پولو میچ بصارت اور بصیرت
بھٹو صاحب سے میری پہلی اور دوسری ملاقات پرل کانٹی نینٹل ہوٹل راولپنڈی میں ہوئی تھی
مجھے گوجرانوالہ کے معروف صنعتکار اور چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شیخ محمد نسیم نے ٹیلیفون پر بتایا کہ بٹ سلک ملز کے مالک اور گوجرانوالہ کے چار بار میئر منتخب ہونے والے اسلم بٹ چند روز قبل طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے ہیں تو اپنی گوجرانوالہ ضلع کچہری میں ملازمت کے علاوہ اپنا بحیثیت ریٹرننگ آفیسر ذوالفقار علی بھٹو والا قبل از وقت جنرل الیکشن کرانا اور بہت سی ایسی باتوں کی یاد آ گئی جن کو ضبط تحریر میں لا کر اپنا catharsis کرنے کا ارادہ ہوا کہ وہ قارئین کی دلچسپی کا باعث بھی ہو گا۔
اس وقت گوجرانوالہ میں قومی اسمبلی کی چھ سیٹیں تھیں لوگوں کا خیال تھا کہ شہر میں کشمیری برادری کی اکثریت کی وجہ سے غلام دستگیر خاں کی MNA کی سیٹ پر جیت کے روشن امکان ہیں۔ ان کے یار غار کاظم علی شاہ کے ووٹوں کی امید کے باوجود وہ خوفزدہ تھے۔ ان کے دوست اور کشمیری وولن ملز کے پارٹنر اسلم بٹ کو بھی ناکامی ہوئی تو بٹ صاحب نے مجھ سے رجوع کیا۔
ہماری ملاقات بٹ سلک ملز میں ہوئی جہاں میں نے غلام دستگیر کو زیادتی نہ ہونے کی یقین دہانی کرا کے الیکشن لڑنے پر رضا مند کر لیا۔ اس کے باوجود پیپلز پارٹی کے دباؤ پر ڈپٹی کمشنر کے حکم کے نتیجے میں وہ گرفتار ہو گئے۔ بھٹو صاحب نے اپنے ساتھیوں اور کئی پارٹی ممبران کو بلا مقابلہ MNA منتخب کرا لیا تھا اگر وہ نہ بھی کرتے تو ان کی پارٹی اسمبلی میں اکثریت حاصل کر لیتی۔
میں ریٹرننگ آفیسر تھا۔ انتظامیہ نے PPP کے امیدواروں کے من پسند لوگوں کو الیکشن ڈیوٹیاں دلوا دیں۔ نتیجتاً شام کے وقت ساری سیٹوں پر غیر سرکاری طور پر PPP کے امیدوار کامیاب ٹھہرے۔ غلام دستگیر خاں میرے پاس آئے اور درخواست دی کہ ووٹوں کی گنتی میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ان کے ووٹوں کی Recounting کروائی جائے میں نے ان سے کہا کہ وہ ووٹوں کے ڈبوں والی بلڈنگ کے چاروں اطراف رات بھر اپنے لوگوں کو پہرے پر کھڑا کر دیں تا کہ کوئی خورد برد نہ ہونے پائے آیندہ روز میرے حکم پر دوبارہ گنتی ہوئی اور غلام دستگیر خاں جیت گئے لیکن اس الیکشن کے بعد دنیا جانتی ہے کہ جنرل ضیاء الحق نے شب خون مار کر بھٹو صاحب کو پابند سلاسل کر دیا اور پھر گردنیں دو تھیں اور پھانسی کا پھندہ ایک۔
شاید ایک موقع آیا جب جنرل ضیاء نے بھٹو صاحب سے مکالمہ کیا معافی تلافی ہو جاتی لیکن رپورٹ یہ ہے کہ بھٹو صاحب نے ضیاء سے کہا کہ میں تمہاری مونچھوں سے اپنے بوٹوں کے لیے تسمے بنواؤں گا جب کہ انھوں نے اصل میں ایسا فقرہ کہا تھا جو قابل تحریر نہیں ہے۔ بھٹو صاحب کا جسٹس مولوی مشتاق کی عدالت میں احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کا ٹرائل ہو رہا تھا تو دو دن میری ڈیوٹی صرف اتنی لگی کہ جب پولیس انھیں جیل سے لائے تو ان کو ہائی کورٹ میں لانے والی کار سے لے کر عقیل احمد خاں کے کمرے تک لے جاؤں جہاں وہ کافی کا کپ پی کر عدالت میں جاتے تھے۔
