانوں کے آرڈر ہوٹل سے کینسل کردے اور عوام کے ادا کی گئی رقوم سے بکرے خرید کر بخیر و عافیت پرواز کی نیت سے صدقہ کرے اور پھر اسی تازہ مٹن سے تیار کردہ سوپ اور پلاؤ سے مسافروں کی خاطر مدارات بھی کی جائے۔ اس طرح باکمال لوگ اپنی لاجواب سروس کی بدولت ایک تیر سے دو شکار بھی نبٹالیں گے۔

حالات کا تقاضہ تو یہی ہے کہ رویا جائے مگر اداروں کی حرکتوں نے ہر ہر معاملہ کو غیر سنجیدہ رنگ دے دیا ہے۔ لیکن ہم کوشش کرتے ہیں کہ اب کچھ سنجیدگی سی بات کرلیں۔ تو بنیادی طور سوال تو یہ ہے کہ 13 دن گزرجانے کے باوجود بھی آخر حکومت نے اس معاملے میں آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟ کیوں جدید ٹیکنالوجی اپنانے کے بجائے اپنی خامیوں کو صدقے کے جانور کے خون سے دھونے کی کوشش کی جارہی ہے؟ اگر طیارے ناقص ہیں تو انہیں گراؤنڈ کرنے کے بجائے کیوں پرواز کی اجازت دی گئی؟ شاید وہ یہی معاملات تھے جن کے سدھار کیلئے حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا تھا اور اس فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے والے تین ملازمین انجانی گولیوں کا نشانہ بن گئے تھے، جن کے قاتل بھی اب تک نامعلوم ہی ہیں، البتہ اگر نجکاری کا مقصد ادارے کی ساکھ بحال کرکے منافع خوری اور عوامی مفاد نہ ہو بلکہ پھر ذاتی مفاد ہو تو بات دیگر ہے۔ یہ بات یہاں اِس لیے کہی جارہی ہے کہ اب تک جتنے بھی اداروں کی نجکاری ہوئی ہے اُن کے نزدیک عوام کو سہولت دینے سے زیادہ اپنا مفاد عزیز ہے، بات پھر چاہے کے الیکٹرک کی ہو یا پی ٹی سی ایل کی۔

خدارا! ذرا تو ہوش مندی کا مظاہرہ کیجئے، دوا چھوڑ کر محض دعا پر بھروسہ کرنا کہاں کی عقلمندی ہے؟ بکروں کا صدقہ اپنی جگہ لیکن اُس کے ساتھ پی آئی اے طیارے حادثے کی فی الفور تحقیقات اور کارروائی کے ساتھ ایوی ایشن کے جدید تقاضوں کو اپنائیے اور طیاروں کی مینٹینس کو اولین ترجیح دیجئے۔ مسافر کی جان کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے، مسافروں کو اُن کے منزل پر پہنچائیے نہ کہ آخری آرام گاہ۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں