اے ڈی سی ڈنر مشاعرہ
واحد شبلی نیویارک اور نیوجرسی میں بحیثیت ادبی اور سماجی شخصیت کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں
واحد شبلی نیویارک اور نیوجرسی میں بحیثیت ادبی اور سماجی شخصیت کی حیثیت سے اپنی ایک شناخت رکھتے ہیں۔ چند دن پہلے انھوں نے مجھے فون کرکے بتایا کہ نیوجرسی میں گزشتہ دنوں مسلم کمیونٹی کی جانب سے ایک ایڈلٹ ڈے کیئر سینٹر کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ نیویارک اور نیوجرسی دونوں ریاستوں میں مسلم کمیونٹی کی طرف سے پہلا ادارہ ہے اور اس کی پذیرائی کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا جا رہا ہے، جس میں علم و ادب کی مقتدر شخصیات بھی شریک ہوں گی اور اس موقع پر ایک چھوٹے پیمانے پر مشاعرہ بھی منعقد کیا جائے گا، جس میں آپ کی شرکت کے ہم متمنی ہیں۔
میں نے بھی بڑی خوشی سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا اور سب سے زیادہ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ اب مسلم کمیونٹی کو بھی علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ اپنے سینئر سٹیزن کی خدمات کا خیال آ رہا ہے۔ اس سلسلے میں ڈنر کے ساتھ ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس مشاعرے کا حال تو میں بعد میں بیان کروں گا پہلے میں یہ بات بتا دوں کہ امریکا کی تمام ریاستوں میں عمر رسیدہ افراد کی فلاح و بہبود کے لیے نرسنگ ہومز کا ایک بہت ہی فعال سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ان نرسنگ ہومز میں ہر مذہب، ہر قوم اور ہر زبان سے تعلق رکھنے والے عمر رسیدہ افراد کو نہ صرف رہائش کی تمام سہولیات موجود ہیں بلکہ ان کی غذا، ان کی صحت کا پابندی کے ساتھ خیال رکھا جا رہا ہے اور یہ نرسنگ ہومز زیادہ تر یہودی لابی کے زیر انتظام ہیں، جب کہ زیادہ تر اسپتالوں کا انتظام بھی یہی لابی کرتی ہے۔
یہ تمام اسپتال اور نرسنگ ہومز تمام سہولیات اور جدید ترین آلات کے ساتھ علاج مہیا کرتے ہیں جب کہ نرسنگ ہوم میں بزرگ افراد کو مفت رہائش کے ساتھ علاج کی تمام سہولتیں بھی میسر ہوتی ہیں، جو ہمارے معاشرے اور ملک میں خواب و خیال ہیں۔ یہودی تنظیموں کے بعد تھوڑا بہت کام ہندوستانی لابی نے بھی کیا ہے اور چند ریاستوں میں بزرگ افراد کے لیے نرسنگ ہوم قائم کیے ہیں، جہاں ہر طرح کی سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ یہاں کے اسپتالوں میں کسی بھی چھوٹے یا بڑے آپریشن کے لیے کسی بھی عام شہری سے کسی قسم کے معاوضے کے لیے منہ نہیں کھولے جاتے۔ پہلے مریض کو ایمرجنسی کے ذریعے آپریشن تھیٹر میں پہنچایا جاتا ہے، مریض کا آپریشن کیا جاتا ہے اور جب مریض صحت یاب ہو کر اپنے گھر چلا جاتا ہے تو دو ڈھائی ماہ کے بعد اسپتال کا بل گھر بھیجا جاتا ہے۔
اگر متاثرہ شخص بل ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا اور اس کی آمدنی بہت کم ہوتی ہے تو وہ اپنے جاب یا دفتر سے اپنی تنخواہ کے دو چیک بل کے ساتھ اٹیچ کرکے بل کو واپس میل کر دیتا ہے اور پھر معمولی سی تصدیق کے بعد وہ بل جو ہزاروں ڈالروں میں ہوتا ہے کسی ٹرسٹ ادارے کو منتقل کر دیا جاتا ہے اور مریض علاج کے بعد کسی بھی قسم کی مصیبت اور دشواری سے دوچار نہیں ہوتا ہے۔ مغرب کی اس اچھی بات کو ہمارے اسلامی ملک میں کیوں نہیں اپنایا جا سکتا۔ اس لیے کہ یہاں بڑے لوگ اپنے چند افراد خاندان کی خوشیوں کے لیے اربوں روپوں کی کرپشن کرتے ہیں۔ ان کے گھروں میں کروڑوں روپے تجوریوں میں اور کروڑوں روپے منی لانڈرنگ کے ذریعے باہر کے ملکوں کے بینکوں میں ہوتے ہیں۔
اور اس طرح چند خودغرض افراد کی عیاشیوں کی وجہ سے ساری قوم بربادی کی دلدل میں دھنسی ہوئی ہے نہ کسی کو بہتر خوراک میسر ہے نہ علاج اور نہ ہی زندگی کی سہولتیں ۔ اسی طرح ہمارے ملک اور معاشرے میں بوڑھے افراد جب عمر کے اس حصے میں آتے ہیں جہاں انھیں اپنے بچوں کی طرف سے محبت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے، یہاں بزرگوں کے ساتھ اس کے بالکل برعکس سلوک کیا جاتا ہے۔ بے شمار گھرانوں میں جب باپ بوڑھا ہوا یا بیمار ہوا تو اس کی چارپائی کمرے سے صحن میں پہنچائی جاتی ہے۔ پھر اس کی کھانسی کی آواز زیادہ آنے لگتی ہے تو وہی چارپائی دروازے سے باہر کر دی جاتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ ضعیف والدین کو حالات کے رحم و کرم پر اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے کہ پھر ان کی طرف پلٹ کر بھی نہیں دیکھا جاتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔
اب میں پھر ایڈلٹ کیئر سینٹر کی طرف آتا ہوں، جو مسلم کمیونٹی کی خدمت کے لیے شاہ نواز گروپ آف کمپنیز کے مالک نادر خان نے نیو جرسی میں قائم کیا ہے جس کے کرتا دھرتا نادر خان کے بعد واحد شبلی ہیں، جو ایک سوشل ورکر ہونے کے ساتھ ساتھ شعر و ادب کے بھی بڑے دلدادہ اور خود بھی ایک اچھے شاعر ہیں۔ اے ڈی سی ڈنر مشاعرے کی تقریب کا آغاز کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ اس ادارے میں لوگ اب بڑی خوشی سے آ رہے ہیں۔ انھیں یہاں اپنی زبان اور اپنا ماحول ملتا ہے اور یوں لگتا ہے کہ یہ لوگ ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔
یہاں کے بزرگ افراد ایک ساتھ ناشتہ کرتے ہیں، ایک ساتھ شام کی چائے پیتے ہیں۔ انگریزی اخبار کے علاوہ اردو کے اخبارات بھی پڑھتے ہیں اور حالات حاضرہ پر آپس میں تبصرہ بھی کرتے ہیں، ان کے لیے اِن ڈور گیمز کا بھی اچھا انتظام ہے۔ ابھی یہ ابتدا ہے جیسے جیسے وقت گزرے گا اس ادارے کی افادیت بڑھتی چلی جائے گی۔ واحد شبلی نے آج کے دن کو ایک یادگار دن قرار دیتے ہوئے مشاعرے کا آغاز کرتے ہوئے اپنا ایک شعر بھی سنایا۔
نہ کوئی لاغر شکستہ نہ کوئی مجبور ہے
ہم وہ بوڑھے ہیں بڑھاپا جن سے کوسوں دور ہے
واحد شبلی کے بعد نیویارک اور نیوجرسی سے شایع ہونے والے اردو اخبار ''ایشیا ٹریبیون'' کے ایڈیٹر عارف افضال عثمانی نے نظامت کے فرائض سنبھالتے ہوئے مائیک ہاتھ میں لیا اور شاعر آفتاب قمر زیدی کو دعوت کلام دی، سامعین میں سے ایک صاحب نے پوچھا آپ کے نام میں آفتاب بھی ہے اور قمر بھی، اصل میں آپ کی شناخت کیا ہے۔ قمر زیدی بولے دن میں آفتاب ہوتا ہوں، اور رات کو قمر بن جاتا ہوں۔ یہ سن کر ساری محفل زعفران زار ہو جاتی ہے۔ آفتاب قمر زیدی کے چند اشعار قارئین کی نذر ہیں:
زندگی کھیل رہی تھی مری تقدیر کے ساتھ
وقت نے جینا سکھایا مجھے توقیر کے ساتھ
وہ جو صدیوں سے ہے منسوب مرے پرکھوں سے
آج پھر لایا گیا میں اسی زنجیر کے ساتھ
مقامی شاعر جمیل عثمان کو دعوت کلام دی۔ ان کے منتخب اشعار نذرقارئین ہیں:
ابھی تو زلف کی کالی گھٹائیں چھائی ہیں
ابھی تو بزم میں مینا بدست ساقی ہے
ابھی سے کیوں ہے نمود سحر کا ہنگامہ
ابھی تو رات کا پچھلا پہر بھی باقی ہے
جمیل عثمان کے بعد اس محفل مشاعرہ کی واحد خاتون شاعرہ زریں یاسمین نے اپنا کلام ترنم سے سنایا۔ یہ نیویارک سے تشریف لائی تھیں۔
کس سے کہیے حال دل سوز نہاں حیرت میں ہے
وہ زباں بندی ہے کہ میری زباں حیرت میں ہے
حرف کی سچائیاں ہیں ہاتھ باندھے منتظر
لکھ رہا ہے یہ قلم طرزِ بیاں حیرت میں ہے
اور پھر راقم نے بھی اس مشاعرے میں اپنی چند غزلیں سنائیں۔ ایک غزل کے چند اشعار نذر قارئین ہیں:
کسی بھی کام کا آغاز ہی تو مشکل ہے
جو ہو بلند وہ آواز ہی تو مشکل ہے
جو زخم زخم دلوں کے لیے بنے مرہم
ملے کسی کو یہ اعزاز ہی تو مشکل ہے
جو دل کے ساتھ رہے دل کے ڈوب جانے تک
وہ ایک ہمدم و ہمراز ہی تو مشکل ہے
اس غزل کو جو حسب حال بھی تھی، سب نے بہت سراہا اور اس طرح اے ڈی سی ڈنر مشاعرہ بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