کیا ہم پاکستانی ہیں

وقت کے ضیاع کا ان لوگوں کے ہاں کوئی تصور نہیں ہے یہ سب عام پاکستانی ہیں


Abdul Qadir Hassan December 23, 2016
[email protected]

KARACHI: میں اپنے گاؤں سے کوئی چار سو کلو میٹر دور لاہور میں مقیم ہوں۔ بچپن کی مدت کو چھوڑ کر میں گاؤں کے بعد زیادہ تر لاہور میں رہا ہوں۔ مجھے میرے گاؤں کے مدرسے کے استاد محترم نے لاہور میں اپنے ایک شناسا کے نام خط دیا اور نصیحت کی کہ میں ان کے پاس جا کر ٹک جاؤں اور وہاں جا کر لاہور کو بھول جاؤں۔

اگرچہ یہ سفارشی خط بھی لاہور ہی کے ایک استاد کے نام تھا لیکن مجبوری یہ تھی کہ وہ استاد اب لاہور میں منتقل ہو چکا تھا اور اس نے اپنا درس تدریس کا سلسلہ لاہور ہی میں شروع کر دیا تھا اس لیے اگر کوئی طالب علم علم کی تلاش میں کہیں جاتا تھا تو وہ لاہور کا شہر تھا جس میں اس استاد نے اپنا ٹھکانہ کر لیا تھا اور اس کے دور دراز کے شاگرد بھی اس کے درس میں کھنچے چلے گئے تھے۔ ان شاگردوں میں جو نوجوان شامل تھے میں بھی ان میں شامل تھا۔

استاد محترم نے جو امرتسر سے تعلق رکھتے تھے اور لاہور میں مقیم ہو گئے تھے انھوں نے اپنے اندر محفوظ علم کی روشنی اب لاہور میں پھیلانی شروع کر دی۔ مجھے گاؤں میں کسی نے مشورہ دیا کہ تم جو پڑھنا چاہتے ہو اس کا مرکز لاہور ہے۔ اس لیے تم لاہور چلے جاؤ اور پھر انھوں نے چند علمی مرکزوں کا نام لیا اور کہا کہ جس میں بھی جگہ ملے تم اس میں شامل ہو جاؤ اور وہ کچھ پڑھنا شروع کر دو جس کی تمہیں تلاش ہے۔ چنانچہ میں لاہور میں اپنے ایک دوست کے پاس پہنچ گیا جو نیلا گنبد کے علاقے میں مقیم تھا اور اتفاق کی بات ہے کہ یہ دوست خود تو ایک مزدور تھا لیکن ان اہل علم سے ایک واسطہ رکھتا تھا جن کی تلاش میں مجھے لاہور بھیجا گیا تھا۔

یہ بھی لاہور میں حصول علم کی خاطر آیا تھا لیکن اخراجات پورے کرنے کے لیے اس نے باقاعدہ تعلیم چھوڑ کر محنت مزدوری شروع کر دی۔ اور جتنا کچھ موقع ملتا وہ کچھ پڑھ بھی لیتا تھا۔ یہ محنت مزدوری تو میرے اس دوست کے لیے ایک فضول کام تھا جو بہ امر مجبوری جاتا تھا۔

اصل کام وہ پڑھائی تھی جس کے لیے وہ وقت کے مروجہ تعلیمی اداروں میں تو نہ جا سکا لیکن کتاب اور تعلیم سے اس نے اپنا رشتہ مستحکم رکھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ محض ایک مزدور نہ رہا اس کے ساتھ ہی ایک تعلیم یافتہ فرد بھی بن گیا وہ اسے لاہور شہر کے علمی ماحول کی ایک برکت سمجھتا ہے جو اس نے خوب لوٹی لیکن افسوس کہ وہ اپنی اس تعلیم کو کوئی باضابطہ شکل و صورت نہ دے سکا لیکن اس نے ایک راستہ نکال لیا اور جس طرح غیر رسمی تعلیمی اداروں میں اس نے حصول علم کا سلسلہ خود دیکھا تھا اور جہاں سے وہ پڑھ کر تعلیم و تدریس کی دنیا میں آیا تھا اسی طرز پر اس نے خود ہی تعلیم و تدریس کا ایک پرائیویٹ اور ذاتی نوعیت کا سلسلہ جاری کر لیا اور کامیاب رہا۔

