فیصلوں کی ماں
یہ قطعی ضروری نہیں کہ پارٹی یا گروپ جس کی حکومت ہو اس کا بنایا ہوا قانون قومی، ملکی اور عوامی مفاد میں بھی ہو
KUALA LAMPUR:
آج سے ستر سال قبل ایک عظیم ہجرت کے نتیجہ میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے آج کے دن تک ملک پر سیاست دانوں، بیورو کریٹوں اور جرنیلوں کی حکومت رہی ہے۔ سیاست دان چونکہ عوام کے نمائندہ ٹھہرے، اس لیے ان کے ادوار عوام کے کھاتے میں ڈال دیں تب بھی ان کی حکومتوں کے پس پردہ ملکی فوج ہی Major پارٹنر تھی۔
سیاست دان کچھ مدت گزرنے کے بعد اپنی بے راہرویوں اور درون پردہ ففتھ کالمسٹوں کا شکار ہو کر ہمہ وقت تیار پاک آرمی کو عنان حکومت سنبھالنے کی دعوت دیتے رہے جب کہ بیورو کریسی جن کے سروں پر سے آئینی تحفظ کا سایہ بھٹو کے دور حکومت میں ہٹا دیا گیا تھا اس نے سول اور آرمی ہر دو قسم کی حکومتوں کی غلط کاریوں میں شریک ہو جانے میں ابتدائی دنوں میں تو اپنی عافیت سمجھی لیکن پھر خوانچہ لٹتا دیکھ کر اپنے قلم اور علم کی بے حرمتی کرتے ہوئے حکمرانی کے مزے لوٹنے میں شامل ہو گئی۔
یہ بات اعلیٰ بیورو کریسی کی حد تک آج بھی درست ہے لیکن یہ تسلیم کرتے ہوئے سر شرم سے جھک جاتا ہے کہ اقتدار کی بندربانٹ ہوتے دیکھ کر عدلیہ کے بڑوں نے بھی ناقابل ستائش کردار کا مظاہرہ کر کے اپنی ساکھ کو بے حد مجروح کیا جس کی تلافی مشکل ضرور ہے لیکن چند ماہ سے سپریم کورٹ کی زیرسماعت انکوائری کے اختتام پر ممکن نظر آ رہی ہے۔
عدالتوں کا کام زیرسماعت مقدمات مروجہ قانون کے مطابق نمٹانا ہوتا ہے۔ عدالتی فیصلوں میں انصاف کا عنصر بھلے ہو نہ ہو، قانونی معاملات طے ہو جاتے ہیں اسی لیے عدالتوں کو کورٹس آف جسٹس کے بجائے کورٹس آف لاء کہا جاتا ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور پارلیمنٹیرین کی اکثریت کا جس بھی طبقے سے تعلق ہو یا وہ جس بھی شخصیت یا اتھارٹی کے زیراثر ہو، قانون سازی بھی ان ہی کی سوچ، منشا اور مفاد کے مطابق ہو گی۔
یہ قطعی ضروری نہیں کہ پارٹی یا گروپ جس کی حکومت ہو اس کا بنایا ہوا قانون قومی، ملکی اور عوامی مفاد میں بھی ہو۔ یہ محض ایک Myth ہے کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ عامتہ الناس کے دل کی دھڑکن اور عوام کی امنگوں کے ترجمان ہوتے ہیں۔ قانون سازی میں اندرون اور بیرون ملک بیٹھے سٹیک ہولڈرز کے مفادات کا ہمیشہ خیال رکھا جاتا ہے۔
کئی سال قبل وڈیروں، پیروں، افسروں، موروثی سیاست دانوں، کارخانہ داروں اور جرنیلوں نے عوام الناس کے خلاف ایسی سازش کی ابتداء کی جو نہ تو قابل دست اندازی پولیس تھی نہ خلاف شریعت۔ عوام کو غلام بنانے اور اقتدار سے مکمل طور پر محروم کرنے اور سول سوسائٹی کی ریڑھ کی ہڈی مڈل کلاس کو بھی Wipe out کرنے کی غرض سے Inter marriages کا فارمولا اپنایا گیا جس کے نتیجے میں ایک طرف تو ایوب خان دور کے 22 خاندانوں کے بعد لگ بھگ ایک سو ایسے گھرانے معرض وجود میں آگئے جو اب ایک ایسے کلب کی شکل اختیار کر چکے ہیں کہ کسی وڈیرے کو انگلی لگے تو چبھن بیورو کریٹ کو ہوتی ہے۔
کارخانہ دار سیٹھ کو چھیڑیں تو سیاست دان غضبناک ہو کر پھنکارتا ہے اور ان دونوں پر حرف آتا ہو تو جرنیل کی گرج سنائی دے جاتی ہے۔ یہ کلب یا ریکٹ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتا ہے نہ کسی خاص نظریے کا پابند ہے۔ اس کے پیش نظر صرف طاقت اور اقتدار کا حصول ہے۔ یہ نہ لیفٹسٹ ہیں نہ رائٹسٹ بلکہ یہ لیفٹ رائٹ ہیں۔ اس کلب کے سرکردہ ممبر آرمی کے دور میں اس لیے Comfortable رہتے ہیں کہ وہاں Decision making فوری اور ہاں ناں میں ہو جاتی ہے۔ چونکہ گزشتہ ستر سالوں میں فوج کو حکومت کرنے کا زیادہ موقع ملا، اب ان کو بہت سے شعبوں کی ورکنگ پر عبور حاصل ہو گیا ہے خاص طور پر ہاؤسنگ اور انڈسٹری کے پراجیکٹس میں انھوں نے سول سوسائٹی کے Entrepreneurs پر تو واضح برتری حاصل کر لی ہے۔
تجارت کے علاوہ اب جرنیلوں پر سول بیورو کریسی کی ریکروٹمنٹ، تعلیم اور تربیت کی اضافی ذمے داری آن پڑی ہے جس کی مثال یہ ہے کہ پبلک سروس کمیشن، سول سروس اکیڈمی، نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن اور پاکستان ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کالج وغیرہ کے سربراہان بھی فوج سے لیے جا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں سول ایڈمنسٹریشن کے دائرۂ کار میں فوج کا عمل دخل اور غلبہ کس طرح ممکن ہوا اور سویلین حکومتیں فوج کی حکومت اور سیاست کے سامنے کیونکر سرنگوں ہوئیں اس کے لیے All Pakistan legal decisions (PLD) کی رپورٹوں سے کافی رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ ایسا ممکن بنانے میں عدلیہ کے فیصلوں کو بڑا دخل رہا ہے اسی لیے Ongoing judicial crisis کا بغور جائزہ لینے والے تبصرہ کرتے ہیں کہ اس وقت عدالت کے زیرسماعت پرائم منسٹر آف پاکستان کی انکوائری نہیں درحقیقت یہ پاکستان کی Judiciary کا امتحان اور Trial ہے اور آئندہ چند ہفتوں میں متوقع عدالتی فیصلہ بلاشبہ فیصلوں کی ماں کہلائے گا۔