بھٹو صاحب سے میری پہلی اور دوسری ملاقات پرل کانٹی نینٹل ہوٹل راولپنڈی میں ہوئی تھی جب کہ تیسری اور چوتھی لاہور ہائی کورٹ میں چند منٹ کے لیے ہوئی جو پہلی دو ملاقاتیں ملک کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو سے ہوئیں ان میں سے دوسری ملاقات کی تصویر میرے گھر کے ڈرائنگ روم میں لگی ہے۔ تیسری اور چوتھی ملاقاتیں البتہ قتل کے ملزم سے ہوئیں جب وہ ایک گھٹیا سی کار میں پولیس کے زیر حراست ایک متنازعہ جج کے روبرو لائے جاتے تھے۔
ماسوائے ان کی ایک بیٹی صنم بھٹو کے تمام فیملی افسوسناک انجام سے دو چار ہوئی۔ محض اتفاق ہے کہ میرا ایک دوست گروپ کیپٹن طاہر صدیقی ان کا جسد خاکی جہاز پر تدفین کے لیے لاڑکانہ لے کر گیا یہی افسر اپنے وقت کے وزیراعظم نواز شریف کا کپتان بھی رہا۔ نواز شریف ان دنوں ایک پانامہ لیک نامی کیس میں زیرانکوائری ہیں۔ سپریم کورٹ تو اعلیٰ ترین عدالت ہے مجھ جیسا مجسٹریٹ کی ملازمت سے کیرئیر کی ابتدا کرنے والا بھی اس کیس کو سمجھنے میں کوئی ابہام نہیں پاتا۔
غلام دستگیر خاں جب عرصہ بعد مرکزی وزیر بنے تو مجھے فون آیا کہ وہ کھاریاں رک کر اپنے شہر گوجرانوالہ جائیں گے میں نے انھیں اپنے گھر کے بجائے ریسٹ ہاؤس کھاریاں پہنچنے کے لیے کہا جہاں میری طرف سے انھیں گارڈ آف آنر اور سلامی دینے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ انھیں الیکشن لڑنے پر مائل کرنے والوں میں اسلم بٹ مرحوم بابو جاوید سابق میئر اور ممتاز بزنس مین و مخیر شخصیت شیخ محمد نسیم بھی تھے شیخ نسیم فیملی نے گوجرانوالہ میں شیخوپورہ روڈ پر دو سو بستروں کا جدید آلات سے لیس صدیق صادق میموریل ٹرسٹ اسپتال قائم کیا ہے جہاں دل کے علاوہ دیگر تمام امراض کا علاج ہوتا ہے۔
گزشتہ اتوار کو ہمارے ایک دوست ڈاکٹر نذیر حسین چوہدری جو لندن سے آئے ہوئے ہیں جاوید اقبال (کارٹونسٹ)کے ہمراہ آ گئے اور بتایا کہ ریس کورس گراؤنڈمیں پولو میچ ہے۔ ڈاکٹر صاحب لندن میں ڈاکٹری کے علاوہ پولو کھیلنے میں خود کو مصروف رکھتے بلکہ صاحب دیوان شاعر بھی ہیں ہم نے میچ کا لطف اٹھایا اور تقریب کے مہمان خصوصی کامرس منسٹر خرم دستگیر سے بھی ملاقات ہو گئی۔ انھیں دستگیر خاں صاحب کے پہلے قومی اسمبلی کے انتخاب کے پس منظر حقائق کے بارے کچھ معلوم نہ تھا۔ خان صاحب اور ان کے بزنس پارٹنر و محسن اسلم بٹ (مرحوم)کی راہیں سیاست گری نے جدا کر دی تھیں۔ اس لیے بھی خرم دستگیر اپنے والد کے سیاست میں آنے کے پس منظر سے دانستہ یا نادانستہ لا علم تھے۔