اے نئے سال بتا

سیاسی بحث کرنے اورلکھنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں


راؤ منظر حیات January 02, 2017
[email protected]

گزشتہ برس پرنظرڈالنے سے صاف اندازہ ہوجاتا ہے کہ نیاسال کیسے اورکیونکرگزرے گا۔کسی جوتشی،نجومی یاسنکھ بجانے والے کی قطعاًضرورت نہیں۔ 2017 ہر طریقے سے ویساہی ہوگاجیساکہ گزراہوا سال۔ شائدبیتی ہوئی چھ دہائیاں۔ مفروضہ، آس یایاس پرنہیں بلکہ ان معروضی حالات کی بنیادپرہے جوکبھی تبدیل نہیں ہوئے اورنہ ہونگے۔ہماری آزادی اس پختہ اصول سے منسوب ہے کہ اس بدنصیب ملک کوجیسے ہے،ویساہی چلنے دینا ہے۔ یہ ضابطہ کمزور ممالک کے لیے یکساں ہے۔ اَن دیکھا مگر طاقتورترین اصول!

سیاسی بحث کرنے اورلکھنے والے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں۔لاحاصل مباحثہ میں ذاتیات بنیادی محرک ہیں۔وابستہ مالی فوائدمقصدِحیات ہیں اوربے اصولی ایمان کے درجہ پرہے۔ملک میں سیاست پرلکھناصرف اورصرف وقت کا ادنیٰ ترین مصرف ہے۔گروہ،دھڑے اورجھتے اس درجہ جڑپکڑچکے ہیں کہ صرف اپنے حواریوں کو پارسا گردانتے ہیں۔دوسراہرشخص ان کے لیے شیطان ہے۔ ہر سیاسی گروہ کے مطابق ان سے مختلف یامتضادرائے رکھنے والا قابل تعزیر ہے۔

اگر کوئی سمجھتاہے کہ ہمارے ملک کی سیاست اورالیکشن کاکوئی باہمی تعلق ہے تواپنی رائے پردوبارہ غورکرناچاہیے۔الیکشن بے وقعت ہے اورایک طرح کا دکھاواہے جسکے ذریعے کوئی بھی سیاسی گروہ حکومت کرنے کا جواز تلاش کرلیتاہے۔عام آدمی کواس گورکھ دھندہ کاعلم یا ادراک ہی نہیں جو''چناؤ'' کے نام پرنافذ کیا جاچکا ہے۔

عملی اندازسے دیکھاجائے توہمارے ملک کے چارحصے ہوچکے ہیں۔ہرصوبہ میں مختلف سیاستدانوں کی حکومت ہے۔ان میں اَن دیکھا کھچاؤ اور پسِ پردہ محبت حیران کن ہے۔ آسانی سے کہاجاسکتاہے کہ ملک کے چاروں صوبے اب ایک دوسرے کے ساتھ ناہموارتعلقات کی اساس پرکام کررہے ہیں۔چھوٹی اکائی یعنی بلوچستان کی بدقسمتی سے کوئی مستحکم حیثیت نہیں۔جوبھی مضبوط ترین ہوگا،وہ اس کا ساتھ دینے پرمجبورہیں۔سیاست میں کسی قسم کاکوئی میرٹ نہیں ہے۔

عرض کرونگا کہ پورے ملک میں کسی بھی شعبہ میںیکسرکوئی میرٹ نہیں ہے۔ایسے درجنوں سیاستدانوں کو جانتاہوں جواُجلے کردارکے مالک ہیں مگر سیاسی نظام میں ان کی کوئی پذیرائی نہیں۔دربارتک ان کی رسائی نہیں۔ ان کا کوئی جائزکام بھی کرنے کے لیے تیارنہیں ۔نہ درباراورنہ سرکار۔بے حیثیت ہونے کااحساس اس درجہ کا ہے کہ ان میں سے کئی تودفاترمیں آناہی چھوڑچکے ہیں۔ موجودہ سیاسی نظام ایمانداری اورمیرٹ کے مسلمہ اصول کو ختم کرچکا ہے۔ نیاسال بالکل اسی طرح گزرے گا۔

نظامِ عدل کی طرف آئیے۔2017میں یہ نظام بھی بالکل ویساہی رہے گاجیسے گزشتہ چھ دہائیاں۔اس نظام عدل کو چلانے والے لوگ بخوبی سمجھتے ہیں کہ کسی قسم کی جوہری تبدیلی انھیں غیرموثرکرڈالے گی۔لہٰذاخاموش رہنے میں بے حدفائدہ ہے۔عوام کوانصاف مہیاکرناتودورکی بات عدلیہ اپنے محکمہ میں بھی انصاف نہیں کرپارہی۔

ہائیکورٹ میں جج بنانے کے لیے سیشن ججوں کاایک کوٹہ ہے۔ضلعی عدلیہ کے جج کی معراج ہوتی ہے کہ ہائیکورٹ تک پہنچ جائے۔ مگر آج تک مخصوص لکھے ہوئے کوٹہ پرعملدرآمدنہیں ہوا۔ڈھکی چھپی سوچ صرف یہ ہے کہ قانونی دفاترسے"سٹیٹس کو"کی سوچ والے جج بنانے ہیں۔اس میں سیاسی مصلحتیں بھی ہیں اورگروہ بندی بھی موجودہے۔جس عوامی چیف جسٹس کورعایاسرپربٹھاکرواپس لائے تھے،وہ بھی ذات سے اوپراُٹھ کرکسی مسئلہ کونہیں دیکھ سکے۔

درجنوں ہائیکورٹ کے جج یک جنبش قلم اسی استدلال پرنکالے گئے کہ انھوں نے غلط حلف لیاہواہے۔پرعوامی چیف جسٹس نے بھی وہیں سے حلف کی دستارپہنی تھی جس منبع پرانھیں نکتہ اعتراض تھا۔انصاف کامعیار ایک سنجیدہ سوال ہے۔ انصاف کی جوہری حیثیت کیا ہے۔کس طرز کاانصاف مل رہا ہے۔اس پر بات کرنی مشکل ہے۔بلکہ بیکارہے کیونکہ ہمارے ملک میں کسی قسم کی کوئی آزادسوچ کارواج نہیں ہے۔تیسری دنیاکے تمام ممالک میں عدل بالکل نایاب سا پرندہ ہے۔

گزارش ہے کہ آزمائی ہوئی چیزوں کو نئی طرزسے دیکھنانامناسب ہے۔لہذاخاطرجمع رکھیے عوام انصاف کے بغیرسانس لیناسیکھ چکے ہیں۔ لہذا اب کسی قسم کاکوئی مسئلہ نہیں۔بین الاقوامی تناظرمیں ملک کو دیکھا جائے تو صورتحال 2017میں بھی جوں کی توں رہیگی۔ہماراملک تین سے چارملکوں کادستِ نگرہے۔یہ تمام ممالک ہماری کمزوری سے خوب فائدہ اُٹھارہے ہیں اوراُٹھاتے رہیں گے۔

سعودی عرب اس وقت شدیدمالی اورسیاسی انحطاط کاشکار ہے۔ لہذااسے ایک ایسے فریق کی ضرورت ہے جوکسی حدتک شخصی اور علاقائی تحفظ فراہم کرسکے۔اندرونی طور پر سعودی عرب بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں پاکستان کے متعلق ایک منفی سوچ موجودہے کہ وقت آنے پرہم نے یمن پرحملے کے لیے ان کاساتھ نہیں دیا۔ثبوت سعودی عرب اوراس کے حلیف ممالک کاہندوستان کی طرف واضح جھکاؤ ہے۔

صورتحال یہاں تک مشکل ہے کہ سرکاری پاسپورٹ پردوبئی کاویزہ حاصل کرنا کافی صبرآزما ہوچکاہے۔روس کاذکر کرنااس لیے ضروری ہے کہ چندلوگ نعرے ماررہے ہیں کہ روس اورپاکستان بہت نزدیک آچکے ہیں۔ انھیں قطعاً اندازہ نہیں کہ روس اورانڈیاکے کتنے گہرے روابط ہیں۔ان کے باہمی تعلقات کی ایک تاریخی نوعیت ہے۔ پاکستان کاروس سے تعلق قطعاًقطعاًاس مضبوط بنیاد پر نہیں ہے جسکاواویلہ مچایا جارہاہے۔

چین کے ہمارے ملک کے ساتھ روابط تاریخی ضرورہیں مگر اس کاہمارے حریف ممالک سے بھی نزدیکی تعلق ہے۔چین کی حکومت ہمیں جوبھی مشورہ دیتی ہے اس پر دانائی سے عمل نہیں کیاجاتا۔ کشمیر پر چین کی رائے ازحد واضح ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ اس مسئلہ کوکچھ وقت کے لیے طاق نسیاں بنادیا جائے۔اس دورانیہ میں پاکستان اپنی معیشت کو بھرپورترقی دے۔ انڈیا سے بھرپورتجارتی فوائدحاصل کرے۔

معاشی صورتحال درست کرنے کے بعد کشمیر کے مسئلہ کوحل کرے۔ ان کی دانست میں معیشت کی بہتری سے مسئلہ کافی حدتک خودہی بہتر ہوجائیگا۔یہ نکتہ قابل غور ہے۔مگرہم نے گزشتہ کئی دہائیوں سے کشمیرپراتنی جذباتیت پیدا کردی ہے کہ جوفریق بھی منطق اورزمینی حقائق کے حساب سے حل کرنے کی کوشش کریگا،اس کی عوامی مخالفت حددرجہ بھرپور ہوجائیگی۔ کوئی سیاسی گروہ یا حکومت اس پوزیشن میں ہی نہیں ہے کہ جذباتیت سے مبرا کوئی دوسرافیصلہ کرسکے۔

ہرشخص کے دماغ میں یہ بٹھادیاگیاہے کہ کشمیرکوحاصل کرنا ہماراقومی مقصد ہے۔کوئی سنجیدہ تجزیہ کاریہ لکھنے کے لیے تیارنہیں کہ ہمیں ایک توازن اورٹھہراؤکی ضرورت ہے۔اگرکوئی یہ کہے کہ ایک مضبوط اورمعاشی طور پر توانا پاکستان، کشمیر کو آزاد کروانے کا بہترین نسخہ ہے، تو اسے غدارکہاجائیگا۔چین کوہماری جذباتیت کا علم ہے۔ لہذا اب وہ لوگ بھی خاموش ہوچکے ہیں۔

گزشتہ دنوں سے سی پیک پر لکھنا ترک کر چکا ہوں۔ وجہ صرف یہ ہے کہ چین... افریقہ سے لے کرہربراعظم میں سڑکوں کاجال بچھارہاہے۔افریقہ میں یہ تجارتی سڑکیں اب مکمل ہونے والی ہیں۔ان تمام ملکوں میں چین کی بنائی ہوئی موٹرویزکاکوئی ذکرنہیںہوتا۔ان کی کوئی تشہیرنہیں ہوتی۔افریقی ملکوں کی حکومت مکمل طورپرخاموش رہتی ہیں ۔ کانوں کان کسی کوخبرنہیں ہونے دے رہیں کہ ان شاہراؤں کے ذریعے معاشی انقلاب آنے والاہے یا آچکاہے۔

صرف ہمارابدقسمت ملک ہے جس میں سی پیک پربحث سے دن شروع ہوتاہے اورشام بھی اسی بحث میں گزرجاتی ہے۔ اسکو متنازعہ بنانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔جو قوم اپنی آزادی سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھاپائی،وہ ایک تجارتی شاہراہ سے فائدہ کیسے اُٹھاپائیگی۔سی پیک ملک میں تقسیم کے نئے بیج بوئے گا یاترقی کے ثمر پیدا کریگا، اس وقت اس پر متضاد آراء موجودہیں۔ادنیٰ سیاسی نظام سب پر حاوی ہوچکا ہے۔ چند طاقتور شخصیات پورے ملک سے بھی زیادہ مضبوط ہوچکی ہیں۔

کمزورملک ان لوگوں کے مفادمیں ہے۔تمام سیاسی یا غیرسیاسی ادارے اب کچھ لوگوں کے حاشیہ بردار ہیں۔ لاغرنظام انصاف،تین چارملکوں سے ذاتی تعلقات، گرتی ہوئی ملکی ساکھ اوربے معنی نعروں کے سامنے 2017 بھی اسی مسکینی سے گزرجائیگا،جیسے گزشتہ سال سانسیں پوری کرکے گیاہے۔کوئی اُمیدنہ لگائیے۔ آنے والے دنوں میں لوگ اتنے ہی بے بس ہونگے جتنا گزرے ہوئے وقت میں۔

اے نئے سال بتا، تجھ میں نیا پن کیا ہے
ہر طرف خلق نے کیوں شور مچا رکھا ہے

آسماں بدلا ہے افسوس، نہ بدلی ہے زمیں
ایک ہندسے کا بدلنا کوئی جدت تو نہیں

کسے معلوم نہیں بارہ مہینے تیرے
تو نیا ہے تو دکھلا صبح نئی، شام نئی

ورنہ ان آنکھوں نے دیکھے ہیں نئے سال کئی

(فیض)

اے نئے سال بتا!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