’’جمہوری لیکس‘‘ اور ’’جمہوری ٹرمپالوجی‘‘
کرۂ ارض کی دو ’’ہم پلہ قومیتیں‘‘ ایک دوسرے کی مدمقابل ہیں
قرارداد کا ردعمل: فلسطینی سرزمین پر اسرائیلی جارحانہ وسعت یعنی بستیوں کے قیام کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں قرارداد پاس ہونے پر اسرائیل سیخ پا ہے۔ اسرائیل نے قرارداد کو مسترد کرتے ہوئے نیوزی لینڈ اور سینیگال سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔ جب کہ اسرئیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسرائیلی دفتر خارجہ کو اقوام متحدہ کے ساتھ اپنے تمام تعلقات اور اس کے چند اداروں کی مالی معاونت کے حوالے سے نظرثانی کرنے، برطانوی وزیراعظم سمیت سینیگال اور یوکرین کے وزرائے خارجہ کے اسرائیلی دوروں کو بھی منسوخ کرنے کے احکامات جاری کردیے ہیں۔ اس کے ساتھ تل ابیب میں امریکی سفیر ڈین سپیرو کو وزیراعظم ہاؤس طلب کرنے کے ساتھ اقوام متحدہ کے پانچ اداروں کی مالی معاونت روک دی ہے۔
تھانہ داری کے اختیارات: اقوام عالم اور ممالک عالم پر قائم امریکی تھانہ داری سے انکار کرنے کی جسارت شاید کوئی بھی نہ کرسکے۔ اور اگر انفرادی یا اجتماعی وجود کے ساتھ کوئی انکار کرتا بھی ہے تو اس انکار کی حدود متعین کردہ ہی رہتی ہیں۔ کیونکہ امریکا کی اس تھانہ داری کی حد میں آنے والے تمام ممالک پر لاگو ہونے والے اس کے الگ ہی پینل کوڈز ہیں۔ اور ان پینل کوڈز کا اطلاق بھی امریکی مفادات اور اس میں معاون تعلقات کی حد تک ہی عمل میں لائے جاتے رہے ہیں۔
کرۂ ارض پر شاید ہی کوئی ملک ہو جو امریکا کے ان پینل کوڈز کا مجرم قرار پائے جانے کے باوجود خاص حفاظتی سہولتوں سے محروم کردیا گیا ہو۔ مزیدار بات کہ یہ ایسا تھانہ دار ہے جو اپنے دفاع میں پینل کوڈ نمبر ''ویٹو پاور'' کا اختیار رکھتا ہے۔ جس کو استعمال کرکے وہ قانون بین الاقوام کو مات دے کر زیر سماعت مقدمے کو غیر معینہ مدت تک کے لیے سردخانے میں ڈالنے کے احکامات بھی جاری کرواتا آیا ہے۔ اسرائیل کے ارض فلسطین پر غاصبانہ قبضے اور جارحانہ کارروائیوں سمیت کشمیر میں ہندوستانی جارحیت کے خلاف منظور کی جانی والی قراردادیں اور ان پر عمل کرنے کی تاریخ تو اس تھانہ داری کا بس چھوٹا سا نمونہ ہیں۔
سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں بھی مصر کی جانب سے اسرائیلی بستیوں کے خلاف پیش کی جانے والی قرارداد میں امریکا ''ویٹو پاور'' کا اختیار استعمال کرنے کے بجائے صرف خاموش رہا، تو 15 میں سے 14 ارکان نے قرارداد پاس کرلی۔ اسرائیل نے اس امریکی خاموشی کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ دوست اپنے دوستوں کو سلامتی کونسل میں لے کر نہیں جاتے۔ نیتن یاہو نے اس قرارداد کی راہ ہموار کیے جانے کے اوباما انتظامیہ کے اقدامات اور قرارداد کے اسرائیل پر مرتب ہونے والے منفی اثرات کو زائل کرنے اور قرارداد کو معطل کرنے کے لیے ٹرمپ انتظامیہ سے مل کر کام کرنے کے دوٹوک الفاظ بھی بول ڈالے ہیں۔
اوباما انتظامیہ نے نہ صرف اسرائیلی الزامات کو مسترد کیا بلکہ اقوام متحدہ میں امریکی سفیر سیمنتھا پاول نے بتادیا کہ امریکا نے اس لیے ووٹ نہیں ڈالا کہ اس کی نظر صرف بستیوں پر مرکوز ہے۔ مزیدار بات کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی تھانہ داری کے روایتی تیور اختیار کرنے کے بجائے اسرائیلی وزیراعظم کے جاہ وجلال بھرے اقدامات اور بگڑے مزاج کو ٹھنڈا کرنے کی خاطر اقوام متحدہ ہی کو بے ضرر ادارہ قرار دے کر اسرائیل کی دلجوئی کی ہے۔
26 دسمبر 2016ء کو امریکی اسٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق 1 بج کر 41 منٹ پر جاری اپنے ٹوئیٹ میں نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ''اقوام متحدہ ایسا کلب بن کر رہ گیا ہے، جہاں لوگ آتے ہیں اور باتیں کرتے اور اچھا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں، جو افسوسناک ہے۔'' جب کہ اس سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ 20 جنوری کے بعد حالات تبدیل ہوجائیں گے، کیونکہ 20 جنوری کے بعد وہ وہائٹ ہاؤس میں براجمان ہوں گے۔ اور امریکی پالیسی کی سمت کا کھل کر تعین کیا جائے گا۔
تجزیات اور نتائج: قرارداد پاس کرنے والے ممالک نے اسرائیل کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ کس ملک کے کیا مفادات ہیں؟ کون سا ملک کون سے فوائد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ یا پھر انھوں نے نہتے اور اپنے تاریخی، نظریاتی اور رائج قانون بین الاقوام کے تمام تر تقاضوں کی بنیادوں پر اپنے جائز حق کے لیے مزاحمتی تحریک چلانے والوں کی داد وفریاد سن لی ہے؟ اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں کی مالی معاونت روک دینے کے عمل سے ممالک عالم کے وہ کون سے مسائل ہیں جو اس مالی معاونت کے روک دیے جانے سے مزید الجھنیں پیدا کرسکتے ہیں؟ اس سے اقوام متحدہ کے کردار پر کون سے اثرات ظاہر ہونے کے خدشات ہیں؟ عرب ریاستوں پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
اس قرارداد کے پیش کرنے سے عرب ریاستوں اور فلسطینی تحریک مزاحمت پر مصر کے اثر انداز ہونے کے کون سے امکانات وابستہ کیے جا سکتے ہیں؟ اور کیا ان میں مصر عہدہ برآ ہوسکے گا یا نہیں؟ اسرائیل کا سخت رویہ بالآخر کس حد تک جاسکتا ہے؟ وہ بین الاقوامی سیاست اور بین الاقوامی اداروں سمیت قانون بین الاقوام کو کتنا متاثر کر سکتا ہے؟ 20 جنوری کے بعد امریکی پالیسی کیا رخ اختیار کر سکتی ہے؟ اس پر اہل دانش دل کھول کر اپنے تجزیات پیش کرتے رہیں گے۔ وہ تجزیات، جائزے، پیش گوئیاں اور منطقی دلائل کتنے فیصد سچ ثابت ہوتے ہیں یا امریکی انتخابات کے وقت کیے گئے تجزیات جیسے ہوں گے، وہ تو وقت ہی بتائے گا۔
پیش منظر اور پس منظر: چونکہ کرۂ ارض کی دو ''ہم پلہ قومیتیں'' ایک دوسرے کی مدمقابل ہیں۔ مزیدار بات کہ دونوں کے قومی تشکیل کے اجزائے ترکیبی بھی یکساں عناصر پر مشتمل ہیں۔ ممکن ہے یہی وجہ ہو کہ اقوام عالم کو ان دونوں کے اثر ورسوخ کے آگے دم مارنے کی جرأت نہیں۔ یہ دونوں قومیں دنیا میں جدید ترقی کا بہترین ماڈل بنی ہوئی ہیں، اور اب یہ دونوں مل کر تمام قوموں کو اپنے جیسا پڑھا لکھا اور باشعور بناکر ان کے ممالک میں اپنا تمدنی نظام رائج کرنے کی جنگ میں جتی ہوئی ہیں۔
شاید تاریخ کے طالب علموں کی اس گستاخی کومعاف کیا جائے اگر وہ جمہوریت کو ہی اس جنگ کا سب سے جدید اور خطرناک ہتھیار قرار دے بیٹھیں؟ کیونکہ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اسرائیل کی دوستانہ شکایت کے جواب میں واشگاف الفاظ میں کہہ ڈالا ہے کہ ''اسرائیل یہودی ریاست اور جمہوریت میں سے کسی ایک کا نتخاب کرے۔'' چونکہ حالیہ امریکی انتخابات کے نتیجے میں ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی صرف جمہوریت کے تسلسل کو بچانے کی غرض سے ہی نومنتخب صدر قرار دیا گیا ہے۔ ان انتخابات اور اسرائیل کے خلاف قرارداد کے آپسی تعلق کو روس سے جوڑا جاچکا ہے۔ یعنی امریکی انتخابات نے روس کے دنیا میں تیسری قوت کے طور ابھرنے کا اعلان خود امریکا بہادر ہی سے 35 روسی سفیروں کو امریکا بدر کرنے سے کردیا ہے۔
دوسری طرف روس نے ایران اور ترکی سے مل کر شام میں مکمل جنگ بندی کا اعلان کرکے اس سوچ کو تقویت بخشی ہے۔ اسرائیل کے خلاف قرارداد نے بھی عرب ریاستوں میں روس کے حق میں ہمدردیاں سمیٹی ہیں۔ اس پیش منظر اور پس منظر میں امریکا کسی طور بھی اس قرارداد کو نہ تو منسوخ کروا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے ''منفی اثرات'' کو زائل کرسکتا ہے۔ یعنی روس نے بین الاقوامی سیاست میں ایک بار پھر اپنے متحرک اور طاقتور کردار کے ساتھ جو ''دبنگ انٹری'' دی ہے، وہ خاص طور عرب ریاستوں میں اس کے اثر و رسوخ کو بڑھاوا دینے کا سبب بنے گی۔ جب کہ ظاہری طور پر تو اسرائیل پر قرارداد کا دباؤ رہے گا لیکن یاسر عرفات کے بعد فلسطین کے حالات اسرائیل کے لیے کچھ خاص پریشان کن نہیں رہے۔ اس لیے عالمی منظرنامے میں روس یہودی ریاست کے اعلان کو موخر رکھنے کا سبب بنتا رہے گا۔ امریکا مصر سے فارس اور چائنا تک ہندوستان کو بھی اپنے گھیرے میں لیے کرۂ ارض کے تکون حصے میں ''جمہوری لیکس'' اور ''جمہوری ٹرمپالوجی'' کی نگہ داری کرے گا۔