واپسی

بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی پارٹی ہی نہیں ان کی فیملی پر بھی برا وقت آن پڑا


Shakeel Farooqi December 27, 2016
[email protected]

حسن والے حسن کا انجام دیکھ
ڈوبتے سورج کو وقتِ شام دیکھ

کسی شاعری کا مندرجہ بالا شعر اس حقیقت کی گواہی دیتا ہے کہ ہر کمالے را زوال۔سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں پر تو یہ بات خاص طور پر صادق آتی ہے۔ ہمیں برصغیر کے آنجہانی بزرگ سیاستداں سی راج گوپال آچاریہ یاد آرہے ہیں جو عوام الناس میں راجہ جی کے نام سے جانے پہچانے جاتے تھے ۔ ہمیں یاد ہے کہ کانگریس سے کنارہ کشی کے بعد دلی کے مشہورکمپنی گارڈن میں شام کے وقت سورج کی طرف اپنی انگشت شہادت سے اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:

"you see the sun is setting. The sun of congress will also set soon"

(ترجمہ: آپ دیکھ رہے ہیں کہ آفتاب غروب ہورہا ہے۔ جلد ہی کانگریس کا آفتاب بھی غروب ہوجائے گا۔)

راجہ جی نے یہ تاریخی الفاظ اپنی نوزائیدہ سیاسی جماعت ''سوئنترا پارٹی'' کو متعارف کراتے ہوئے ادا کیے تھے۔ان کی نئی سیاسی جماعت توکامیاب نہ ہوسکی لیکن کانگریس پارٹی کے زوال کے بارے میں ان کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی۔

ہم نے یہ تذکرہ پاکستان پیپلزپارٹی کے حوالے سے کیا ہے جس کے عروج و زوال کی کہانی بھی انڈین کانگریس سے بڑی حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ اگرچہ پی پی پی کے بانی قائد ذوالفقارعلی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا لیکن ان کی جماعت کا جنم پنجاب سے ہوا اور اسی صوبے میں اس کی زبردست حمایت اور پذیرائی کی بدولت اس نے عرصہ دراز تک نہ صرف وطن عزیز پاکستان بلکہ پاکستانیوں کے دلوں پر بھی حکمرانی کی۔ بھٹو صاحب ایک بے مثال کرشماتی قائد تھے جس کا لوہا ان کے مخالفین بھی مانتے ہیں۔ جب تک بھٹو زندہ رہے، پی پی پی کے جیالوں کی زبردست حمایت سے ان کی جماعت کی عوامی مقبولیت کا گراف ملک کے چاروں صوبوں میں بلندیوں کو چھوتا رہا۔

بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی پارٹی ہی نہیں ان کی فیملی پر بھی برا وقت آن پڑا اور misfortune never comes والی کہاوت صادق آگئی۔ ہر طرف سے مصائب کے پہاڑ ٹوٹنے لگے۔ پارٹی کی قیادت کی انتہائی بھاری اور نازک ذمے داری ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو کے کاندھوں پر آ پڑی۔ یہ وہ دور تھا جب سائے نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اس کٹھن گھڑی میں آصف علی زرداری نے بے نظیر کا ہاتھ تھام لیا اور بس پھر کیا تھا قسمت کی دیوی ان پر مہربان ہوگئی اور خوش نصیبی کا یہ سلسلہ زرداری کو بالآخر وطن عزیز کے سب سے اعلیٰ منصب یعنی کرسی صدارت تک لے گیا۔ گویا حقیقت میں وہ کچھ ہوگیا جو زرداری کے خواب و خیال میں بھی نہ رہا ہوگا۔

مگر وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ 25 جون 2015 کو ایک متنازعہ تقریرکرنے کے بعد جسے مسلح افواج کے خلاف باور کیا گیا زرداری صاحب ترک وطن کرکے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرکے بیرون ملک چلے گئے۔ ان کے اس اقدام کے بارے میں تاثر عام تھا کہ انھوں نے ایسا قانونی کارروائی سے بچنے کی وجہ سے کیا ہے۔ اس عرصے میں وہ کبھی دبئی اور کبھی لندن میں قیام پذیر رہے اور امریکا بھی گئے۔ ان کی عدم موجودگی میں پارٹی کا پرچم ان کے فرزند بلاول بھٹو زرداری نے سنبھالا مگر سب کو معلوم تھا کہ اس پتلی تماشے کی تمام ڈوریاں آصف علی زرداری ہی کے ہاتھوں میں ہیں۔

دسمبر کا مہینہ پاکستان کے حالات کے حوالے سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ خوشی کا مہینہ بھی ہے اور غم کا بھی۔ خوشی کا مہینہ اس لیے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اسی ماہ کی 25 تاریخ کو اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور غم کا مہینہ اس اعتبار سے کہ ان کا تخلیق کردہ پاکستان اسی ماہ کی 16 تاریخ کو سانحہ سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں دولخت ہوا تھا۔ اس کے علاوہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت بھی اسی ماہ کی 27 تاریخ کو ہوئی تھی جس معمے کا حل آصف علی زرداری کی حکمرانی کے طویل دور میں بھی حل نہ ہوسکا۔

23 دسمبر کو آصف علی زرداری کی واپسی بھی اس ماہ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ جب زرداری صاحب 25 جون 2015 کو ترک وطن کرکے جا رہے تھے تو تب بھی ان کے مستقبل کے پروگرام کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ بعض حلقوں کا کہنا یہ تھا کہ اب وہ کبھی بھی وطن واپس نہیں آئیں گے۔ گویا:

میں ترا شہر چھوڑ جاؤں گا
اور پھر لوٹ کر نہ آؤں گا

لیکن آصف زرداری نے اپنے عزائم اور منصوبے کسی پر ظاہر کرنے کے بجائے اپنے سینے کے نہاں خانے میں پوشیدہ رکھے۔ بقول اقبال:

بے چارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ

پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور آصف علی زرداری کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ دنوں پارٹی کے میڈیا سیل واقع کلفٹن میں یہ اعلان کردیا کہ آصف علی زرداری 23 دسمبر کو وطن واپس آرہے ہیں۔ لیکن یہ اعلان غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ اس حوالے سے قیاس آرائیوں کا سلسلہ ایک عرصے سے جاری تھا۔ البتہ واپسی کی حتمی تاریخ کے بارے میں وثوق سے کچھ کہنا ممکن نہیں تھا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ آصف علی زرداری کی واپسی بیک چینل ڈپلومیسی کا نتیجہ ہے۔ لیکن بلاول بھٹو زرداری نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمہوریت کی خاطر وطن واپس آرہے ہیں۔

آصف زرداری کی 18 ماہ کی خودساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد وطن واپسی نے بے نظیربھٹو کی جلاوطنی سے وطن واپسی کی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ اول 1986 میں جب لاہور میں ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا تھا اور اس کے بعد 18 اکتوبر 2007 کو جب وطن واپسی پر شہر قائد کراچی میں ان کا شاندار تاریخی استقبال کیا گیا تھا۔ آصف زرداری کی وطن واپسی ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب پاکستان میں سپہ سالارکی تبدیلی ہوچکی ہے اور پیپلز پارٹی کے سات روزہ یوم تاسیس کو منائے ہوئے چند روز ہی گزرے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے بلاول ہاؤس لاہور میں 49 ویں یوم تاسیس کے موقعے پر پورے ہفتے مختلف پروگرام ترتیب دیے۔ اس دوران چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے نئی پارٹی پالیسی تشکیل دی اور پارٹی کے اہداف بھی واضح کیے۔ یہ پہلا موقع تھا جب پاکستان کے سیاسی گڑھ، لاہور میں بے نظیر بھٹوکی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی بھرپور انداز میں متحرک نظر آئی۔ بلاول وسطی اور جنوبی پنجاب کی تنظیم میں بے داغ چہرے لے کر سامنے آئے ہیں جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ نواز شریف کا زور توڑنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد اب وہ 27دسمبر کو اپنی والدہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا اعلان کر رہے ہیں جس کے لیے ان کے والد کی موجودگی یقینا باعث تقویت ہوگی۔

اس میں رتی برابر بھی شک نہیں کہ آصف زرداری کی وطن واپسی سے پیپلزپارٹی کی سیاسی سرگرمیوں میں نمایاں طور پر تیزی آئے گی۔ اس کے علاوہ ملک کے ایک منجھے ہوئے سیاست داں ہونے کی حیثیت سے بھی آصف زرداری پاناما لیکس کے ایشو پر اور سانحہ کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ کے تناظر میں تمام اپوزیشن جماعتوں کو حکومت وقت پر دباؤ ڈالنے کے سلسلے میں متحد کرنے کے معاملے میں بھی نہایت اہم اور فعال کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر آصف علی زرداری کی وطن واپسی کو ٹارزن کی واپسی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں