نیا امریکی صدر توقعات و خدشات

سپرپاور بننے کے جنون نے امریکا کو عام انسانوں کی نظر میں اپنے خونیں کھیل کے ذریعے گرا دیا تھا۔۔۔


Shehla Aijaz December 21, 2016

ڈونلڈ ٹرمپ امریکا میں ایسے آئے کہ دنیا بھر میں سراسیمگی سی دوڑ گئی۔ ہلچل سی مچ گئی۔ ایک بوڑھا کاروباری شاطر دماغ کا شخص بالآخر صدارت کی اعلیٰ کرسی پر بیٹھ ہی گیا، جس کے بارے میں عام طور پر منفی خیالات عوام میں پائے جا رہے ہیں۔ غالباً یہ پہلی بار ہوا ہے کہ امریکا میں منتخب ہونے والے صدر کے خلاف اس قدر احتجاج بلند ہوا۔ کیا امریکی عوام ہلیری کلنٹن کو اس قدر پسند کرتے ہیں کہ وہ ان کے لیے اپنے گھروں سے نکل آئے یا امریکی مہذب عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو اس قدر ناپسند کرتے ہیں کہ وہ ان کو مسترد کردینے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لا رہے ہیں؟ ان دونوں کے درمیان ڈونلڈ ٹرمپ کے وہ زہریلے بیانات اور تقاریر ہیں جنھیں صدارتی مقابلے کو جیتنے کے لیے انھوں نے ٹرمپ کارڈ کے طور پر استعمال کیا اور ان کے یہ کارڈز کارآمد ثابت ہوئے۔ انھوں نے تمام تر ناپسندیدگیوں کے باوجود وہ مقام حاصل کرلیا۔

پاکستان میں دونوں صدارتی امیدواروں کے لیے شکوک و ابہام تھے، البتہ ٹرمپ کا نمبر اول تھا، اب جب کہ وہ میدان میں اتر ہی چکے ہیں، نئی ذمے داریوں نے ان کے اس اندر کے ٹرمپ کو بیدار کردیا ہے جس میں مقبولیت حاصل کرنے کی لگن اور چاہے جانے کی خواہش ہے۔ بہت سے لوگوں نے ہلیری کلنٹن کو چھپا ہوا دشمن قرار دیا تھا، جب کہ ٹرمپ ان کی نظروں میں کھلے دشمن تھے۔ اس کھلے دشمن نے بظاہر جو کچھ کر دکھانا تھا وہ شروع کے ایام میں کر تو دکھایا، اپنے ہی پڑوسیوں کو تنگ کرکے، جب ان کے گھر کے سامنے دیوار کھڑی کردی۔ حالانکہ صدر بننے سے پہلے بھی ان کی اپنے پڑوسیوں سے کچھ نااتفاقی تو تھی ہی لیکن عہدہ ملتے ہی انھوں نے ان پر اپنے گھر سے سمندر دیکھنے پر پابندی لگادی۔

اس خبر کو بھی زیادہ ہوا نہ ملی۔ ظاہر ہے کہ صدر امریکا کا مقام ہی ایسا ہے لیکن پھر دنیا نے سنا جب پاکستان کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں مبارکباد کا فون کیا تو انھوں نے جن الفاظ میں پاکستانی وزیراعظم اور پاکستان کا خیرمقدم کیا، وہ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے میڈیا کے لیے حیران کن تھے۔ پاکستان سابقہ امریکی صدر صاحبان کی نظر میں کس حد تک خوبصورت تھا، اس سے ہم سب واقف ہیں۔ امریکا نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو کس حد تک پذیرائی دی تھی اس کا ہم سب کو اندازہ ہے، صرف یہی نہیں کشمیر کے ایشو کو ایشو ہی رہنے پر کسی حد تک کام ہوا تھا۔

محض واویلا اور کنٹرول لائن پر آگ اور شعلے کا کھیل، جس سے آئے دن کتنی انسانی جانیں ضایع ہورہی ہیں، اس کا کسی کو کیا احساس۔ اسلامی دنیا میں رونما ہونے والے واقعات، جن سے مظلوم مسلمان خون کے آنسو رو رہے ہیں، کسی کو اس سے کیا غرض۔ لیکن ان واقعات کے پیچھے کون کون سے ہاتھ ملوث ہیں، کہاں کہاں سے ڈوریاں ہلائی جا رہی ہیں، کون ہے اس کا وکیل، کون ہے منصف اور کہاں ہے وہ عدالت، کس کو پرواہ ہے۔

اقوام متحدہ کا دنیا بھر کے حادثات و واقعات اور ہونے والی جنگی ہولناکیوں میں کتنا حصہ ہے کہ اقوام متحدہ کا دوسرا نام امریکا ہے۔ بچپن سے ہم تو یہی سنتے آرہے ہیں، لیکن ان حادثات و واقعات اور جنگی تراکیب میں امریکا کا کس قدر حصہ رہا ہے تو فہرست میں بے شمار خونی واقعات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ سابق صدر ریگن کے زمانے میں دہشتگردی کے نئے نئے ذرایع اختیار کیے گئے، مثلاً 1986ء میں کونٹرا کا امدادی جہاز گرایا گیا، 1988ء میں امریکا نے نکاراگوا پر بمباری کرکے ہزاروں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جو بے قصور تھے، 1988ء کے آخر میں ایک امریکی ایجنٹ نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ''ہم لوگوں نے سیکڑوں اسکولوں اور اسپتالوں کو تباہ کردیا اور شہر سے دور دیہاتی علاقوں میں انسانی زندگی کے وسائل بند کردیے''۔ یہاں تک کہ 1980ء میں سلواڈور میں ہزارہا شہریوں کا قتل عام کیا گیا، کیونکہ وہ اپنے جائز بنیادی حقوق کا دفاع کر رہے تھے، اسی برس گوئٹے مالا میں امریکی پشت پناہی پر قتل عام ہوا۔

1992ء میں امریکا سے فلوریڈا کے ایک مافیا گروہ کو کیوبا بھیجا گیا، جس نے صنعتی کارخانوں کو تباہ کیا۔ کیوبا کی تاریخ امریکا کے صدر حضرات کے دیے ہوئے زخموں سے بھری پڑی ہے۔ اس سے پیشتر ویتنام کی تباہ کاریاں بھی ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ یہاں تک کہ ان دہشتگردیوں کے علاوہ وہ خونیں کارروائیاں جن کا ٹانکا مذہب پسندی سے جڑتا ہے۔ 24 جون 2004ء میں نیویارک ٹائمز نے لکھا تھا کہ ''عراق میں جاری بش کی جنگ ایک دینی مبلغ کا مظہر ہے'' جب کہ ایک انگریزی رسالے ''نیشنل ریویو'' نے تو واضح لکھ ڈالا تھا کہ ''ہم کو مسلمانوں کے ملکوں پر جاکر حملہ کرنا چاہیے، ان کے لیڈروں کو قتل اور مسلمانوں کو عیسائیت قبول کرنے پر مجبور کرنا چاہیے۔''

عراق کے خلاف امریکی جنگ میں پانچ سال کے دوران دس لاکھ سے زائد بے گناہ عراقی شہری جاں بحق ہوئے اور بیالیس لاکھ بے گھر ہوئے۔ اسلامی ممتاز شخصیات کے مزارات کو بھی نقصان پہنچا۔

امریکا نے جنوبی کوریا کو بھی نشانے پر رکھا، صومالیہ میں بھی پندرہ ہزار فوجی رکھے، گویا پوری دنیا میں امریکی بارودی سرنگیں تھیں جو ہر دم نشانہ ملنے کی صورت میں پھٹنے کو تیار تھیں۔ امریکا ایک مہذب طاقتور ملک سے زیادہ جنگی جنونی سیاسی بصارت کا حامل دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے ہی حالات میں میخائل گورباچوف نے اپنا ایک تجزیہ پیش کیا تھا، جس کے مطابق ''وقت کا تقاضا یہ نہیں کہ دنیا کے اردگرد فوجوں کا جال بچھا دیا جائے بلکہ حقیقت پسندی یہ ہے کہ صبر و تحمل سے کام لے کر سیاسی طریقے سے دنیا کو درپیش مسائل کا حل تلاش کیا جائے۔''

سپرپاور بننے کے جنون نے امریکا کو عام انسانوں کی نظر میں اپنے خونیں کھیل کے ذریعے گرا دیا تھا۔ موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماضی میں تمام سربراہان امریکا کا بغور مطالعہ کیا اور جو کچھ انھوں نے اپنی انتخابی مہمات میں کہا وہ کم و بیش اس قسم کے جذبات کا اظہار تھا جیسے ماضی میں سابق سربراہان نے اپنے عملی اور ذہنی منصوبوں میں عیاں کیے تھے، فرق اتنا ہی تھا کہ انھوں نے شہد میں لپیٹ کر نہیں کہا تھا۔ آج امریکا کس مقام پر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ اسے کہاں لے کر جانا چاہتے ہیں، کیا انھوں نے امریکا کے ماضی سے کوئی سبق سیکھا ہے؟

حالیہ امریکی صدر کے ایک بیان کے مطابق جسے برطانوی خبر رساں ادارے نے جاری کیا ہے ''امریکی فوج بیرونی تنازعات میں مداخلت سے گریز کرے گی، ہماری ساری توجہ داعش کو شکست دینے پر مرکوز ہے اور ہم اپنی فوجی طاقت میں اضافے کے ذریعے امن کے حصول کی کوشش کریں گے۔''

ٹرمپ نے عراق پر امریکی لشکر کشی کو امریکا کی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکا کسی بھی دوسرے ملک میں حکومتوں کا تختہ الٹنے کی کوشش کرے گا نہ ہی ایسے اقدامات میں حصہ لے گا۔ مزید یہ کہ انھوں نے جنگوں پر رقم خرچ کرنے کے بجائے سڑکوں، شاہراہوں، پلوں اور ایئرپورٹس کی تعمیر نو میں سرمایہ کاری پر زور دیا۔ یہ ایک خوش آیند بات ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بیرونی دنیا میں مداخلت اور افراتفری کی پالیسی کو ترک کردینے کا عندیہ دیا ہے، وہ امریکی فوج کو جارحیت کے لیے نہیں بلکہ ملک کے دفاع کے لیے مضبوط کرنا چاہتے ہیں۔

اس تھوڑے سے عرصے میں ٹرمپ نے تختہ الٹنے کی سازش یا اختلافات کا مزہ چکھ لیا، وہ جان چکے ہیں کہ یہ کس قدر کا بڑا عذاب ہوتا ہے۔ بہرحال دیکھنا یہ ہے کہ وہ ماضی کی طرح طالبان کی آڑ میں انسانی زندگیوں سے نہیں کھیلیں گے، کیونکہ انھوں نے طالبان کا نہیں داعش کا نام لیا ہے۔ پہلے اچھے اچھوں نے اتنا برا کام کر دکھایا، اب برے کیسا کام دکھاتے ہیں، خدا جانے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں