سارے شہر کو ویران کرگیا
پتلی تماشے کی روایت صدیوں پرانی ہے جسے گاؤں گوٹھوں ہی میں نہیں بلکہ چھوٹے بڑے شہروں میں بھی بڑی مقبولیت حاصل تھی۔
فیضان پیرزادہ کے اچانک انتقال کی خبر ملی تو گویا سکتہ سا طاری ہوگیا اور منہ سے بے اختیار نکلا کہ
کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور
''میرا دل ڈوب رہا ہے''۔ یہ تھے ان کے منہ سے نکلے ہوئے آخری الفاظ جس کے بعد بیماری دل نے کام تمام کردیا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بچانے کے لیے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر ''موت سے کس کو رستگاری ہے'' نظیر اکبر آبادی نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ ''قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ'' ۔ موت حادثاتی ہو یا غیر حادثاتی، اسے تو صرف ایک بہانہ درکار ہوتا ہے۔ ناقابل تردیدحقیقت یہ ہے کہ موت سے کسی کو مفر نہیں۔
دارا رہا' نہ جم' نہ سکندر سا بادشاہ
تخت زمیں پہ سیکڑوں آئے' چلے گئے
موت کسی کے رتبے اور منصب کی پرواہ نہیں کرتی۔ اسے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ اس کا شکار بچہ ہے، جوان ہے یا بوڑھا۔ یہ شاہ و گدا کی بھی تمیز نہیں کرتی۔ اس حوالے سے بھگت کبیرؔ نے کیا خوب کہا ہے:
آئے ہیں سو جائیں گے راجا' رنگ' فیکر
اک سنگھاسن چڑھ چلے' اک بندھ جات جنجیر
تھامس ہارڈی نے یہی بات اپنے انداز میں ان الفاظ میں کہہ کر گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ "Paths of glory lead to the grave" ۔ گذشتہ دنوں ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت رہی۔ بڑی بڑی دیوقامت شخصیات ہم سے بچھڑ گئیں۔ ہندوستان میں آئی۔کے گجرال اور پنڈت روی شنکر اور ادھر پاکستان میں اسرار احمد، شفقت تنویر مرزا، ایس۔ ایم۔ مسعود، ایم۔ اے ۔ ماجد اور فیضان پیرزادہ۔ یہ ایک حسین کہکشاں تھی جس کا ہر ستارہ اپنی ایک الگ آب و تاب رکھتا تھا۔ مگر فیضان پیرزادہ تو ایک ایسے عظیم گھرانے کے چشم و چراغ تھے کہ جس کے بارے میں بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ''ایں خانہ ہمہ آفتاب است''۔
ایک بہت پرانی کہاوت ہے جو ہم اپنے بڑوں کے منہ سے مدت دراز سے سنتے چلے آرہے ہیں ''باپ پر پوت پتا پر گھوڑا' بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا''۔ مطلب یہ کہ بیٹے پر باپ کے اثرات ضرور مرتب ہوتے ہیں، خواہ یہ اثرات کم ہوں یا زیادہ۔ فیضان پیرزادہ پر جنھیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے، یہ کہاوت اوروں کی بہ نسبت زیادہ صادق آتی ہے۔ انھیں اپنے نابغہ روزگار والد بزرگوار سے جو بے بہا سرمایہ فن کی صورت میں ورثے میں ملا تھا اس میں انھوں نے بے پناہ اضافہ کرکے اپنے باپ کے نام کو مزید روشن کردیا۔
جمعہ 21 دسمبر کو فیضان پیرزادہ صرف 54 سال کی عمر میں اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ بھلا یہ بھی کوئی جانے کی عمر تھی؟ مگر بہ قول میر''ہستی اپنی حباب کی سی ہے''۔ ان کی وفات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح سے ملک اور بیرون ملک پھیل گئی اور زندہ دلوں کے شہر لاہور پر جو ہمیں بھی اپنی دلی کی طرح سے دل و جان سے پیارا ہے ایک گہری اداسی کی دھند چھا گئی۔
اک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا
جمعہ کی آخر شب فیضان پیرزادہ کا دل نہیں بلکہ حقیقتاً فن کی دنیا کا گویا ایک آفتاب ڈوب گیا اور اس کے ساتھ صرف ان کے اہل خاندان اور عزیزان و احباب ہی نہیں بلکہ ان کے بے شمار پرستار اور چاہنے والے بھی رنج و الم کے اتھاہ سمندر میں ڈوب گئے۔ فیضان جیسے نابغہ روزگار روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ وہ ایک ہمہ صفت شخصیت اور ایک کثیرالجہت فنکار تھے۔ انھوں نے 4 اکتوبر 1958 کو ملک میں ایوب خان کے مارشل لاء سے ذرا دیر قبل تاریخ و ثقافت کے عظیم مرکز لاہور میں آنکھ کھولی اور 21 دسمبر 2012 کو جمعہ کے مبارک دن اسی شہر میں ابدی نیند سوگئے۔
رات ہوا بہت چلی' پھر مجھے نیند آگئی
انھوں نے لاہور کے مشہور و معروف ادارے نیشنل کالج آف آرٹس سے فنی تعلیم حاصل کی جس کی حیثیت ہمارے نزدیک محض رسمی تھی کیونکہ ان جیسے فنکار پیدائشی فنکار ہوا کرتے ہیں جو کسی ڈگری اور رسمی اسناد کے محتاج نہیں ہوتے۔ ایم۔ ایف حسین اور صادقین نے کون سے ادارے سے مصوری اور خطاطی کی سند حاصل کی تھی؟
فیضان ایک صاحب کمال اور بے مثال فنکار تھے جو مختلف جہتوں کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ انھوں نے محض اداکاری کے شعبے ہی میں نہیں بلکہ پتلی تماشے کے میدان میں بھی اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور دنیا بھر میں اپنی فنکارانہ عظمت کا لوہا منوایا۔ وہ رفیع پیر تھیٹر کی ورکشاپ کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔ اس حوالے سے انھوں نے 90 کی دہائی میں کئی انٹرنیشنل تھیٹر فیسٹیولز کا ڈول ڈالا اور 1992 میں نہایت کامیابی کے ساتھ پہلے بین الاقوامی پرفارمنگ آرٹس فیسٹیول کا انعقاد کیا۔ انھوں نے ہزاروں کی تعداد میں موسیقی، رقص، پتلی تماشے اور تھیٹر سے تعلق رکھنے والے غیرملکی فنکاروں کو پاکستان بلوایا اور روشناس کرایا۔
بچوں سے فیضان کو خصوصی انسیت تھی۔ انھوں نے بچوں کے لیے برسوں تک بے شمار پروگراموں کی تیاری میں اپنا قیمتی وقت اور ٹیلنٹ صرف کیا جس میں بچوں کی مصوری کے میلوں اور نمائشوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے چائلڈ ڈویلپمنٹ کے موضوع پر بچوں کی ورکشاپس بھی منعقد کرائیں۔ ''سم سم ہمارا'' بھی رفیع پیر تھیٹر پروجیکٹ کا ہی ایک حصہ تھا جو بوجوہ جاری نہ رہ سکا۔
جدید دور کے ایک Expressinoist مصور کی حیثیت سے بھی فیضان کا نام ہمیشہ روشن اور زندہ رہے گا۔ انھوں نے امریکا، برطانیہ، جرمنی اور فرانس سمیت دنیا کے کئی ملکوں میں 45 انفرادی نمائشوں کا بھی اہتمام کیا اور بین الاقوامی سطح پر اپنے شہ پاروں اور شاہکاروں کی تخلیق کے لیے زبردست خراج تحسین وصول کیا۔ امریکا میں قیام کے دوران انھوں نے واشنگٹن میں 17 ایوارڈ جیتے اور کینیڈی سینیٹر کے لیے اپنی دو پینٹنگز کا گراں قدر عطیہ بھی دیا جس کا مقصد معذور بچوں کی امداد کے لیے مطلوبہ رقم کا بندوبست کرنا تھا۔ سچ پوچھیے تو ان کی زندگی فن اور فنکاروں کی خدمت اور حوصلہ افزائی کے لیے وقف تھی۔ اپنے انتقال سے قبل وہ ایک بین الاقوامی ڈانس فیسٹیول کے انعقاد پر کام کر رہے تھے جو آئندہ فروری 2013 میں ہونے والا تھا۔ انھیں ڈریس ڈیزائننگ کا بھی بڑا شوق تھا اور اپنی نوجوانی کے دور میں وہ اس شعبے میں بھی بہت سرگرم رہے تھے۔ لوک فنکاروں کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے اور مقبول بنانے میں بھی ان کا بہت بڑا ہاتھ تھا۔
پتلی تماشہ فیضان کا سب سے بڑا میدان تھا جہاں انھوں نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے سب سے زیادہ جوہر دکھائے۔ سچ پوچھیے تو یہ دنیا ہی ایک پتلی تماشہ ہے جہاں حضرت انسان کی اپنی حیثیت بھی عملاً ایک کٹھ پتلی کی سی ہے جس کی ڈور خالق کائنات کے ہاتھوں میں ہے گویا:
تقدیر کے ہاتھوں میں کھلونا ہے آدمی
بے چارے چھوٹے ممالک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والی محض کٹھ پتلیاں ہی تو ہیں۔ پتلی تماشے کی روایت صدیوں پرانی ہے جسے گاؤں گوٹھوں ہی میں نہیں بلکہ چھوٹے بڑے شہروں میں بھی بڑی مقبولیت حاصل تھی۔ عموماً یہ تماشہ رات کے وقت ہوا کرتا تھا اور سب چھوٹے بڑے، خواتین اور مرد اسے یکساں دلچسپی سے دیکھا کرتے تھے۔ ہمیں اپنے بچپن کے زمانے کے دلچسپ پتلی تماشے آج بھی یاد آتے ہیں۔ عظیم انگریزی شاعر جان کیٹس نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ "A thing of beauty is a joy for ever"
فیضان کو پتلی تماشے سے بڑا گہرا اور خاص شغف تھا اور وہ اس کے ساتھ جنون اور دیوانگی کی حد تک وابستہ رہے۔ انھوں نے 2,500 سے زیادہ کٹھ پتلیاں تخلیق کیں اور 1979 میں بڑے زبردست تماشے کیے۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے بیورو کریسی اور ایڈمنسٹریشن کی جانب سے حائل کی گئی بے شمار اور پے در پے رکاوٹوں کے باوجود لاہور میں پتلیوں کا ایک انٹرنیشنل میوزیم بھی قائم کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے بے شمار پتلی گروں کو تربیت بھی دلائی اور ورکشاپوں کا اہتمام بھی کیا۔ ان کی کاوشوں کا یہ سلسلہ گاؤں دیہات تک دراز تھا۔ پتلی گری اور پتلی تماشے کے شعبے میں ان کی نمایاں خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ امتیاز کے صدارتی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیا گیا۔ ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء شاید کبھی پر نہ ہوسکے گا۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
عجب اتفاق ہے کہ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق قادر الکلام شاعر بے بدل ابوالاثر حفیظ جالندھری بھی 21 دسمبر کو ہی لاہور میں آسودہ خاک ہوئے، ہائے! ہائے!
زمین کھا گئی آسماں کیسے کیسے
افسوس کہ ہمارے میڈیا کو ان کے شایان شان یاد منانے کی بھی توفیق نہ ہوئی۔