عوامی اداکار علاؤ الدین سے ملاقات

احمد رشدی کا خوبصورت گیت ان دنوں سارے ملک میں دھوم مچائے ہوئے تھا


یونس ہمدم December 23, 2016
[email protected]

BAHAWALPUR: یہ میری نوعمری کا زمانہ تھا، میں نے فلمساز و ہدایت کار شباب کیرانوی کی فلم ''مہتاب'' کئی بار دیکھی تھی، مجھے اس فلم نے جہاں احمد رشدی کے گائے ہوئے گیت ''گول گپے والا آیا، گول گپے لایا'' نے بڑا متاثر کیا تھا، وہاں اس گیت میں اداکار علاؤالدین کی خوبصورت اداکاری بھی دل میں اتر گئی تھی۔

احمد رشدی کا خوبصورت گیت ان دنوں سارے ملک میں دھوم مچائے ہوئے تھا، شہر شہر، گاؤں گاؤں اور گلی گلی اسی گیت کے چرچے تھے اور فلم بین اداکار علاؤ الدین کی اداکاری پر فدا ہوگئے تھے۔ وہ دور عوامی اداکار علاؤ الدین کا دور تھا۔ اس اداکار کی فلم انڈسٹری میں ایک دھاک جمی ہوئی تھی۔ بے شمار پنجابی اور اردو فلموں کی کامیابی میں ہیرو ہیروئن سے زیادہ اداکار علاؤ الدین کی جاندار کردار نگاری شامل ہوتی تھی۔

علاؤ الدین کی یوں تو بے شمار فلموں نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے تھے اور بطور کریکٹر ایکٹر ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا پر راج کیا تھا مگر چند فلمیں تو ایسی اس اداکار کے کریڈٹ پر تھیں کہ ان کا کوئی نعم البدل ہی نہیں تھا، جن میں آس پاس، کرتار سنگھ، شہید، زرقا اور یہ امن وغیرہ، یہ فلمیں ہی نہیں تھیں بلکہ انڈسٹری کے لیے ایک سند کا درجہ رکھتی تھیں۔ ایک فلم مصنف ریاض شاہد اور فلمساز اقبال شہزاد کی ''بدنام'' تھی، جس نے فلم بینوں کو اپنی طرف مقناطیس کی طرح کھینچ لیا تھا۔

اس فلم میں علاؤ الدین کی اداکاری اور اس کے ادا کیے ہوئے مکالمے تو فلمی تاریخ کا ایک حصہ بن چکے ہیں، جس کی دھوم پاکستان سے لے کر ہندوستان تک پہنچی تھی۔ کیا یادگار مکالمے تھے۔ کہاں سے آئے ہیں یہ جھمکے، کون لایا ہے یہ جھمکے، کس نے دیے ہیں یہ جھمکے۔ اور جھمکوں کی یہ تکرار جب فلم میں نظر آتی تھی تو ہر سینما ہال میں تالیوں کی ہر طرف گونج سنائی دیتی تھی۔ اداکار علاؤ الدین پوری فلم پر چھایا ہوا تھا۔ علاؤ الدین کے ساتھ اداکارہ نبیلہ بھی اس فلم سے لائم لائٹ میں آگئی تھی۔

بے شمار فلم بینوں کی طرح میں بھی اداکار علاؤ الدین کا ایک پرستار تھا۔ ان دنوں میں کالج کا طالب علم تھا، اور نگار ویکلی میں فری لانس جرنلسٹ کے طور پر مضامین لکھا کرتا تھا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک دن اچانک میری عوامی اداکار علاؤ الدین سے ملاقات بھی ہوگی۔

ایک دن میں نگار کے دفتر میں اپنا مضمون دینے کے لیے جیسے ہی داخل ہوا تو ایڈیٹر الیاس رشیدی کے ساتھ اداکار علاؤ الدین بھی بیٹھے ہوئے تھے، میں نے اپنا مضمون الیاس رشیدی کو دینے کے بعد علاؤ الدین کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ جناب! میں آپ کا بہت بڑا فین ہوں، آپ کی بے شمار فلمیں دیکھی ہیں، آج آپ کو سامنے دیکھ رہا ہوں، بڑی خوشی ہو رہی ہے۔ اس دوران ایڈیٹر الیاس رشیدی بولے یہ نوجوان ہمارے اخبار کے لیے مضامین لکھتا ہے۔ اداکار علاؤ الدین نے بڑی شفقت سے میری طرف دیکھا اور گرمجوشی سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔ او جیوندے رہو نوجوان! یہ سن کر میرا دل باغ باغ ہوگیا تھا۔ یہ تھی میری پہلی اور مختصر سی ملاقات اداکار علاؤ الدین سے۔

علاؤ الدین کی پہلی قابل ذکر فلم انڈین فلم انڈسٹری کی فلم ''میلہ'' تھی جس میں اس کم عمر اور خوبرو جوان نے اداکارہ نرگس کے بوڑھے باپ کا کردار ادا کیا تھا اور کوئی شناخت نہ کرسکا تھا کہ اس بوڑھے گیٹ اپ میں ایک نہایت جوان چہرہ چھپا ہوا ہے۔ علاؤ الدین جو راولپنڈی میں پیدا ہوا اور پھر آرٹسٹ کا جنون اسے بمبئی لے کر چلا گیا، علاؤ الدین کی ابتدا ایک ریڈیو گلوکار سے ہوئی تھی مگر اس کی منزل اداکاری تھی، چند ایک فلموں میں علاؤ الدین نے واجبی سے کردار بھی ادا کیے تھے مگر دلیپ کمار اور نرگس کی فلم ''میلہ'' علاؤ الدین کی وہ فلم تھی جس نے اسے بحیثیت اداکار فلمی حلقوں سے روشناس کرایا۔ وہ دور تقسیم ہندوستان کا دور تھا۔

پاکستان بن چکا تھا اور ہندوستان میں ہندو مسلم فسادات روز بروز بڑھتے جا رہے تھے۔ اس دوران کشیدہ حالات کی بنا پر بہت سے مسلمان فنکاروں نے ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنی شروع کردی تھی، کیونکہ بمبئی کی فلم انڈسٹری میں مسلمان آرٹسٹوں کے لیے دروازے بند کردیے گئے تھے اور زندگیاں بھی محفوظ نہیں تھیں۔ علاؤ الدین کو بھی اس بات کا شدت سے احساس ہوگیا تھا کہ اب اس کا یہاں کوئی مستقبل نہیں ہے۔ بہتر یہی ہے کہ اپنی آرزوؤں کو اپنے سینے میں سمیٹ کر واپس پاکستان لوٹ جانا چاہیے۔ پھر علاؤ الدین پاکستان چلا آیا۔ یہاں کی فلم انڈسٹری دو ایک چند پرانے اسٹوڈیوز کے ساتھ انتہائی خستہ حال تھی اور اس وقت اردو فلموں کا کچھ سوچنا بھی مشکل تھا۔

چند فلمساز پنجابی فلمیں بنا رہے تھے اور لاہور کی فلم انڈسٹری اس وقت بڑی سست رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی تھی، یہاں پہلی فلم علاؤ الدین نے بطور ولن کی جس کا نام ''پھیرے'' تھا۔ فلم اچھی گئی اور اس طرح اس اداکار کے دن فلم ''پھیرے'' نے ایسے پھیرے کہ علاؤالدین کو فلموں میں کام ملتا چلا گیا۔ اسی دوران ایک فلم ''پھولے خان'' میں ہیرو کا کردار بھی ادا کیا اور پھر فلموں کی ایک قطار لگ گئی۔ یکے بعد دیگرے کئی کلاسک فلمیں بھی کیں جن میں شہید، زرقا، اور یہ امن کے بعد عوامی اداکار کا خطاب ملا۔

