چھوٹا مسئلہ بڑا مقدمہ
آپ کا بچہ خوب صورت ہے اس لیے وہ اس سے دوستی کرنا چاہتا ہے
''ایک چھوٹا سا مسئلہ درپیش ہے پیاری...'' باس نے میرے دفتر میں داخل ہوتے ہوئے کہا، میں تعظیما کھڑی ہو گئی اور انھیں سلام کیا، ان کے عقب میں مجھے ایک مڈل ایسٹ کے ایک ملک کے طالب علموں کے والدین بھی نظر آئے، ان کے چار بچے ہمارے اسکول میں تھے جن میں سے ایک میرے یعنی کنڈر گارٹن سیکشن میں بھی تھا، '' تم ان کا مسئلہ سن لو! '' انھیں میرے حوالے کر کے وہ رخصت ہوئیں، ایک وجہ تو یہ تھی کہ ان والدین کو جس بچے کی بابت شکایت کرنا تھی جو کہ میرے سیکشن میں تھا اور دوسرے میرے دفتر میں ملاقاتیوں کے لیے فقط دو کرسیوں کی گنجائش تھی۔
''السلام علیکم میڈم... کیسی ہیں آپ؟ '' دونوں نے سلا م کیا، میں نے انھیں بیٹھنے کو کہا اور خود اپنی سیٹ سنبھالی، '' اصل میں مسئلہ اتنا چھوٹا نہیں ہے جتنا آپ کی پرنسپل کہہ کر گئی ہیں، ہم آپ کے اسکول سے ایسے رویے اور سلوک کی توقع نہیں کرتے، ہمارے چار بچے یہاں پڑھتے ہیں اور ہم ... ڈالر ان کی سالانہ فیس ادا کرتے ہیں!''
''جی فرمائیے '' میں نے شائستگی کی انتہا کو چھوتے ہوئے کہا، آخر ہماری روزی روٹی کا وسیلہ ہیں وہ لوگ۔'' ہمارے بیٹے کو اس کی کلاس کے کسی اور بچے کے والد نے کل چھٹی کے وقت، بے بات گاڑی کے انتظار میں کھڑے ہوئے ڈانٹا تھا اور اسکول میں سے کسی نے اس بات کا نوٹس نہیں لیا '' ماں گویا ہوئی۔'' ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ کسی بچے کے والدین کسی اور کے بچے کو خواہ مخواہ میں ڈانٹ دیں... اگر یہ واقعہ اسکول کی حدود کے اندر ہوا ہے تو کوئی ٹیچر اس بات کو قطعی نظر انداز نہیں کر سکتی، اب تک یہ واقعہ... بلکہ کل ہی مجھے رپورٹ ہو چکی ہوتی!!'' میں نے وضاحت کی۔'' مگر ایسا ہوا ہے...میرے باقی بچے اس بات کے گواہ ہیں! '' بچے کا باپ بولا تھا۔'' آپ مجھے اس بچے کا نام بتا سکتے ہیں جنہوں نے ایسا کیا '' میں نے سوال کیا، '' آپ کے باقی بچوں کو گواہی کے لیے بلانے سے پہلے میں اس بچے یا اس کے والدین سے بات کرنا چاہوں گی! ''
اگلے روزمقررہ وقت پر دونوں بچوں کے والدین موجود تھے، میرے دفتر میں جگہ کم تھی اس لیے ہم ایک اور کمرے میں میٹنگ کے لیے بیٹھ گئے، یہ کمرہ انتظار گاہ تھا مگر اس وقت وہاں بیٹھنے کے سوا چارہ کوئی نہ تھا۔ پہلے وہی بولے جن کو شکایت تھی، پاکستانی والدین خاموش بیٹھے تھے کیونکہ انھیں علم تھا کہ میں انھیں بھی اپنا موقف بیان کرنے کو وقت دوں گی۔
'' آپ نے اپنے بچے سے پوچھا نہیں کہ میں نے اس سے کیا کہا؟ '' پاکستانی والد نے یہ فقرہ کہہ کر گویا اس الزام پر مہر ثبت کر دی کہ ان کا چراغ پا ہونا بالکل صحیح تھا، میں اندر سے ان دنیاوی آقاؤں کے سامنے شرمندگی محسوس کرنے لگی۔
'' پوچھا تھا... اس نے بتایا کہ وہ بچہ میرا دوست نہیں بن رہا تھا، میں نے اس سے دوستی کی کوشش کی اور وہ مجھ سے ناراض ہو گیا تو میں نے اسے آہستہ سے دھکا دیا، وہ سنبھلنے کی کوشش میں الٹا گر گیا اور اسے چوٹ لگ گئی!! '' باپ نے وضاحت کر دی، '' ہمارے بچے جھوٹ نہیں بولتے، اسی لیے اس نے اپنی غلطی بھی بتا دی!'' مجھے چند دن پہلے کا واقعہ یاد آگیا جب بریک کے اوقات میں کھیلتے ہوئے '' کسی '' بچے کا دھکا لگنے سے کہنی پر چوٹ لگ جانے والا وہ پاکستانی بچہ فرسٹ ایڈ کے لیے میرے دفتر لایا گیا تھا، '' بچے آپس میں کھیلتے ہیں تو ایسا ہوجاتا ہے، اسے معمولی چوٹ لگی تھی مگر پھر بھی ہم نے اپنے بچے کی ڈائری میں رکھ کر معذرت کا نوٹ اور چاکلیٹ کا تحفہ بھجوا دیا تھا!!'' مجھے وہ ساری تفصیل بھی یاد تھی اور میں اس پر ان کی دل سے معترف بھی تھی، '' آپ تو جانتی ہوں گی نا میڈم؟ '' اس نے مجھ سے سوال کیا۔'' جی جی... یاد ہے مجھے سب! '' میں نے شرمندگی چھپاتے ہوئے مسکرا کر کہا، '' آپ بتائیے جاوید صاحب ایسا کیا ہو گیا کہ آپ نے ان کے بچے کو ڈانٹا اور وہ بھی اسکول کی حدود میں... جانے ان کی ٹیچر کو اس کا علم کیوں نہیں ہوا؟ '' میں نے اپنی اور اپنے اسکول کی پوزیشن کو بچانے کی سعی کی۔
'' ایسا اسکول میں نہیں ہوا، مجھے معلوم ہے کہ اسکول کے اندر آپ کی ٹیچرز اور اسکول کے باہر آپ کے گارڈز بہت vigilant ہیں مگر ایسا کبھی کبھار ہو جاتا ہے کہ رش کے اوقات میں گارڈز ایسے واقعات کو نہ جانچ سکتے ہوں جو اسکول سے باہر یا گاڑیوں میں رونما ہوتے ہوں !'' ان کا کہنا تھا کہ میرے رونگٹے کھڑے ہو گئے... شاید اس بچے کو کسی نے اغوا ء کرنے کی کوشش کی ہو گی، میں نے سوچا۔'' اگر میرا بیٹا اتنا سخی بننے کی کوشش کر رہا تھا کہ آپ کے بیٹے کو اپنی مرسڈیز کار میں سیر کرانا چاہتا تھا تو اس میں اتنا برا منانے کی کیا بات ہے؟ '' عربی شہزادے کے انداز میں فخر درکر آیا تھا۔'' آپ لوگ کسی سے بھلا نہیں کرتے جب تک آپ کے اپنے مفادات کسی سے وابستہ نہ ہوں ... '' پاکستانی باپ نے نکتہ اٹھایا، میں کچھ سمجھ نہ سکی تھی، '' آپ اپنے بچے سے پوچھتے کہ وہ میرے بچے سے دوستی کا اتنا خواہش مند کیوں ہے جب کہ میرا بیٹا اسے پسند نہیں کرتا، وہ کیوں اس کے ساتھ دوستی کرنے پر اصرار کرتا ہے اور اس کا دوستی کرنے کا طریقہ اور مطلب کیا ہے؟ ''
'' آپ کا بچہ خوب صورت ہے اس لیے وہ اس سے دوستی کرنا چاہتا ہے... باقی کلاس کا ہر بچہ اس کا دوست ہے، آپ کے بیٹے کے سوا، وہ ہر روز گھر سے ڈھیروں چاکلیٹ اور ٹافیاں لے کر آتا ہے کہ اسے اپنے دوستوں کو دینا ہیں!!'' ماں نے فخر سے بتایا۔
'' میرا منہ بند ہی رہنے دیں میڈم تو بہتر ہے '' پاکستانی باپ نے کہا، '' میں تو اس لیے شکایت نہیں کرتا تھا کہ اس کے چار بچے اس اسکول میں پڑھتے ہیں، یہ اس ملک میں اپنے ملک کا سفارت کار اور نمایندہ ہے، اس کے بچوں کے بارے میں کوئی منفی بات اس اسکول میں پھیل گئی تو صرف یہ نہیں بلکہ اس کے بچے اور اس کا ملک بدنام ہو گا اور ممکن ہے کہ آپ اس کے بچوں کو اسکول سے نکال دیں، تعلیمی سال کے وسط میں اس کے بچے رل جائیں گے''
'' ایسا کیا کیا ہے میرے بیٹے نے؟ '' بدیسی باپ چیخا تھا۔ '' جو کچھ وہ کرتا ہے... وہ شاید اس کی کلاس کے باقی بچوں کے لیے یا ان کے والدین کے لیے قابل قبول ہو مگر ہم نے اپنے بچے کو گھر سے اسکول بھجوانے سے پہلے اس کی عمر اور معصومیت کے لحاظ سے اسے سمجھایا تھا کہ good touch and bad touch کیا ہوتا ہے، یہی انھیں اسکول میں بھی سکھایا جاتا ہے کہ ان کے ننھے اور نرم و نازک جسم ان کی ایسی ملکیت ہیں جنھیں دیکھنے اور چھونے کی اجازت کسی کو نہیں ہے... سو ہمارا بچہ آپ کے بچے کا دوست نہیں بن سکتا کیونکہ اس کی اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتی!!'' پاکستانی باپ کی بات سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔
'' کم آن ، مسٹر جاوید... وہ ایک آٹھ سال کا بچہ ہے ( یوں تو کے جی کے بچے پانچ سے چھ سال کی عمر کے ہوتے ہیں مگر ان کے بچوںکو زبان کا مسئلہ تھا اس لیے وہ اپنی عمر سے چھوٹی کلاسز میں تھے ) اور بچوں کے کھیل ایسے ہی ہوتے ہیں ، معصوم ذہنوں میں کوئی پراگندگی نہیں ہوتی صرف تجسس ہوتا ہے... ہمارے گھروں میں ذرا ماحول ماڈرن ہے اس لیے بچے تجسس میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور بھلا ہمارا بیٹا آپ کے بیٹے کو کیا ضرر پہنچا لے گا!!'' عربی شہزادے نے پاکستانی باپ کا کندھا تھپتھپایا، اس نے اس کا ہاتھ جھٹک کر اپنے کندھے سے ہٹایا۔
'' آئی ایم سوری مسٹر... لیکن آپ اپنے بیٹے کو بتا دیں کہ اگر اس نے اس کے بعد ایسی حرکت کی تو اس اسکول میںیا آپ کے بچے پڑھیں گے یا میرے'' معاملہ کیا رفع دفع ہوتا، اس میں اسکول بری الذمہ تھا، چند دنوں کے بعد واقعی اسکول میں دونوں میں سے ایک کا بچہ اسکول میں تھا، آپ جانتے ہیں کس کا!! ہم ان کی مخالفت مول لیں تو روٹی کہاں سے کھائیں... یوں بھی ہر مشکل میں مختلف ملکوں کے شہزادے ہی ہمارے کام آتے ہیں، چاہے وہ سعودی ہوں یا قطری!!