ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
اپوزیشن متحدہ نہ ہوئی تو حکومت پانچ سال پورے کرلے گی، گرینڈ اپوزیشن الائنس وقت کی ضرورت ہے
''اپوزیشن متحدہ نہ ہوئی تو حکومت پانچ سال پورے کرلے گی، گرینڈ اپوزیشن الائنس وقت کی ضرورت ہے''... ''اگر اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئیں تو عام انتخابات وقت سے پہلے ہوسکتے ہیں''... ''انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا''۔ یہ چند جملے ہم نے ایک بے حد معزز، منجھے ہوئے تجربہ کار سیاستدان کے بیان سے نقل کرنے کی جسارت کی ہے۔ اس انداز فکر سے ہمارے سیاستدانوں کا خلوص اور حب الوطنی کے ساتھ یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ آخر ہمارے سیاستدانوں کے بارے میں عوام کے خیالات اتنے منفی اور رویہ اتنا تلخ کیوں ہے۔
ان جملوں کو بغور پڑھنے، بلکہ پورے بیان سے لگتا ہے کہ حکومت کا اپنی مدت مکمل کرنا گویا خلاف آئین ہے اور حزب مخالف کا کردار محض حکومت کو وقت سے پہلے ''چلتا کرنا'' ہی قرار پایا ہے۔ حکمرانوں کی من مانی اور عوام دشمن کارکردگی سے آئینی طریقے سے روکنا نہیں۔ اس ملک میں جہاں پچاس فیصد سے اوپر افراد خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوں، کیا وہاں بار بار انتخابات جس پر کروڑوں نہیں شاید اربوں کے اخراجات آتے ہوں، کیا عیاشی کے زمرے میں نہیں آتے؟ پھر یہ بھی کہ گاڑی جس طرح چل رہی ہے اسی طرح چلتی رہی تو انتخابات ہونا نہ ہونا برابر۔ یعنی اگلے ہی جملے میں انتخابی اصلاحات کے بغیر الیکشن کا کوئی فائدہ نہ ہونے کا احساس بھی موجود ہے۔
ایسے سیاسی بیانات پر یہی کہا جاسکتا ہے (کیونکہ بلاوجہ کسی کی نیت پر شک کرنا مناسب نہیں) کہ جب موجودہ نظام میں ایسے نکات موجود ہیں کہ انتخابات صرف چہرے بدلنے کا نام ہوں۔ نظام جوں کا توں چلتا رہے تو بلاوجہ اخراجات کے بجائے جو بیٹھا ہے اس کو ہی ''لمبے عرصے'' بیٹھا رہنے دیجیے۔ ورنہ تو آپ باآسانی ایوان کے اندر رہتے ہوئے انتخابات کے نظام میں وہ تبدیلیاں لائیں جو آیندہ آنے والے حکمرانوں کو راہ راست پر رہتے ہوئے اپنے فرائض ادا کرنے پر مجبور نہیں بلکہ دل سے آمادہ کریں تو ملک و قوم کا کوئی فائدہ بھی ہو۔ جب حزب اختلاف محض کرسی اقتدار پر نظر رکھے اور اس کے لیے اور اس خواہش کی تکمیل کے لیے منفی انداز سیاست اختیار کرے۔
ایک مخالف لیڈر چار سال میں صرف 16 بار ایوان میں تشریف لاتے ہیں اور جب آتے ہیں گرج برس کر چلے جاتے ہیں۔ عوام نے آپ کو اپنے ووٹ سے ایوان میں بھیجا ہے تو کچھ ان کے لیے بھی آواز اٹھائیں۔ پورے ملک کے لیے نہ سہی اپنے حلقے کے لیے ہی ''کچھ خاص'' کرکے دکھا دیجیے تاکہ لوگ کہیں کہ بھئی صلاحیت تو بہت ہے بغیر حکومتی تعاون کے جہاں تک ہوسکا اپنے ہی ذرائع سے کم ازکم اپنے ووٹرز کو تو مایوس نہیں کیا۔ اگر حکومت مخالف ارکنان ایوان کو بھی فنڈز دے اور تعاون کرے تو یہ سب اپنے اپنے حلقوں میں بنیادی ضروریات اور ترقیاتی کاموں پر بھرپور توجہ دیتے۔
یوں حکمرانوں کی جانبداری یعنی صرف اپنوں کو نوازنے اور عوامی مسائل سے بے توجہی برتنے کے رجحان کا خود ان کے چمچوں کو بھی واضح طور پر اندازہ ہوجاتا۔ مگر وہ کام جو حکومت مخالفین کے کرنے کے ہیں ان کے بجائے ہر وقت کرسی اقتدار کے پائے ہلانے بلکہ توڑنے کی کوشش کرنے سے حکمرانوں کو بھی یہ کہنے کا موقع ملتا ہے کہ یہ ریلیاں، جلسے، جلوس، دھرنے، جلاؤ گھیراؤ اور ملکی املاک کو نقصان پہنچانے سے نہ ہمیں کام کرنے دیا جاتا ہے اور یوں مہنگائی اور بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا ہے، ہڑتالوں اور دھرنوں کے باعث دیہاڑی کمانے والوں کے گھر میں فاقہ اور املاک کے نقصان سے بے روزگاری میں اضافہ ہمارے مخالفین کے باعث ہو رہا ہے۔ ویسے یہ کوئی غلط بات بھی نہیں۔
آپ حکومت کو ہر وقت احتساب کی کسوٹی پر کسیے مگر بے چارے غریب عوام کو تو معاف کردیجیے۔ اس صورتحال میں حکمرانوں کو ظالم، بدعنوان اور عوام دشمن ثابت کرنے کی فکر میں آپ خود بھی عوام سے کوئی بھلائی نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔
جہاں تک مخالفین کے گرینڈ الائنس (عظیم اتحاد) کی بات ہے اول تو تمام جماعتیں اپنے اپنے مفاد کی غلام ہیں البتہ ایک نکاتی منصوبے یعنی حکومت کو وقت سے پہلے ختم کرنے پر اگر متفق ہو بھی جائیں تو یہ سانجھے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پر پھوٹتی ہے یا پھر ملک کے لیے کبھی بھی نیک شگون ثابت نہیں ہوتا۔ بلکہ ایسے عظیم اتحادوں نے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہی پہنچایا ہے۔
ایک عظیم اتحاد نے ملک کو دولخت کیا اور دوسرے اتحاد کے نو ستارے ایسے جگمگائے کہ ملک میں جہالت، تعصب، انتہا پسندی، بدعنوانی، اقربا پروری اور بے مروتی کا ایسا اندھیرا چھایا کہ جو چھٹنے کا نام نہیں لے رہا۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ اتحاد ملک و قوم کی ترقی، خودمختاری، آزادی و استحکام کے لیے بنا ہی نہ تھا یہ تو مقبول لیڈر کے مقابلے میں ووٹ نہ لے سکنے کے باعث افراتفری اور ہنگاموں کے ذریعے اقتدار سے محروم کرنے کے لیے قائم ہوا تھا۔ جب نیت میں کھوٹ ہو تو کوئی بھی تحریک ملک کو فائدہ پہنچانے کے بجائے غیر مستحکم ہی کرتی ہے۔ لہٰذا بھٹو مخالف تحریک سے الٹی گنتی شروع ہوگئی۔
دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی اور ہم آج تک اپنی ترجیحات ہی طے نہ کرسکے۔ ہماری یاد کے ابتدائی دور میں قائم ہونے والے اس اتحاد کے نتیجے میں نہ صرف ملک میں جمہوریت کا انتقال پرملال ہوا بلکہ ہم ایک عظیم عالمی سطح پر مقبول لیڈر سے محروم ہوگئے۔ بھٹو کا عدالتی قتل ہمارا وہ عظیم نقصان ہے کہ ہم اس کو اب تک پورا نہ کرسکے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی سیاسی قتل ہوئے ہیں مگر وہ لاشوں پر سیاست کرنے کے بجائے اپنے بڑے سے بڑے نقصان کا ازالہ اپنی ہمت، جہد مسلسل اور پھر ملک و قوم کے بہترین مستقبل کے جذبے سے کرلیتے ہیں حادثات ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتے۔ ہمارے یہاں جس چیز کی کمی ہے وہ ہے ملک کے لیے مثبت انداز فکر کی۔
یہاں سیاسی پارٹیاں ملکی خدمت، ترقی و خوشحالی کے لیے نہیں بلکہ صرف کرسی اقتدار پر براجمان ہونے اور پھر دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹنے کے لیے بنتی ہیں۔ جن کو ایوان میں دو چار نشستیں بھی مل جاتی ہیں وہ اقتدار میں آکر بہت کچھ کرنے کے بڑے بڑے دعوے کرنا شروع کردیتی ہیں۔ یہ جو عظیم اتحاد حکومت گزارنے کے لیے تشکیل دیے جاتے ہیں پس پردہ ان کا وہ مقصد نہیں ہوتا جو نظر آتا ہے۔ اگر واقعی نااہل حکمرانوں کو ہٹانا ہی اصل مقصد ہوتا تو ہر بار وہی چہرے باری باری برسر اقتدار کیوں آتے؟
یہ سب کچھ اس لیے یاد دلایا جا رہا ہے کہ ہم ایسے عظیم اتحادوں سے اس قدر خوفزدہ ہوچکے ہیں کہ ان کا ذکر ہی حرکت قلب کو بے ترتیب کردیتا ہے۔ اس قسم کے اتحاد نے ملک کو دولخت اور پھر ملکی تاریخ کے بدترین اتحاد (نو ستاروں والے) نے بھٹو کو تخت دار تک پہنچا کر جمہوریت کا گلا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے گھونٹ دیا۔ کہنے کو تو ملک میں آج بھی جمہوریت ہے اور اس جمہوریت کو بچانے کی جدوجہد بھی ہو رہی ہے۔ مگر باشعور عوام جانتے ہیں کہ ملک میں دور دور جمہوریت نہیں۔ البتہ آپ اس کو جمہوری آمریت، شخصی حکومت یا پھر شخصی بادشاہت کہہ سکتے ہیں۔ اس پس منظر میں جو بھی اتحاد قائم ہوگا، اس کا انجام آپ کو آغاز میں ہی نظر آجائے گا۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