علاؤ الدین کی بحیثیت کیریکٹر ایکٹر لاہور کی فلم انڈسٹری میں ایک دھاک جمی ہوئی تھی، جس فلم میں علاؤ الدین ہوتا تھا اسے لاکھوں فلم بینوں کی محبت ملتی تھی اور وہ فلم سپر ہٹ ہوجاتی تھی۔ یہاں میں علاؤ الدین کی دو ایسی فلموں کا تذکرہ کروں گا جن میں علاؤ الدین نے بہت ہی ڈوب کر اداکاری کی تھی۔ ان میں ایک فلم ''کرتار سنگھ'' تھی اور ''کرتار سنگھ'' کا کردار ایک لازوال کردار تھا، جس نے فلمی دنیا میں ایک تاریخ رقم کی تھی۔

دوسری فلم تھی ''آس پاس'' جس میں علاؤ الدین نے ایک ایسا المیہ کردار ادا کیا تھا کہ جب یہ کردار فلم میں روتا تھا تو فلم بینوں کی آنکھیں بھی بھیگ جاتی تھیں۔ مذکورہ دونوں فلموں میں اس کی اداکاری عروج پر تھی اور ان دونوں فلموں کے کردار بالکل مختلف موڈ کے تھے اور یہ دونوں فلمیں کلاسک کا درجہ رکھتی ہیں۔ علاؤ الدین وہ اداکار ہے کہ جس کو ایک عوامی اداکار تسلیم کیا گیا اور اس کی کردار نگاری پر جتنے ایوارڈ دیے گئے وہ اور کسی بھی کریکٹر ایکٹر کے حصے میں نہیں آسکے۔ میں ان دنوں لاہور میں نگار ویکلی کراچی کا نمایندہ تھا۔ علاؤ الدین سے میری پہلی ملاقات نگار کے دفتر میں ہوئی تھی اور پھر دوسری ملاقات ایورنیو اسٹوڈیو میں ہوئی تھی، جب میرا زیادہ تر وقت اسٹوڈیوز کے فلورز پر گزرتا تھا۔

یہ ایک سردیوں کی دوپہر تھی، ایورنیو اسٹوڈیو کے ایک فلور کے باہر چند کرسیاں ڈالے اداکار یوسف خان، الیاس کاشمیری اور عوامی اداکار علاؤ الدین بیٹھے ہوئے تھے، آپس میں خوش گپیاں ہو رہی تھیں، میں بھی ایک کرسی پر ان کے قریب ہی بیٹھ گیا۔ میں نے علاؤالدین سے ان کی خیریت پوچھی، کیونکہ وہ کافی دن بیمار رہنے کے بعد صحتیاب ہوکر اسٹوڈیو میں نظر آئے تھے۔ میرے پوچھنے پر وہ بولے اب طبیعت کچھ ٹھیک ہے، بس زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔ زندگی کی چھاؤں نے تو ساتھ چھوڑ دیا ہے اب زندگی کی دھوپ کے ساتھ دن گزر رہے ہیں۔

یہ علاؤ الدین سے میری آخری ملاقات تھی۔ اس ملاقات میں مجھے یہ محسوس ہوا کہ اداکار علاؤ الدین اندر سے کچھ ٹوٹے ہوئے تھے۔ ان کی شخصیت کا کھلا کھلا روپ مرجھا گیا تھا۔ وہ شوگر کے مریض بھی تھے، پھر مجھے اس بات کا بھی پتا چلا کہ کچھ دن پہلے ان کے جوان بیٹے کی موت ہوچکی ہے اور اس المناک صدمے سے وہ خود کو کسی طور پر بھی نکال نہیں پا رہے ہیں۔

یہی وجہ تھی کہ کل کا عظیم اداکار جو فلموں سے ہٹ کر بھی دوستوں کی محفلوں میں ہنستا مسکراتا گرجتا برستا نظر آتا تھا وہ اب ناامیدی کی دھند میں ڈوبتا چلا گیا تھا۔ پھر چند ماہ بعد ہی ان کے انتقال کی خبر نے ساری فلم انڈسٹری کو سوگوار کردیا تھا اور ہماری انڈسٹری ایک عوامی اداکار سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئی تھی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں