مقصود نظر کیا ہے

ہمارے اطراف سنگین حالات ہیں



ہمارے اطراف سنگین حالات ہیں، ہماری سرحدوں پر یا تو ایک طرح کی پراسرار خاموشی ہے یا پھر بارود کی بو سے فضا کسی بھی وقت زہر آلود ہوجاتی ہے۔ دنیا میں جس قوم نے بھی کسی استعمار سے آزادی حاصل کی اس کے بعد اس قوم نے ایسی تدابیر کیں کہ وہ قوم دوبارہ ایسے پنجے میں نہ آئے۔

اس کے لیے انھوں نے علم کو فروغ دیا، لوگوں کو محنت کی عظمت کا درس دیا اور اس کے مواقع فراہم کیے اور بحیثیت مجموعی ملک اور قوم کے لیے کام کیا، یہ غور کیے اور دیکھے بغیر کہ کون کیا ہے، کس کا کیا عقیدہ ہے، وہ عبادت کرتا ہے یا نہیں؟ کرتا ہے تو کس طرح کرتا ہے، کس کی کرتا ہے؟

یہ ایک درست سوچ ہے، کیونکہ عبادت اور عقیدہ ہر انسان کا اپنا ذاتی معاملہ ہے اور اس میں زور زبردستی نہیں ہے۔ قرآن کی ایک آیت کے مطابق مسلمانوں کو اس اصول کو یاد رکھنا چاہیے کہ قرآن میں رب العزت نے فرمایا ''دین میں جبر نہیں ہے۔''اس پر تو بات ابھی کرتے ہیں، پہلے دنیا کا جائزہ لے لیں۔ سوائے ہندوستان، پاکستان کے یا بھارت پاکستان کے اور بھارت کے زیر اثر کچھ ریاستوں اور میانمار جیسے چھوٹے ملکوں اور بنگلہ دیش جیسے تنگ نظر لوگوں کے، کہ وہ اب مودی کے پیروکار ہیں، اسلام سے شاید اس حکومت کا کوئی خاص ربط ضبط نہیں ہے۔

عوام آج بھی مسلمان ہیں، جن کا ذہن زہر آلود کردیا گیا ہے، اپنوں اور پرایوں کے ذریعے۔دنیا بھر کے لوگوں نے ترقی کا راستہ اختیار کیا۔ علم ترقی کا زینہ ہے۔ دین میں بھی علم کی تاکید ہے۔ کوئی دنیا کا مذہب ایسا نہیں ہے جس میں علم کو ترقی کا راستہ نہ بنایا گیا ہو اور کوئی آئین ایسا نہیں ہے جس میں تعلیم اور علم کے فروغ کا وعدہ نہ کیا گیا ہو۔

چین، جاپان، جرمنی، ملائیشیا، انڈونیشیا اور بہت سے ملکوں نے آزادی سے سبق سیکھا، آزادی بھی دو تین طرح کی تھی یا کسی استعمار سے آزادی یا خود ساختہ رسم و رواج سے آزادی، جنگ کے خاتمے سے جنگ زدہ ماحول سے آزادی۔ اور پھر خصوصاً چین، جاپان، جرمنی کے بارے میں اعداد و شمار، شواہد اور تاریخ موجود ہے کہ انھوں نے کس طرح اور کتنی جلد اپنے ملکوں کو ایک درست اور ترقی کے راستے کے پر گامزن کردیا اور آج تک گامزن ہی نہیں ترقی کا سفر جاری و ساری ہے۔

وجہ کیا ہے؟ وجہ ہے لیڈرشپ۔ اس ملک کے لوگ اپنے ملک کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں، صرف خود سے محبت نہیں کرتے۔ وہاں سیاسی جلسوں میں رشتوں کے سوال نہیں کیے جاتے، نہ بہنوں کی پسند سے شادی کرنے کا جواب دیا جاتا ہے۔ وہ ذاتی زندگی اور قومی زندگی کو الگ الگ خانوں میں رکھتے ہیں۔

ہمارے یہاں صرف کہا جاتا ہے Pakistan First، وہاں عمل کیا جاتا ہے، اگر عوام اور وزیراعظم کے درمیان ریفرنڈم میں نقطہ نظر کا اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور وزیراعظم کے نظریے سے عوام اتفاق نہیں کرتے تو وزیراعظم استعفیٰ دے کر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے گھر روانہ ہوجاتا ہے، وزیراعظم ہاؤس نہیں، نہ ذاتی گھر کو کیمپ ہاؤس میں تبدیل کرکے اپنے گھر بلکہ کرائے کے مکان میں۔ ہے نا حیرت کی بات کہ وزیراعظم رخصت ہونے کے بعد مکان کا بندوبست کرتا ہے۔ دوران حکومت دنیا بھر میں اور اپنے ملک میں دس مکان نہیں بناتا، نہ اپنے گھر کو کیمپ ہاؤس قرار دے کر مزے اڑاتا ہے۔

1947میں کروڑوں لوگوں کی قربانیوں کے نتیجے میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا، اب تو لوگ ان قربانیوں کا اور قربانیاں دینے والوں کا ذکر بھی نہیں سننا چاہتے، کیونکہ کچھ لوگوں نے ''مہاجریت'' کا پھٹہ بنایا ہوا ہے اور اسے سکے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ تین چار دکانیں کھلی ہوئی ہیں اس کاروبار کی۔ سارے لوگ ایسے نہیں ہیں، وہ بھی ہیں جو کہیں مذکور نہیں، وہ آسمان کی طرف دیکھ کر یہی کہتے ہیں کہ یا اللہ کیا ہم نے یہ ملک اس لیے ہی بنایا تھا کہ یہاں ایسی حکومت ہو جو عوام کا خون چوس لے، زندگی اجیرن کردے، ٹیکسوں کے انبار سے۔ ان التجاؤں میں اور بھی بڑے بڑے نام آتے ہیں، کیا فائدہ لکھنے کا۔

اب سب سیاسی بادشاہ ہیں، تخت پر بیٹھے کو برا بھلا کہہ رہے ہیں، اور تخت پر بیٹھ کر تنقید سننے کا انتظار کر رہے ہیں۔ سب کی نظر دودھ کی کٹوری حکومت پر ہے، اس سیاسی حمام میں... جانے دیجیے کیا فائدہ۔بیانات کی حد تک پاکستان میں ایک سے ایک وطن پرست اور قوم پرست ہے، اندرون خانہ وہ اس قوم کا قوم پرست ہے، جس سے اس کا تعلق ہے، کچھ پیشہ ورانہ قوم پرست ہیں، کچھ ملا، ان لوگوں کے پاس ''مال'' ختم ہونے لگتا ہے تو قوم اور مذہب خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ پیسہ ملتے ہی معاملات نارمل، قوم خطرے سے نکل آتی ہے، اسلام کو لاحق خطرات ختم ہوجاتے ہیں کچھ عرصے کے لیے۔

کیا کردار سے ہمارا جھوٹی قوم پرستی، زبان کی بنیاد پر ملک کے خلاف کام کرنا، پڑوسی ملک کی حمایت کرنا، اس کی آبادی کا بوجھ اس ملک پر رہے، وہ نہ جائیں، یہاں سے سیاست چلتی رہے۔ ملک پر آبادی کا بوجھ ہے خود اس ملک کا ہوا کرے، مگر پڑوسی ملک کے لوگوں کو چوتھائی صدی سے رکھا ہوا ہے، یہ گویا ان کی طاقت ہے سیاسی پروپیگنڈا ہے، یہ جماعت تو قیام پاکستان سے اب تک صرف پروپیگنڈے پر ہی چل رہی ہے۔ سیاسی گاندھی کے پیروکار ہیں۔

یہی نہیں جن لوگوں نے پاکستان میں پرورش ہی نہیں پائی اور جو لوگ ہمیشہ بیرون ملک عیش کرتے رہے اور ان کے ماں باپ اپنے بچوں کو دوسرے ملکوں میں رکھ کر پاکستان کے بچوں کے لیے آنسو بہاتے رہے اور نام نہاد ہمدردی کرتے رہے، اب ان کے بچے پاکستان میں عوام کی فصل کاٹنے کو آ پہنچے ہیں۔

کب تک؟ آخر کب تک یہ ہوتا رہے گا۔ سیاسی بیان، صرف سیاسی بیان ہوتا ہے، اس ملک میں تو وزیراعظم کی اسمبلی میں وضاحت کو سیاسی تقریر کورٹ میں کہہ دیا جاتا ہے، ان کے وکیلوں کی طرف سے۔

اور پھر حکومت کے بچے میرا اشارہ حکومت کی اعلیٰ شخصیت کی طرف ہے، کیونکہ وہ حکومت کی تمام مراعات استعمال کرتے ہیں ''پاناما'' کے علاوہ بھی، اب یہ تو ایک Open Shut Case ہے اور اس کا فیصلہ ہو ہی جائے گا یا تو وہ جو ہوتا رہا ہے فیصلوں کی صورت یا پھر اسے بھی انتظار کی سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ جہاں لیاقت علی خان کے قتل سے لے کر ملک کے بار بار قتل (معاشی، انتظامی، اخلاقی) لٹکے ہوئے ہیں اے قوم پاکستانی تو نے سوچا کیا ہے؟ ایسا ہی ہوتا رہے گا؟ایک کے بعد ایک نواب زادے، صاحبزادے، چور، اچکوں اور دہشت گردوں کی مدد سے اس ملک پر حکومت کرتے رہیں گے، اپنے علاقوں میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے؟ چاہے سندھ ہو یا پنجاب، بس کراچی کراچی کھیلتے رہیں گے؟ شاید نہیں۔

مقصود نظر کو اگر فراموش کردیا گیا تو دنیا کی کوئی طاقت ایک اور غلامی سے نہیں بچا سکتی۔ حکومت نے ملک کو معاشی غلام بنانے کا بیڑا اٹھایا تھا اور کر ہی دیا ہے شاید، چین کب تک ساتھ دے گا، دوستی اپنی جگہ قومی فائدہ اپنی جگہ۔ وہ قومی مفادات کا سودا نہیں کرتے۔ قومی مفادات ہی تو ان کا مقصود نظر ہوتے ہیں۔ ذاتی کاروبار اور عیاشیاں نہیں۔ نیند سے جاگو، مقصود نظر قیام پاکستان کا یاد کرو، ایک بار پھر اٹھو ملک کو بچانے کے لیے، مثبت انداز میں، نہ کنٹینر پر بھروسہ کرو نہ رائے ونڈ پر، یہ سب اقتدار کا ٹوپی ڈرامہ ہے۔ اقتدار عوام کا ہے اور عوام کے پاس رہنا چاہیے۔ یہ ہوتا ہے مقصود نظر زندہ قوموں کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں