مچھروں سے بچاؤ اپنی مدد آپ کیجئے

ہر ذمہ داری حکومت پر ہی ڈال کر خود کو اجتماعی معاملات سے لاتعلق کرلینا بہت سارے مسائل کی وجہ بن سکتا ہے۔


علیم احمد December 21, 2016
اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے گھروں اور گلی محلوں میں صفائی ستھرائی کو یقینی بناکر شہر کو متعدد اور متعدی امراض سے محفوظ بناسکتے ہیں۔

جہاں ایک طرف صفائی نصف ایمان ہے تو وہیں تندرستی کی ایک بڑی وجہ بھی ہے، جسے ہزار نعمت قرار دیا جاتا ہے۔ اگر ہم صرف اپنے گھروں اور اردگرد کے علاقے میں صفائی کا خیال رکھیں تو گندگی اور اس سے پیدا ہونے والی ان گنت بیماریوں سے بھی محفوظ رہ سکیں گے جن میں ملیریا اور ڈینگی جیسے خطرناک امراض بھی شامل ہیں۔

کراچی میں پھیلنے والی وبا ڈینگی ہے، چکن گنیا ہے یا پھر کوئی نئی بیماری؟ لیکن اس سوال سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس وبا (اور دوسری کئی بیماریوں) کی وجہ کراچی کے مختلف علاقوں میں غلاظت کے پہاڑ اور جگہ جگہ کھڑا ہوا پانی ہے۔ غلاظت کے یہ ڈھیر اور سڑکوں پر بہتے پانی کے یہ جھرنے مچھروں، مکھیوں اور بیماریاں پھیلانے والے دیگر ہزاروں کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ بنے ہوئے ہیں۔ اب عام افراد کوئی یاجوج ماجوج تو ہیں نہیں کہ گندگی کی اس دیوارِ قہقہہ کو سارے دن میں ختم کردیں، البتہ اتنا ضرور ہے کہ اپنی مدد آپ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے ہم اپنے گھروں اور گلی محلوں میں صفائی ستھرائی کو یقینی بناکر شہر کو متعدد اور متعدی امراض سے محفوظ بناسکتے ہیں۔

ذیل میں دی گئی تدابیر اگرچہ عام طور پر مچھروں کے خاتمے کے لئے بیان کی جاتی ہیں لیکن دوسرے کیڑے مکوڑوں کے خاتمے میں بھی یکساں طور پر کارآمد ہیں۔ وہ کیسے؟ ملاحظہ کیجئے:

  • گھر میں صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھیئے اور اگر کیاریوں یا گملوں میں پودے لگا رکھے ہوں تو ان پر باقاعدگی سے کیڑے مار دواؤں کا (خاص کر مچھر مار دواؤں کا) اسپرے کرتے رہیئے۔

  • گھر میں اور گھر کے آس پاس پانی کھڑا ہونے نہ دیجئے، واضح رہے کہ گندے اور بدبودار پانی کے علاوہ اگر صاف پانی بھی زیادہ دیر تک کسی کھلی جگہ پر کھڑا رہے تو اس میں بھی ڈینگی اور چکن گنیا پھیلانے والے مچھر (یعنی ایڈیز مچھر) پیدا ہوسکتے ہیں۔

  • چونکہ ایڈیز مچھر صاف پانی میں نشوونما پاتا ہے، اس لئے گھر میں رکھی گئی پانی کی ٹنکیوں اور پانی رکھنے والے برتنوں کو ڈھانک کر رکھئیے اور اگر ممکن ہو تو انہیں صبح و شام صاف بھی کرتے رہیئے۔

  • بعض گھروں میں چھتوں پر یا پارکنگ میں پرانے ٹائر اور دوسرا سامان رکھ دیا جاتا ہے، جس کے اندرونی حصوں میں جمع ہوجانے والا پانی انہیں ایڈیز مچھر کی بہترین پناہ گاہ میں تبدیل کردیتا ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ٹارچ لے کر ان جگہوں کا بھی وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیئے اور ان میں موجود پانی خشک کرتے رہیئے۔

  • یہی معاملہ گھروں میں بنے ہوئے اسٹور رومز، مسہریوں اور چارپائیوں کا بھی ہے جہاں کاٹھ کباڑ اور پرانا سامان رکھا رہتا ہے۔ گھر میں ایسے مقامات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے جو زیادہ وقت تاریکی اور نمی میں رہتے ہوں کیونکہ یہاں مچھروں کے ساتھ ساتھ لال بیگ اور دوسرے کیڑے مکوڑے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ بہتر ہوگا کہ وقفے وقفے سے ان جگہوں سے سامان نکال کر اچھی طرح صفائی کی جائے اور کیڑے مار دواؤں کا اسپرے کردیا جائے، اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان مقامات پر سیلن پیدا نہ ہونے پائے۔

  • یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ فلیٹوں کی گیلریوں میں گملے اور چڑیوں کے لئے پانی کے پیالے رکھ دیئے جاتے ہیں جن میں پانی جمع رہتا ہے۔ بہتر ہے کہ پیالوں میں روزانہ پانی تبدیل کرنے کے ساتھ ساتھ گملوں پر کیڑے مار دوائیں پابندی سے چھڑکی جائیں۔

  • پانی ابال کر یا فلٹر کرکے استعمال کرنا ہر موسم میں اچھی صحت کے لئے ضروری ہے۔

  • اگر ممکن ہو تو گلی محلے کے بچوں کو ذمہ داری دیجئے کہ وہ کھیل کے دوران آس پاس کے علاقے میں (خاص طور پر تنگ گلیوں میں) کھڑے ہوئے پانی اور گندگی کے بارے میں اپنے گھر کے بڑوں کو فوری طور پر بتائیں تاکہ ان جگہوں کو جلد از جلد صاف کیا جائے اور وہاں مچھر، مکھیاں وغیرہ پیدا نہ ہونے پائیں۔ چند سال پہلے جب ڈینگی کے خلاف مہم کے دوران کراچی کے بعض علاقوں میں بچوں کو اس انداز سے شریک کیا گیا تو زبردست نتائج سامنے آئے۔

  • کیڑے مکوڑوں کو بھگانے والی معیاری دوائیں جسم کے کھلے حصوں پر لگائیے لیکن اگر کسی دوا سے الرجی کا خطرہ ہو تو ڈاکٹر کے مشورے سے مختلف دوا استعمال کیجئے۔

  • کوشش کیجئے کہ لمبا، ڈھیلا ڈھالا اور ہلکے رنگ والا لباس پہنیں کیونکہ ایسا لباس آپ کے پورے جسم کو ڈھک کر رکھتا ہے اور کیڑے مکوڑوں سے بچانے میں بھی بہت مددگار رہتا ہے۔

  • مچھروں سے بچاؤ کے لئے مچھر بھگانے والا کوائل اور میٹ وغیرہ استعمال کیجئے اور اگر علاقے میں بہت زیادہ مچھر ہوں تو اضافی طور پر مچھر دانی لگا کر سوئیے۔

  • جہاں تک ایڈیز مچھر کا تعلق ہے تو یہ صبح سویرے اور شام کے وقت زیادہ سرگرم ہوتا ہے اور زیادہ تر انہی اوقات میں کاٹتا بھی ہے۔ یعنی ان مواقع پر خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے تاہم دن کے دوسرے اوقات میں بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیجئے۔


بظاہر یہ اقدامات انتہائی معمولی دکھائی دیتے ہیں لیکن ان پر عمل کرنے سے نہ صرف آپ کو ذاتی طور پر بلکہ محلے، علاقے اور شہر تک کی سطح پر بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔

یاد رہے کہ یہ شہر بھی ہمارا گھر ہے اور ہمیں اس کی صفائی ستھرائی کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے جیسے ہم اپنے گھروں کا رکھتے ہیں۔ ہر چیز کی ذمہ داری حکومت پر ڈال کر خود کو اجتماعی معاملات سے لاتعلق کرلینا بہت سارے مسائل کی وجہ بن سکتا ہے، اور کراچی میں نامعلوم بیماری کی حالیہ وبا اسی مزاج کے درجنوں نتائج میں سے ایک ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں