سال 2016 میں تفتیشی افسران 50 ہائی پروفائل کیسز کے ملزمان تک نہ پہنچ سکے

شعبہ انویسٹی گیشن کے افسران اپنی ’’روایتی تفتیش‘‘ کو ثبوت بنا کر عدالتوں میںپیش کرتے رہے


Sajid Rauf January 01, 2017
سندھ پولیس کی روایتی اور ناقص تفتیش کی وجہ سے براہ راست جرائم پیشہ گروہوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔ فوٹو؛ فائل

سندھ پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی، تفتیشی اصولوں اور سائنسی طریقوں کو موثر طریقے سے بروئے کار نہ لائے جانے کے سبب گزشتہ سال50سے زائد ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں پیش رفت نہ ہوسکی اور نہ ہی انویسٹی گیشن پولیس کسی ملزم تک پہنچ سکی،سندھ پولیس نے روایتی کارروائیوں کے نتیجے میں ملزمان کو گرفتار کر کے ان کے اعترافی بیانات کی روشنی میں کئی ہائی پروفائل کیسز کو حل کرکے کامیابی کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش کی گئی،تاہم سال 2016میں اب بھی متعدد ہائی پرو فائل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی،پولیس افسران میں ملزمان کیخلاف ناقابل تردید ثبوت جمع کرنے کے بجائے''جے آئی ٹی رپورٹس'' جلد ازجلدجاری کرنے کی ڈورلگی رہی۔

تفصیلات کے مطابق سندھ پولیس کے پاس تفتیش کے لیے تمام تر جدید وسائل،آلات اور ٹیکنالوجی موجود ہے جو دنیا کے بڑے ترقیاتی ممالک میں جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کے لیے استعمال کی جاتی ہیں،سندھ پولیس کے پاس تفتیش کے لیے فارنزک انویسٹی گیشن یونٹ ( فارنسک لیبارٹری ڈویژن سندھ) جس میں اسلحے اور گولیوں کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ ، فنگر پرنٹس ، ڈیجیٹل فارنسک ، گاڑیوں کا معائنہ،کرائم سین انویسٹی گیشن موجود ہے، اس کے علاوہ سندھ پولیس کے پاس تفتیش کے لیے موبائل فونز لوکیٹرز، جیمرز، خفیہ کیمروں کا نظام اور جرائم پیشہ عناصر کے کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ سمیت دیگر نظام موجود ہے، اس کے باوجود سندھ پولیس کے شعبہ انویسٹی گیشن کی ناقص تفتیش کے باعث سال 2016 میں معروف قوال امجد صابری، سماجی رہنما خرم ذکی ،فوجی جوانوں ، ڈی ایس پی فائز علی شگری، نجی بینک کے نائب صدر اعجاز اسلم، پرائیوٹ اسکول ایسوسی ایشن کے رکن منصور زیدی، پاکستان علما کونسل کے مولانا حبیب ، نجی یونیورسٹی طالب علم اور ڈاکٹر ،ٹریفک پولیس اور ڈسڑکٹ پولیس اہلکار سمیت 50 سے زائد ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں انویسٹی گیشن پولیس تفتیش کے نتیجے میں کسی ملزم تک نہ پہنچ سکی، انویسٹی گیشن پولیس روایتی تفتیش کے طور طریقوں، تشدد ،اعترافی بیانات ،غیر مصدقہ اطلاعات، پسند نہ پسند اور ذاتی مفادات کی وجہ سے جدید ٹیکنالوجی اور سہولیات بھی جرائم پیشہ عناصر کے خلاف گھیرا تنک کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔

سندھ پولیس نے کالعدم تنظیم کے2 ملزمان کوگرفتار کر کے ان کے اعترافی بیانات کی روشنی میں معروف قوال امجد صابری ، پارکنگ پلازہ کے قریب فوجی جوانوں ، عائشہ منزل ٹریفک پولیس اہلکاروں اورنگی ٹاؤن میں انسداد پولیو ورکرز کی حفاظت پر مامور7 پولیس اہلکاروں سمیت سال2016اور سال2015میں 56 سے زاہد ہائی پرو فائل کیسز کو حل کرکے کامیابی کا سہرا اپنے سر سجانے کی کوشش کی ہے تاہم اس کے باوجود سال 2016 میں اب بھی ڈی ایس پی فائز علی شگری ، شیخ ساجد محمود اور سیاسی و مذہبی جماعتوں کے کارکنان مختلف کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ سمیت دیگر ہائی پروفائل ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی تفتیش میں تاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی اور نہ ہی انویسٹی گیشن پولیس ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔

سندھ پولیس کی روایتی اور ناقص تفتیش کی وجہ سے براہ راست جرائم پیشہ گروہوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے، پولیس افسران میں ملزمان کیخلاف ناقابل تردید ثبوت جمع کرنے کے بجائے''جے آئی ٹی رپورٹس'' جلد ازجلدجاری کرنے کی ڈورلگی رہی،اعترافی بیانات کا انحصار اور ٹھوس شواہد کے فقدان کی وجہ سے بیشتر ملزمان آسانی سے عدالت سے ضمانت پررہا ہوجاتے ہیں،ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث صوبے میں امن وامان کے قیام کے لیے دی جانے والی عوام اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قربانیاں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