محترمہ کی شہادت پر

آج محترمہ زندہ ہوتیں تو عالمی طاقتوں کو ملک کے خلاف کھل کر کھیل کھیلنے کی جرأت نہ ہوتی۔


MJ Gohar December 27, 2012
[email protected]

گزشتہ روز پورے ملک میں اسلامی دنیا اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم اور پی پی پی کی شریک چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی پانچویں برسی عقیدت واحترام کے ساتھ منائی گئی ۔ صرف تین ماہ بعد پیپلزپارٹی کی اتحادی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ آئندہ سال عام انتخابات کے حوالے سے محترمہ شہید کے ہونہار فرزند بلاول بھٹو زرداری متوقع طور پر آج میدان سیاست میں باضابطہ قدم رکھنے اور الیکشن مہم کے آغاز کا اعلان کریں گے۔ اپنی والدہ شہید بی بی کے مشن کی تکمیل ہی سیاست میں ان کا مقصد حیات ہے۔

بلاول بھٹو زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ ملک اور قوم کی خدمت ہی پیپلز پارٹی کا بنیادی منشور ہے جیساکہ بی بی شہید نے پارٹی منشور کے اختتامیے میں لکھا تھا کہ ''پاکستان پیپلز پارٹی عوام سے مقدس وعدہ کرتی ہے کہ وہ قوم کی امن اور خوشحالی کی جانب رہنمائی کرے گی، پارٹی گزرے ہوئے تمام ادوار کے مقابلے میں کہیں زیادہ روشن مستقبل کی تعمیر کرے گی اور ایک وفاقی، جمہوری، مبنی بر مساوات پاکستان کی تعمیر کے لیے اپنے اولوالعزم قائدین قائد اعظم اور قائد عوام شہید بھٹو کے نقش قدم پر چلے گی، پی پی پی سمجھتی ہے کہ پاکستان کی ترقی کا دارومدار روزگار کے مواقعے، تعلیم، توانائی، ماحولیات اور مساوات پر ہے۔ خیبر سے کراچی تک سکندر اعظم کے تسخیرکردہ بلند پہاڑوں سے لے کر سندھ کے ان صحراؤں تک جہاں محمد بن قاسم اسلام کا پیغام لے کر پہنچے تھے۔

پاکستان اور قائد عوام کے سہ رنگے جھنڈے تلے ایک قوم، ایک لیڈر، ایک مشن، ایک پروگرام، ایک منزل اور ہمارے عظیم عام کی خواہشات، امنگوں، امیدوں اورآرزوؤں کی ترجمانی کرنے والی ایک آواز ہوگی۔'' بلاول بھٹو زرداری بخوبی جانتے ہیں کہ پیپلز پارٹی ملک کے کروڑوں غریب، مفلوک الحال، پسماندہ طبقے کی آواز سے مزدوروں، کسانوں، طالب علموں اور عام آدمی کے مسائل سے آگاہ اور ان کے جذبوں کی ترجمان ہے اور عوام کو بڑی توقعات ہے کہ بلاول بھٹو اپنے نانا اور والدہ کے مشن کو لے کر آگے بڑھیں گے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے موقعے پر ہر سال چاروں صوبوں سے ہزاروں کی تعداد میں کارکنوں کا اجتماع اور فاتحہ خوانی اس بات کا ثبوت ہے کہ ''بی بی آج بھی زندہ ہے۔'' دسمبر کے سرد موسم کی سختیوں کے باوجود بی بی سے محبت و عقیدت رکھنے والوں کا جم غفیر اس امر کا گواہ ہے کہ پاکستان کی سیاست میں ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے وطن سے محبت، جمہوریت کی بقاء، آمریت کے خاتمے، عوام کے حقوق کے تحفظ اور ملکی سالمیت اورعالمی برادری میں وطن کا نام روشن کرنے کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جو لازوال داستان رقم کی ہے، اسے چاروں صوبوں کے عوام نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد ان کی سیاسی وراثت کا پرچم بی بی شہید کے ہاتھ میں آیا تو محترمہ نے والد کی جدائی کے غم کو جمہوری و عوامی طاقت میں بدلتے ہوئے میدان سیاست میں قدم رکھا۔ بی بی شہید کا سیاسی سفر ابتداء سے اختتام تک انتہائی کٹھن، پریشان کن، سخت مشکلات، کڑی آزمائشوں، اندوہناک حوادث اور مصائب و آلام سے عبارت ہے۔ شہید والد بھٹو کے سیاسی ورثے کی حفاظت، پارٹی رہنماؤں وکارکنوں کو مشکل حالات میں منظم و متحد رکھنے، آمریت کے خاتمے، جمہوری بحالی کی جدوجہد کرنے،ملک کو ایک مستحکم، مضبوط و باوقار ریاست بنانے اور عوام الناس کو بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے بی بی شہید نے طویل اور صبر آزما مراحل طے کیے۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ بھٹو خاندان کے علاوہ ملک کے کسی اور سیاسی خانوادے نے پاکستان، جمہوریت اور عوام کی خاطر اس قدر دکھ، تکلیفیں اور مسائل نہیں جھیلے اور نہ ہی اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے کر تاریخ ساز مثال قائم کی۔ یہ اعزاز صرف بھٹو خاندان کو حاصل ہے، جس کا اعتراف بھٹو خاندان کے مخالفین بھی برملا کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو ملک کے چاروں صوبوں کے عوام میں مقبولیت حاصل ہے اسی حوالے سے بی بی شہید کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا جاتا ہے۔پیپلز پارٹی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جس کے کارکن اور رہنما بھٹو ازم کے پرستار جیلیں کاٹنے، کوڑے کھانے، خودسوزیاں کرنے، بھٹو کے سیاسی وژن اور جمہوریت کی حفاظت کرنے اور صعوبتیں جھیلنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔ خود صدر آصف علی زرداری نے 11 سال جیل کاٹی اور پاکستان کے نیلسن منڈیلا کہلائے، کارکنوں و رہنماؤں کی یہی قربانیاں ہی پی پی پی کا اصل سرمایہ اور لازوال ورثہ ہیں جو پاکستان کی کسی دوسری سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس لیے کہ پاکستان میں کوئی دوسرا بھٹو نہیں ہے، کوئی دوسری بے نظیر بھٹو نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیاسی پارٹی کے پاس جیلیں کاٹنے اور کوڑے کھانے والے جیالے کارکنوں کا ہراول دستہ ہے۔

محترمہ کی شہادت قومی و عالمی حالات کے تناظر میں ایک غیر معمولی سانحہ تھا جس کے پس پردہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور ملک میں انتشار و افراتفری پیدا کرنے کی عالمی سازش کار فرما تھی، محترمہ کی شہادت کو قومی و عالمی مبصرین و تجزیہ نگاروں نے ایک سوچے سمجھے عالمی منصوبے کا حصہ قرار دیا ہے جس کا مقصد پاکستان کے حصے بخرے کرنا ہے۔ آپ عالمی اخبارات، میگزین، انٹیلی جنس رپورٹوں، تجزیوں اور تبصروں کا مطالعہ کریں تو بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی کہ محترمہ عالمی منصوبہ سازوں کے راستے میں ایک کوہ گراں تھیں اور ان کی جرأت مندانہ قیادت کی موجودگی میں پاکستان کو نقصان پہنچانا ممکن نہ تھا۔

آج محترمہ زندہ ہوتیں تو عالمی طاقتوں کو ملک کے خلاف کھل کر کھیل کھیلنے کی جرأت نہ ہوتی، محترمہ کی شہادت پر Americans War on Terrorism کے مصنف اور اوٹاوا یونیورسٹی کے پروفیسر مائیکل کوسووسکی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بے نظیر کے قتل نے ایسے حالات کو جنم دیا کہ جس کے نتیجے میں پاکستان سیاسی عدم استحکام اور اندرونی انتشار کا شکار ہوسکتا ہے۔ پروفیسر صاحب کے بقول امریکی حکومت اور انتظامیہ دیدہ و دانستہ پاکستان کو سیاسی عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں تاکہ پاکستان کے اندر وسیع تر امریکی فوجی موجودگی کو یقینی بنایا جاسکے اور 2005 میں امریکی انٹیلی جنس کونسل کی رپورٹ کے مطابق ایجنڈا یہ ہے کہ پاکستان میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کی جائے اور قومی ریاست کے تصور پر کاری ضرب لگا کر افغانستان اور پاکستان کو ایک ملک میں تبدیل کردیا جائے۔ مقام اطمینان ہے کہ یہ سازش کامیاب نہ ہوسکی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں