مشرق کی جانب ’’طاقت‘‘ کی منتقلی

امریکی شہریوں نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیے، لیکن نتیجہ ان کے مخالف امیدوار کے حق میں دیے گئے


اللہ رکھیو سومرو December 21, 2016

پاکستانی ٹیم کی پریکٹس ٹرمپالوجی کا منظرنامہ: مادہ پرست نظریات میں طاقت کا حصول ہی انسانی زندگی کا عظیم تر مقصد بنا ہوا ہے، جب کہ عالم انسانیت کے موجودہ ارتقائی مرحلے پر تو سرمائے کا حصول ہی دراصل طاقت کا معیار قرار دیا جاچکا ہے۔ شاید اسی لیے موجودہ جدید دور میں سرمائے کے دم پر لوگوں کو اپنے طاقتور ہونے کا احساس دلا کر ان سے غلامی کی حد تک اپنی تعظیم کروانے کا چلن رائج ہوچکا ہے۔ مزیدار بات کہ اگر وہ سرمایہ تذلیل انسانیت کی حد تک غیر اخلاقی، غیر قانونی اور غیر مہذب انداز سے حاصل کیا گیا ہو پھر تو اور بھی آسانیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔

اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی ''دانشورانہ قسم'' کی مغزماری میں الجھنے کے بجائے صرف نو منتخب ''محترم امریکی صدر'' ڈونلڈ ٹرمپ کی مثال کو سامنے رکھنا ہی کافی ہوگا۔ کیونکہ امریکی شہریوں نے ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیے، لیکن نتیجہ ان کے مخالف امیدوار کے حق میں دیے گئے ووٹوں کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یعنی غیر اخلاقی اور غیر قانونی ذرایع سے حاصل ہونے والے سرمائے نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا پر رائج ''مقدس ترین جمہوری اقدار'' کی پاسداری میں نظریاتی، اخلاقی و قانونی انداز میں ووٹر کو اپنی حمایت پر آمادہ کرنے کے بجائے Hackers کا ایسا بندوبست کیا کہ دنیا کو انگلیوں پر نچانے والے نام نہاد امریکی تھنک ٹینک بھی اپنے ہونٹ کاٹ کاٹنے پر مجبور دکھائی دیے۔ مزیدار بات یہ کہ اب وہ ''ٹرمپالوجی'' کے زیر تسلط اپنے مزید رنگ و ڈھنگ بھی دکھاتے رہیں گے، جس کے اثرات کو دیگر ممالک میں ظاہر ہوتے رہنے کے خدشات کو نظر انداز کیا جانا لگ بھگ ناممکن ہوگا۔

تبدیلی کے اشارے: ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سرمائے کے خوبصورت استعمال کے طریقے نے ''یورپی نشاۃ ثانیہ کی لاڈلی جمہوریت'' کی عصمت کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ تو بالکل سامنے کی بات ہے کہ اگر امریکی جمہوریت بے عصمت بن کر رہ گئی تو لامحالہ یورپی نشاۃ ثانیہ اپنے اختتامی ارتقائی مرحلے کی جانب گامزن ہوتی جائے گی، جس کے حتمی و لازمی نتائج کے طور دنیا پر مادی و سرابی نظریات اور سرمائے کی بلاشرکت غیرے اجارہ داری کے دیرینہ بھرم کے ٹوٹ جانے کے خطرات بھی جنم لے سکتے ہیں۔ جب کہ ممالک عالم میں ''غیر جمہوری اور غیر سرمایہ دارانہ قوتوں'' کے طاقتور ہوجانے کے ''امکانی خطرات'' کو نہ تو یکسر طور رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بین الاقوامی تعلقات میں عدم توازن کے شدت اختیار کرتے جانے کے نکات کو نظر انداز کرنا اتنا آسان ہوگا۔

ان نکات کی روشنی میں ہم برملا یہ کہنے میں حق بجانب ہوں گے کہ دنیا کا امن تباہ کرنے اور ممکنہ تیسری عالمی جنگ کے ابتدائی اسباب پیدا کیے جانے لگے ہیں۔ اور اس امکانی منظرنامے کے پس منظر اور پیش منظر کا منطقی انداز میں تجزیہ کیا جائے تو ہمیں امریکی جمہوریت کی پول کا ڈھول پھٹ جانے کی صورت میں (جو کہ یقینی طور پر پھٹ بھی چکا ہے) دنیا کے جدید سرابی نظریات اور سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والوں کی ترجیحات کو سمجھنا انتہائی ضروری بن جاتا ہے۔

چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی معاشرے میں تنگ نظری کا صحت مند بیج بودیا ہے، اس لیے اب اسے تناور و طاقتور درخت بننے سے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ ہاں البتہ اس درخت پر زہریلے غنچوں، پھولوں اور پھلوں کی بارآوری کے مرحلوں کے باعث اس قسم کی تنگ نظری میں اتار چڑھاؤ کے مرحلے اپنے ارتقائی اظہار کے امکانی خطرات کو یقینی طور پر جنم دیتے رہیں گے۔ جس کی تفصیل جاننے کے لیے ہمیں یورپ کی نام نہاد اصلاحی تحریکوں اور تنگ نظری کی تاریخ کے نتائج کو سمجھنا ہوگا کہ جو نتائج بالآخر یورپ کو اعلان بالفور کرنے جیسی کمزوری عطا کرکے امریکی اجارہ داری قائم کرنے پر مختتم ہوچکے ہیں۔ اسی تسلسل میں قابل فکر نکتہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا کے دیگر ممالک کے مسائل میں الجھے رہنے، یعنی کھلی مداخلت کی امریکی پالیسی کو بھی اپنا ہدف بنایا ہوا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھنے والے حضرات ایک عرصے سے امریکی اجارہ داری کو قائم رکھے جانے پر آنے والے اخراجات کے باعث سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والے طاقتور انسانوں کو بہت پریشان دیکھتے آئے ہیں۔ جس کے ابتدائی اظہار میں میزائل ڈیفنس شیلڈ کی تنصیب کی ناکامی، آمدنی اٹھنی خرچہ روپیہ کے مصداق ناسا کا خلائی اسٹیشن بیچنا اور اقوام عالم کو ایجاداتی و فلکی تحقیق کی جانب مائل کرنے کے لیے سرمائے کے بے دریغ استعمال کے باوجود امریکی سرمائے داروں کی مہنگی مصنوعات کے مدمقابل ''پاک چائنا اکنامک کوریڈور کی مصنوعات'' کے سیلاب کو اس ضمن میں گنوایا جاسکتا ہے۔

ٹرمپ، نیا ارتقائی مرحلہ: مادی طور پر عقل ودانش میں انسانی معراج کے مرحلے پر پہنچ جانے کے دعویدار امریکی شہریوں میں ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت کا ''شہرہ'' ہونے کے باوجود بھی وہ وہاں حیرت انگیز طور کامیاب ترین کاروباری مانے جاتے ہیں اور ان کو منافع پہنچانے کا سب سے بڑا وسیلہ خود امریکی شہری اور ان کے جمہوری معراج رکھنے والے تمدنی قوانین ہیں۔ اور ٹرمپ کی انتخابات میں کامیابی نے بڑے ہی فاتحانہ انداز میں ان قوانین کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں ہیں، جو کہ ممالک عالم کے عوام اور حکمرانوں کو ایک فکر انگیز پیغام کا بھی کام کرتا ہوا نظر آنے لگتا ہے، کہ جو شخص اپنے سرمائے کے بل بوتے پر امریکی شہریوں پر اپنی مرضی مسلط کر سکتا ہے، وہ ممالک عالم کے حکمرانوں کو تو پھر سکندراعظم کے استاد ''ارسطو کو گھوڑا بنانے والے کو ان کے شاگردوں کو گدھا بنانے میں دیر ہی کتنی چاہیے؟'' کا سبق یاد دلا سکتا ہے۔

