’’اک اوپری کُڑی‘‘
تقدیر نے ریگستان کے ایک باشندے کو پہاڑوں میں بسیرا کرنے والے سے ملا دیا ہے
ISLAMABAD:
آج میں ایک ادھورا شخص ہوں جو اپنی رفیق قلم و سفر کے بغیر یہ سطریں لکھنے کی جرات کر رہا ہوں۔ کالم کے عنوان سے لے کر اس کے اختتام تک میری رفیقہ حیات لقمہ بازی کرتی رہتی تھی جس کے بعض لقمے کالم میں رنگ بھر دیتے تھے لیکن بے خبر قارئین ان کا کریڈٹ مجھے دیا کرتے تھے۔ ان کو کیا معلوم کہ اس پردے میں کوئی اور بھی بول رہا ہے۔
میں تو اس پردے کے پیچھے سے لقمہ بازی کا اس قدر عادی ہو گیا کہ اس سے گلہ کرنے لگا کہ تم نے میری زبان 'بگاڑ' دی ہے اور اس کا ایک مستقل جواب ہوتا کہ ایک تو تمہاری زبان میں کچھ لکنت پہلے سے موجود ہے میں اس میں کیا اضافہ کر سکتی ہوں دوسرے جدید دنیا سے دور پہاڑوں میں چھپے ہوئے ایک گاؤں کا باشندہ زبان کی بات کس طرح کر سکتا ہے۔ یہی کیا کم ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح لکھنے والوں میں شمار ہو گیا ہے، آج نہ کوئی اس قسم کا لقمہ دینے والا موجود ہے اور نہ میرے پہاڑی پس منظر سے کسی کو دلچسپی ہے۔
تقدیر نے ریگستان کے ایک باشندے کو پہاڑوں میں بسیرا کرنے والے سے ملا دیا ہے یا پہاڑوں کے جم پل کو کسی طرح ریگستان کے باشندے کو اس کے ساتھ یکجا کر دیا ہے جس طرح اکثر پہاڑ کسی نہ کسی ریگستان میں اتر جاتے ہیں اور ایک نئی شکل و صورت اختیار کر لیتے ہیں اسی طرح وادی سون کے پہاڑوں کا کوئی باشندہ تقدیر کے فیصلے کے مطابق کسی ریگستان میں اتر جاتا ہے اور ایک نئی شکل و صورت اور زندگی اختیار کر لیتا ہے اور وہ اخبار نویس اور نام نہاد دانشور بن جاتا ہے اور اس طرح زمینی تبدیلی کے ساتھ اس میں ایک ذہنی تبدیلی بھی آ جاتی ہے، یوں پہاڑ اور ریگستان کے ملاپ سے جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا ایک ابتدائی اور غیرپختہ وجود میں بھی ہوں لیکن جیسا کہ عرض کیا ہے میرا وجود کٹ چکا ہے، میں نصف باقی رہ گیا ہوں اور دوسرا حصہ میری مرحومہ بیوی اپنے ساتھ لے گئی ہے۔
آج مجھے اپنے وجود کے اس دوسرے حصے کے چور کو پکڑنا اور برآمد کرنا چاہیے تھا لیکن میں مجبور ہوں اور میں سب کچھ برداشت کر کے بلکہ جھیل کر کاغذ قلم کو تھام کر بیٹھا ہوں اور تقدیر کے فیصلے کے مطابق ایک اور کالم لکھ رہا ہوں جب کہ اس کا موضوع میری برداشت سے باہر ہے لیکن قدرت کا یہی فیصلہ ہے اور ہم اس کے ہر فیصلے کے پابند۔ میں حالات کے سامنے سر جھکا کر بیٹھا ہوں اور وہ قلم چلا رہا ہوں جس کی نوک پر میرے علاوہ مرحومہ کا نام بھی لکھا ہے۔
رفعت شفیع جو رفعت حسن بن گئی، اب نہ جانے کیا ہے کہ اس کا پورا وجود لاہور کے ایک قبرستان کی مٹی میں دفن ہے اور میں قلم کے ساتھ اس کا ماتم کر رہا ہوں۔ عجیب صورت حال ہے کہ جس قلم کے ساتھ میں نے اس کی موجودگی میں لاتعداد مرثیے لکھے اور ماتم کیے آج قدرت ایک نیا تماشا دکھا رہی ہے کہ میں اس پرانے قلم کے ساتھ اس کا ماتم کر رہا ہوں اور ایک مرثیہ لکھ رہا ہوں۔ ایک ایسا مرثیہ جو میں لکھتا بھی رہوں گا اور قبرستان کی مٹی اسے محفوظ کرتی رہے گی کہ اس کی کسی کروٹ کے سامنے یہ تحریر پیش کرتی رہے گی۔
اس تحریر میں زبان و بیان کی ان غلطیوں سے محفوظ رہنے کی کوشش کر رہا ہوں جو اسے سخت ناپسند تھیں لیکن میں پھر بھی کرتا ہی رہا ہوں، یہ میری عادت تھی اور اس کی تصحیح کی کوشش لیکن دونوں ناکام رہیں مگر اب کوئی تصحیح کرے نہ کرے میں غلطی کرتا رہوں گا۔
چلیے یاد کا ایک بہانہ ہی سہی۔ یاد کرنے کو تو اس گھر کا ہر ذرہ شامل ہے کیونکہ وہ گھر کو ان اڑتے ہوئے ذروں سے محفوظ رکھنے میں لگی رہتی تھیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار تھی اور پنجابی زبان میں افسانوں کا پہلا مجموعہ اس کا تھا اور اس کی ایک افسانوی تحریر 'اک اوپری کڑی' اس کی ایک معروف کوشش تھی جو اس کا تعارف بھی بن گئی۔ جب کبھی وہ معمول سے ہٹ کر کوئی حرکت کرتی تو میں اسے کہتا کہ جب تک تم اپنے اوپر سے اپنا دیا ہوا ٹائٹل نہیں اتارو گی تو تم سے یہ 'اوپری اوپری' حرکتیں ہوتی رہیں گی۔ اس کی آخری حرکت بھی ایک اوپری حرکت تھی جو اس کے قارئین کو اور مجھے ہلا کر رکھ گئی۔
مجھے صرف ایک بات سے کچھ دھیرج ملتی ہے کہ اس نے پنجابی زبان کو جدید رنگ دیا اور اس کو زندہ رکھنے کی کوشش کی میں تو چونکہ اس کی پنجابی زبان سے متعارف نہیں تھا اس کے باوجود کہ میں بھی اس کی طرح پیدائشی پنجابی تھا لیکن پنجابی زبان کی اس کے علاوہ کوئی خدمت نہ کر سکا کہ پنجابی کی ایک بڑی لکھاری کی سرپرستی اور دلجوئی کی پوری کوشش کی اور اس کی پنجابی تحریروں کو متعارف کرایا جب کہ اس کے لیے وہ کسی سفارش کی محتاج نہیں تھی اور اس نے کبھی یہ بھی نہیں کہا کہ میں اگر کسی اخباری دفتر میں جا رہا ہوں تو وہ اپنی کوئی تحریر مجھے دے کہ میں اس کو بھی دفتر میں دے دوں، پنجابی زبان کے ناشر آتے اور اس کی کوئی تحریر لے جاتے اور اب وہ 'لوگ' اسے ہی لے گئے تقدیر کا یہی فیصلہ تھا۔