ایک نہتی لڑکی سے
عظیم باپ کی بیٹی، عظیم بھائیوں کی بہن، عظیم ماں کی پروردہ بے نظیر نے جنرل کی بات کو رد کر دیا.
وہ شام میں کبھی نہ بھول سکوں گا، 5 سال بعد بھی وہ شام مجھے خوب یاد ہے۔ میں اسی روز صبح اپنے پسندیدہ شہر ملتان شریف پہنچا تھا۔ جاتے جاتے دسمبر کی شام کے دھندلکوں نے شہر پر سحر طاری کیا ہوا تھا، یہ 27 دسمبر 2007ء کی شام تھی۔ ملتان پریس کلب کی سرخ اینٹوں کے در و دیوار اور سبزہ زار دسمبر کی شام کو اور خوبصورت منظر بنا رہے تھے۔
میں پریس کلب میں صحافی دوستوں کے ساتھ زیادہ دیر نہیں بیٹھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ سردی کا لطف کھلی فضا میں لیا جائے۔ اب میں اور میرے ہم سفر زلفی بھائی ابدالی روڈ ملتان کی فٹ پاتھ پر چل رہے تھے، ہمارا رخ چوک نواں شہر کی طرف تھا۔ میں دیکھ رہا تھا شہر کی دیواروں پر جہازی سائز کے رنگین پوسٹر چسپاں تھے۔ بے نظیر بھٹو کی رنگین تصویر سے سجے ہوئے پوسٹر پر لکھا تھا ''بے نظیر بھٹو کا تاریخی خطاب، 28 دسمبر 2007ء سہ پہر 3 بجے بمقام پرانا قلعہ ملتان۔''
آج شام بے نظیر بھٹو لیاقت باغ راولپنڈی میں خطاب کر رہی تھیں، میں ابدالی روڈ پر چل رہا تھا، سب کچھ بھی ٹھیک چل رہا تھا کہ میرا موبائل بجنے لگا۔ میں نے موبائل کھولا، دوسری طرف کراچی سے میرا بیٹا فرحان بول رہا تھا ''ڈیڈی! بے نظیر شدید زخمی، قاتلانہ حملہ، حالت نازک ہے'' لمحوں میں قیامت آ گئی تھی۔
ابھی چند لمحوں پہلے سب کچھ ٹھیک تھا۔ میں نے اپنے حواس کو جمع کیا اور بیٹے سے کہا: ''تم جلدی گھر پہنچو'' فرحان نے کہا: ''ہاں، ہاں میں برانچ بند کروا رہا ہوں' اور نکل رہا ہوں'' میں تیز تیز قدم اٹھاتا اپنی قیام گاہ کی طرف جا رہا تھا کہ پھر میرے موبائل کی گھنٹی بجی اور کراچی سے میرا بیٹا بول رہا تھا ''ڈیڈی! بے نظیر شہید ہو گئیں، ڈیڈی! بے نظیر بھٹو کو مار دیا گیا۔''
پانچ سال پہلے بھی میں نہیں سمجھ سکا تھا کہ قتل بے نظیر پر میرا کیا حال تھا، سو آج بھی میں بے خبر ہوں، مگر اب تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس قتل پر بے نظیر احتجاج ہوا تھا۔ ذرایع آمد و رفت بند ہو گئے تھے جو جہاں تھا، وہیں رک گیا، میں نے بھی پانچ دن ملتان شریف میں گزارے۔
شہیدوں کے عظیم خاندان میں یہ چوتھی شہادت تھی، سب سے پہلی شہادت باپ کی تھی، قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی شہر میں ایک فوجی جرنیل ضیاء الحق نے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا تھا۔ اس شہادت پر بھی گھروں میں چولہے نہیں جلے تھے۔ وہ غم و اندوہ میں ڈوبے دن رات تھے۔
باپ کے دونوں بیٹے میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو ملک سے باہر چلے گئے تھے اور بیٹی بے نظیر بھٹو اپنی ماں نصرت بھٹو کے ساتھ جیل میں تھیں۔ صنم بھٹو ملکی سیاست سے الگ تھلگ ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ لندن میں تھیں۔ فوجی قیادت نے قائد عوام کو پھانسی دی اور لاش کو لاڑکانہ پہنچایا۔ سارے شہر میں کرفیو کا سماں تھا، آبائی گھر میں بڑی بیگم صاحبہ کو چہرہ دکھایا اور گنتی کے چند لوگوں نے نماز جنازہ پڑھی اور لاش کو سخت فوجی پہرے میں دفنا دیا گیا۔ فضا خاموش تھی، مگر ایک شخص بول رہا تھا۔ اس قتل پر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہا تھا،
حبیب جالبؔ کہہ رہا تھا:
ہاتھ کس کا پس عدالت تھا
دار پر کس نے اس کو کھنچوایا
ایک ہی ''مجرم زمانہ'' ہے
اس پہ الزام تک نہیں آیا
پھر شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور دونوں کو باپ کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔ اور اب بیٹی رہ گئی تھی۔ دشمن اسے بھی ختم کرنے کے در پے تھا۔ کیونکہ وہ دشمنوں کے راستے میں دیوار بن کر میدان عمل میں کھڑی تھی۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ جب بے نظیر بھٹو طویل جلا وطنی کاٹ کر اپنے ملک واپس آ رہی تھیں یہ 1986ء تھا۔ اور لاہور شہر میں لاکھوں انسانوں نے والہانہ استقبال کیا تھا۔ بے نظیر کی آمد پر حبیب جالبؔ نے بھی اپنے اشعار کی صورت اس کو خوش آمدید کہا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی جا رہی تھی۔
ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے
پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے
ڈرے ہوئے ہیں' مرے ہوئے ہیں لرزیدہ لرزیدہ ہیں
ملّا' تاجر' جنرل جیالے ایک نہتی لڑکی سے
آزادی کی بات نہ کر' لوگوں سے مل' یہ کہتے ہیں
بے حس' ظالم' دل کے کالے' ایک نہتی لڑکی سے
دیکھ کے اس صورت کو جالبؔ ساری دنیا ہنستی ہے
بلوانوں کے پڑے ہیں پالے' ایک نہتی لڑکی سے
دھرتی کے بلوانوں نے ایک بار پھر بے نظیر بھٹو کو جلاوطنی پر مجبور کر دیا۔ اپنے وطن میں اس پر جبر کی انتہائی کر دی گئی اور پھر وہ بچوں کو لے کر باہر چلی گئیں۔
ملک پر چوتھی بار ''بوٹوں کی سرکار'' حکمرانی کر رہی تھی کہ بے نظیر بھٹو نے وطن واپسی کا اعلان کر دیا۔ فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے کھلے الفاظ میں بی بی سے کہا: ''آپ کی جان کو شدید خطرہ ہے، آپ پاکستان مت آئیں'' مگر عظیم باپ کی بیٹی، عظیم بھائیوں کی بہن، عظیم ماں کی پروردہ بے نظیر نے جنرل کی بات کو رد کر دیا اور وہ اپنے وطن آ گئی۔وہ اکتوبر 2007ء کی رات تھی، اور ''چاند اس رات بھی نکلا تھا'' اور ''تارے اس رات بھی نکلے تھے''۔ کراچی ایئرپورٹ سے لاکھوں کے جلو میں زمین پر اترا چاند لاکھوں ستاروں کے ساتھ چلا ''بسوں، ویگنوں، کاروں، ٹریکٹروں، موٹر سائیکلوں کے ساتھ لوگ پیدل بھی چل رہے تھے، پارٹی پرچم لہرا رہے تھے، استقبالی نغمات ہر سُو بکھر رہے تھے۔
بی بی بے نظیر اس رات عوام کے درمیان بہت خوش تھیں اور بلا کا حسن ان پر اترا ہوا تھا، آدھی رات کے قریب جلوس کارساز پہنچا، پوری دنیا ٹیلی ویژن پر دیکھ رہی تھی، ایک دھماکا ہوا، اور چند لمحوں بعد تین دھماکے اور ہوئے، 156 ستارے اس رات اپنے چاند پر نچھاور ہو گئے۔ قیامت کی رات گزری، صبح ہوئی، بہادر، نڈر، بے خوف نہتی بے نظیر جان سے گزرنے والوں کے گھر لیاری پہنچ گئیں۔ وہ جو کہتے ہیں ''آزادی کی بات نہ کر ' لوگوں سے نہ مل'' مگر شہید رانی خود کو لوگوں سے الگ نہیں رکھ سکتی تھیں۔ رانی شہید شہداء کے گھر والوں کو گلے سے لگائے حوصلہ دے رہی تھیں، شہیدوں کے معصوم بچے رانی ماں کی گود میں بیٹھے تھے۔اس سانحے کے بعد رانی شہید اپنے باپ کی طرح سمجھ چکی تھیں اب دشمن مجھے زندہ نہیں رہنے دیں گے، شہید بھٹو بھی یہ بات جان چکے تھے کہ دشمن فیصلہ کر چکے ہیں اور پھر عوام کے قائد نے بھی مردانہ وار جان دینے کا تہیہ کر لیا اور ہنس کر موت کو گلے لگا لیا۔ رانی شہید کو بھی اسی کڑے امتحان سے گزرنا تھا۔ بے نظیر کا لہجہ سخت سے سخت ہونے لگا۔
وہ بیباکانہ اپنے دشمنوں کو للکارنے لگیں، وہ اپنے عوام کو آگے بڑھنے کا عزم دیتے ہوئے سنہرے مستقبل کے حصول کے لیے تیار کرنے لگیں۔ شہادت سے پہلے، زندگی کی آخری رات خفیہ رپورٹیں آنے لگیں ''کل جلسے میں شرکت نہ کریں، شدید خطرات موجود ہیں'' نہتی بے نظیر نے سنا تو خفیہ رپورٹس کو ہنس کر ٹال دیا۔ قریب ترین ساتھیوں نے کہا کہ ''جلسے میں نہ جائیں'' مگر وہ ڈرنے والی نہیں تھیں اور 27 دسمبر 2007ء کی شام جلسے کے اختتام پر موجود ہزاروں لوگوں کے درمیان اس نے بہادری سے جان دے دی۔
شہید بھٹو 56 سال کی عمر میں شہید ہوئے۔ بیٹی بے نظیر نے 54 سال کی عمر پائی۔ دونوں شہید بھائی، میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو تو بھری جوانی میں شہادت کا رتبہ پا گئے۔ اب یہ روشنیوں کے چاروں مینار ایک ہی جگہ ایستادہ ہیں۔ لوگ آتے ہیں، اپنے من اجالتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ شہیدوں کے یہ مینار تا ابد اجالے بکھیرتے رہیں گے۔بی بی بے نظیر! اس بار تم بڑی شدت سے یاد آ رہی ہو، کیونکہ تمہارے بعد یہاں بڑی لوٹ مچی ہے، تمہاری یادوں کے اجالے ہمارے ساتھ ہیں، بس انھی کے سہارے اچھے دنوں کے آنے کے یقین کے ساتھ چل رہے ہیں۔ اللہ تمہارے درجات بلند کرے ۔(آمین)