جب کہ عاشقانِ جمہوریت گدھے پر سوار امریکی جمہوریت کو ہم سے زیادہ جانتے ہیں۔ شاید اسی لیے ممالک عالم کا مقتدر طبقہ ''لیکس وائرس'' کا حفاظتی ''ٹرمپامائی سن ویکسین'' کرواتے نظر آنے لگا ہے۔ چونکہ ٹرمپ کوئی کمیونسٹی ڈکٹیٹر نہیں ہیں لیکن ان پر الزام ہے کہ ان کی کامیابی کے پیچھے روسی کمیونسٹ سوچ کا ہاتھ ہے۔ اس الزام کے ساتھ اقوام عالم کے ''کامریڈوں'' نے اعلان کردیا کہ سویا ہوا شیر جاگ رہا ہے۔ یعنی اب روس اقوام عالم کو ایک بار پھر اپنے سپر پاور ہونے کا احساس دلانے لگا ہے۔ وہ خوش ہیں کہ محترم کارل مارکس نے سرمائے کی طاقت کا جو افضل ذکر بیان کیا تھا، ٹرمپ کی کامیابی اس کا بہترین عملی ثبوت ہے۔ ان کی اسی بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی سیاست میں روس کے بڑھتے ہوئے طاقتور کردار کے اس طرح ابھرنے سے طاقت کے توازن میں بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ روس اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ وہ امریکی جمہوریت کو دھول چٹا کر ٹرمپ کو جتوا سکتا ہے۔

جب کہ سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والے حضرات کے موجودہ تمامتر معاشی و اقتصادی مفادات ایشیا سے وابستہ ہیں۔ اور ایشیا اب بھی ان کے لیے سونے کی چڑیا بنا ہوا ہے اور سونے کا انڈہ حاصل کرتے رہنے کے لیے سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والے حضرات کو اب امریکی خدمات مہنگی بھی پڑنے لگی ہیں۔ انھوں نے یورپ اور امریکا کو جنت ارضی سے مشابہہ پرتعیش تو بنادیا ہے لیکن اب وہاں سرمائے کی ریل پیل بہت ہی دھیمی ہوچکی ہے، اس لیے اب ایشیا سے متعلق افراد کے لیے ان کے معاشروں میں نقل و حرکت کے قوانین میں حیرت انگیز طور پر نرمی برتے جانے کے امکانات بھی رد نہیں کیے جاسکتے ہیں۔ جس سے وہاں ایشیائی لوٹ کھسوٹ سے حاصل ہونے والا سرمایہ شاید ان کے جمود کو تجرباتی طور پر کچھ حرکت دینے کے کام آسکے۔

جب کہ انوسٹمنٹ ایشیا میں ہے تو پھر پراٖفٹ بھی یہیں سے حاصل کیے جانے کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شاید اسی لیے برکس بینک سمیت بین الاقوامی سیاست میں روس اور ہندوستان کا کردار دن بدن متحرک اور طاقتور بنتا دکھائی دیا جانے لگا ہے۔ جن کا مرکز و محور عرب ریاستوں سمیت مسلم ریاستیں اور چائنا ہے۔ جو کہ سرمائے پر اجارہ داری رکھنے والوں کی رال ٹپکانے کے لیے معدنی و جغرافیائی وسائل سے مالامال ہیں۔ اس سیاق و سباق میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ ٹرمپ ایک نئے ارتقائی مرحلے کا اعلان ہے کہ جس میں مشرق ایک بار پھر طاقت کا مرکز بننے جارہا ہے۔ کیونکہ مغربی اجارہ داری میں جن مشرقی انسانوں کا سرمایہ اور عقل کام کرتی رہی ہے وہ اپنے داخلی مسائل پر ضابطہ لانے کے لیے ایک بار پھر اپنی روایتی جلد بازی و بھونڈے پن پر مبنی حکمت عملی کا مظاہرہ کرنے کو بے قرار دکھائے دیے جانے لگے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں