مثبت سوچ
جب وطن لوٹے تو سوچا کہ احتجاج لازم ہے لیکن پھر وہی پابندیاں۔ لہٰذا قلم رک گیا۔۔۔
لاہور:
یہ کوئی سات آٹھ برس پہلے کی بات ہے۔ ہمیں دبئی جانا تھا، اس کے لیے کئی روز پہلے بکنگ کرا لی گئی۔ وقت مقررہ پر اپنا تمام سامان اٹھا کر تیار گھر والوں سے مل کر ذہنی طور پر شام تک اپنے آپ کو ایک دوسرے ملک کے لیے تیار کرتے رہے، لیکن ہوا کچھ اور۔ ہم سب ایئرپورٹ پہنچے تو وہاں سماں ہی کچھ اور تھا۔ باقی تمام فلائٹوں کے مسافر اپنی اپنی منزل پر رواں دواں ہوتے چلے گئے اور ہم دوسرے مسافروں کے ساتھ ایک قطار میں کھڑے رہے۔
کاؤنٹر پر دوسرے لوگوں کو بحث میں الجھتے گرم ہوتے دیکھتے رہے۔ یاخدا یہ ماجرا کیا ہے۔ ایک کے بعد دوسرا، پھر تیسرا، سب اندر جانے کے بجائے پلٹتے رہے۔ اجی سنیے! کیا ہوا؟ منع کر رہے ہیں۔ کیوں؟ کہہ رہے ہیں کہ اسلام آباد سے تصدیق کروا کر لائیں۔ اسلام آباد سے مطلب کیا؟ اب پاسپورٹ ویزا لے کر اسلام آباد جانا پڑے گا؟ جی کہہ رہے ہیں کہ اگر اسلام آباد جا کر ویزے کی تصحیح نہیں کرائی اور یوں ہی دبئی چلے گئے تو وہاں روک لیں گے۔ ویسے بھی آج کی فلائٹ کینسل ہو گئی۔ کینسل؟ ٹھوک بجاکر پوچھا تو جواب ملا آج کی فلائٹ کینسل، کل جائے گی۔ نہایت کوفت ہوئی، بہر حال لوٹنا پڑا۔
دوسرے دن پھر پہنچ گئے تو صورت حال پہلے دن کی طرح ہی تھی۔ اف خدایا اب کیا ہو گا۔ اپنے ٹریول ایجنٹ کو فون کیا اس نے بہت معذرت کی۔ جانا ضروری تھا لہٰذا اسی وقت دوسری ایئر لائن کا ٹکٹ لیا اور اپنی منزل کی جانب چل دیے۔ جب وطن لوٹے تو سوچا کہ احتجاج لازم ہے لیکن پھر وہی پابندیاں۔ لہٰذا قلم رک گیا۔ یہ پہلا دھچکا تھا جو ہماری قومی ایئر لائن کی جانب سے ہمیں ملا تھا۔ نہایت دکھ تھا کہ ایسا کیوں ہوا کہ ہماری قومی ایئر لائن کے مسافروں کو اس قدر شک کی نگاہ سے دیکھا گیا اور جب ان ہی مسافروں نے دوسری ایئر لائنز سے سفر کیا تو وہ سب جیسے دودھ کے دھلے ہو گئے۔ ایسا تضاد یا عناد کیوں؟
جواب ملا جیسا کروگے ویسا ہی بھرگے۔ جن کو انگلی پکڑ کر چلنا یعنی اڑنا سکھایا وہ ہی ترکیبیں بنانے لگے۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی تھی۔ دوسری ہمارے اپنے دامن میں اس قدر کانٹے تھے کہ جنھوں نے سارا بدن ہی لہولہان کر دیا، ورنہ کسی کی ہمت کہ ہم پر انگلی بھی اٹھائے۔ بحیثیت پاکستانی اس قدر شرمندگی اور دکھ ہوا کہ کئی روز اس ادھیڑ بن میں گزرگئے کہ ایسا کیوں ہے؟ وقت گزرتا گیا، کارنامے کھلتے گئے، ماضی کے سنہرے اوراق دھندلا سے گئے اور ہم صرف بے چارے پاکی۔
خدا جنت نصیب کرے جنید جمشید کو کہ جن کی شہادت نے بہت سی کہانیوں کو تلخ حقیقت بناکر پوری قوم اور سرکار کے سامنے سوالیہ نشان بنا کر کھڑا کر دیا۔ آخر ہماری قوم کب تک پرانے طیارے استعمال کرتی رہے۔ چین کے تھکے ہوئے ریل کے انجن ہوں یا چھوٹے طیارے ہمارے نصیب میں ہی کیوں؟ کیا ہم اس قدر بے حیثیت، بے چارے ہیں۔ کیا ہم اپنے حصے کے ٹکٹ کے پیسے آئی ایم ایف سے قرض لے کر ادا کرتے ہیں یا کسی اور یورپی ملک سے ملنے والی بھیک سے۔ پھر ہمارے لیے ایسے تھکے ہوئے کباڑی کی دکان جیسے سجے طیارے اور ہوائی سروس کیوں؟
جواب ملتا ہے کہ کرپشن۔ صرف اور صرف کرپشن ہی اس کی ذمے دار ہے۔ آپ ایک گھر سے لے کر کسی بھی ادارے کو کسی غیر ذمے دار شخص کے سپرد کردیں، پھر آپ خود ہی اس کا حشر دیکھ لیں۔ ڈپٹی نذیر احمد کے ایک دلچسپ خاکے میں اس صورت حال کو خوب اچھی طرح بیان کیا گیا تھا، جب ایک حاسد عورت نے اپنی سگھڑ سوتن کو گھر سے نکال باہر کیا اور جب خود عملی طور پر گھر کی ذمے داریاں سنبھالیں تو اپنا گھر ہی برباد کر ڈالا اور لٹ گئی۔ بالکل اسی طرح ہماری ایک ذمے دار اور اچھی کارکردگی دکھانے والی ایئر لائن آہستہ آہستہ کرپشن کے زہر سے گلتی گئی۔
23 اکتوبر 1946ء میں کلکتہ میں اورینٹ ایئرویز کے نام سے بننے والی یہ ہوائی کمپنی پاکستان میں عملی طور پر کام کرنے لگی، لیکن دس جنوری 1955ء میں اسے نیشنلائز کر دیا گیا اور یہ پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن کہلائی۔ یہ ایشیا کی دوسری بڑی ایئر لائن تھی جس کے پاس جیٹ ایئر کرافٹ بوئنگ 707 تھا۔ اس ایئر لائن کے لندن اور پیرس جیسے مہنگے مقامات پر اپنے ہوٹلز تھے اور سو کے قریب پرواز والی یہ پراعتماد، باوقار ایئر لائن، ایئر مارشل نور خان کی سربراہی میں پھلنے پھولنے لگی۔
نور خان 1959ء میں پی آئی اے کے مینیجنگ ڈائریکٹر منتخب ہوئے تھے۔ یہ ایسی اچھی شناخت رکھنے والی فضائی کمپنی تھی کہ اس میں کام کرنے والے ملازمین کو بڑی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا اور خیال کیا جاتا تھا کہ وہ بہت پڑھے لکھے اور مہذب ہیں۔ لیکن ہمارے ملک میں کچھ ایسے نظام جو آج بھی موجود ہیں، جس نے اس ملک کے بہت سے اداروں کو تباہ و برباد کیا ہے، ناسور بن کر چپک گئے، جس نے اس قابلیت کے لیبل کو دھندلا دیا اور اس کے نام کے ساتھ قومیت کی مہر لگ گئی۔
کرپشن کا تاج ایسا نہیں کہ تعلیم یافتہ ڈگریاں ہاتھ میں تھامے بس نوکری کی راہ میں تکتے رہے اور دوسری کی ڈگریوں پر اپنے نام لکھوا کر لوگ لاکھوں روپے تنخواہوں کے بٹورتے رہے۔ اس طرح نجانے کتنے نااہل، کم عقل اور خودغرض اپنی غرض کا پیٹ بھرنے کے لیے بھرتیاں کرتے رہے۔ خسارے کا بجٹ بڑھتا رہا۔ صدائیں بلند ہوتی رہیں۔ خبر ابھری کہ ایک بڑی شخصیت اس ایئر لائن کو خریدنا چاہتی ہے، پھر صدا ابھری ہوٹلز فروخت ہورہے ہیں۔ پھر جب صدا ابھری کہ اسے پرائیویٹائز کردیا جائے گا تو کان ایسے کھڑے ہوئے اور سب مظلوم و بے چارے اپنے حقوق و بقا کے لیے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھائے چلاتے رہے۔ حکومت کو سوچنا مہنگا پڑگیا۔
دسمبر کا مہینہ شروع ہوا اور 2016ء کا ایک اور اندوہناک حادثہ ہوگیا۔ سینتالیس جانیں چلی گئیں۔ یہ جانیں جن کا وقت مقرر تھا لیکن ہم سب کے سامنے سوال چھوڑ گئیں۔ آخر کب تک، آخر کب تک ہم اپنی غرضوں کے غلام بنے رہیںگے۔ ہم سب کو بھی لوٹ کر اس کی جانب جانا ہے کہ جنھوں نے ہمیں یہاں بھیجا ہے پھر کیا ہم اپنے عمل سے مطمئن ہوکر ایک بار پھر آنکھیں بند کرکے بیٹھ جائیں۔ خدارا اب نہیں۔ اب دل کڑک کر کے سوچنا ہے۔