وہ لاہور کے کاروباری لوگوں کے رابطے میں رہتا اور ان سے اپنی درسگاہ کے لیے چندہ لیا کرتا۔ چونکہ اس کی درسگاہ واقعتاً ایک درسگاہ تھی چندہ خوری نہیں تھی۔ اس لیے کچھ لوگ اس درسگاہ کو زندہ رکھنے کے لیے چندہ دیا کرتے اور اس درسگاہ سے رابطے میں رہتے۔ اس کا ایک خوبصورت نتیجہ یہ نکلا کہ کم آمدنی والے طلبہ بھی اچھی تعلیم سے محروم نہ رہتے بلکہ وہ ایسے ہی نئے اداروں کے قیام کے منصوبے بناتے رہتے۔ ان سب کو معلوم تھا کہ کتنے ہی نادار نوجوان تعلیم سے محض اس لیے محروم ہو رہے کہ وہ ان اداروں کی فیس اور دیگر اخراجات ادا نہیں کر سکتے تھے۔

ان نادار طلبہ کی طرف سے یہ کام کچھ ایسے لوگ کر رہے تھے جو اپنے اپنے کاروبار یا کسی ملازمت میں تھے لیکن کچھ وقت اس تعلیمی سلسلے کے لیے بھی نکال لتے تھے وہ اپنے روز مرہ کے کام میں بھی مصروف رہتے لیکن کچھ اپنی ہمت اور کچھ اپنے ساتھیوں کی مدد سے وہ ان اداروں کو زندہ رکھتے۔

یہ ادارے اس قدر صاف ستھرے تھے کہ ان کی مدد کرنے والوں کو باقاعدہ دعوت دی جاتی تھی کہ وہ جب بھی موقع ملے کبھی اس طرف بھی جھانک لیا کریں تاکہ انھیں معلوم رہے کہ وہ جس ادارے کی خدمت کر رہے ہیں وہاں ان کی خدمت کو صحیح طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور پوری دیانت اور تن دہی کے ساتھ ان اداروں کو چلایا جاتا ہے اور ان کے طلبہ نہ تو کسی دینی مدرسے کے طلبہ جیسے ہیں اور نہ ہی کسی جدید تعلیمی اداروں کی طرح جدید دنیا کے لیے نوجوان تیار کر رہے ہیں بلکہ یہ پاکستان کی ضرورت کو سامنے رکھ کر اس کی تعمیر کے لیے نوجوان تیار کر رہے ہیں جو ملازمت یا کاروبار میں بھی مصروف رہتے ہیں اور قومی خدمت بھی ایک مشن سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ان اداروں کو کبھی اخراجات کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ چند کاروباری لوگ ہیں جو ایسے تعلیمی اداروں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور ان کے لیے اپنی توفیق کے مطابق خرچ بھی کرتے ہیں۔ اسی خرچ میں اتنی برکت ہوتی ہے کہ ان اداروں کے منتظمین خود حیران رہتے ہیں کہ ان کے اخراجات کسی غیبی طاقت سے پورے ہوتے ہیں اور کبھی قلت محسوس نہیں ہوتی۔

سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ادارے کسی دینی مدرسے کی طرح بھی نہیں ہیں اور نہ ہی کسی جدید تعلیمی اداروں کی طرح کام کرتے ہیں یہ درمیانی راستہ نکالتے ہیں اور بڑے ہی یقین کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں اور کبھی ناکام نہیں ہوتے کیونکہ نہ یہ مولوی ہیں نہ مسٹر عام پاکستانی ہیں اور پاکستانیوں کے مزاج اور ضرورت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اس لیے یہ ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور ان کی کامیابی ان کے دل و دماغ کو مطمئن رکھتی ہے اور وہ اپنی ملازمت یا کاروبار کے لیے مطمئن ہو کر کام کرتے ہیں اور اس میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو پاکستان کی حقیقی تعمیر کر رہے ہیں اور خاموشی کے ساتھ اس قومی خدمت میں کاروبار حیات میں سے جتنی بھی فرصت ملتی ہے وہ اس فرصت میں اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ وقت کے ضیاع کا ان لوگوں کے ہاں کوئی تصور نہیں ہے یہ سب عام پاکستانی ہیں اور پاکستان کی خدمت کا حق ادا کرتے رہتے ہیں۔ کسی نام و نمود کے بغیر کیونکہ یہ سب پاکستانی ہیں۔ اس مٹی کی پیداوار۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں