صاحب ضلع
ڈپٹی کمشنر کے سامنے جو درخواست بھی پیش ہوتی وہ ردی کی ٹوکری میں نہیں انصاف کے ترازو پر تلتی تھی
برطانوی دور میں عوام تک انصاف پہنچانے اور اسے عام کرنے کے لیے ہر ضلع میں ایک افسر ہوا کرتا تھا جسے سرکاری زبان میں ڈپٹی کمشنر اور عوام کی زبان میں صاحب ضلع کہا جاتا تھا۔ یہ افسر عملاً اپنے ضلع کا مالک ہوتا تھا یعنی پورا ضلع اس کی بااختیار نگرانی میں چلتا تھا، ہر ضلع کا ہر شہری اپنی درخواست لے کر اس کی کچہری میں حاضر ہوتا تھا جہاں اس کی درخواست پر غور کیا جاتا تھا اور اس کے مطابق اس پر کارروائی ہوتی تھی۔
یہ طے تھا کہ ڈپٹی کمشنر کے سامنے جو درخواست بھی پیش ہوتی وہ ردی کی ٹوکری میں نہیں انصاف کے ترازو پر تلتی تھی اور یہ دیکھے بغیر کہ درخواست گزار کوئی بڑا آدمی ہے یا ضلع کا ایک بے اثر شہری ہے اس کی درخواست پر مکمل انصاف کے ساتھ کارروائی ہوتی اور کوئی درخواست ضایع نہیں ہوا کرتی۔ جو کوئی بھی ڈی سی کی کچہری میں حاضر ہو گیا وہ بے نیل مرام نہیں لوٹا۔ اس لیے ڈپٹی کمشنر کو صاحب ضلع کہا جاتا تھا یعنی ضلع کا مالک۔ کوئی بڑے سے بڑا افسر بھی ڈی سی کے فیصلے کو بلاوجہ مسترد نہیں کر سکتا تھا۔ ڈی سی ضلع کا ذمے دار ہوتا تھا۔
دھیلے کی چوری ہو یا کروڑوں کی اس کی ذمے داری ڈی سی پر عائد ہوتی تھی۔ بدامنی کا ہر واقعہ ڈی سی کی ذمے داری تھی غرض ہوا بھی ناموافق ہو تو ڈی سی کو پکڑا جا سکتا تھا۔ انگریز حکمران ڈی سی کو تاج برطانیہ کا نمایندہ سمجھتے تھے اور اسے برطانوی حکومت کی عزت و بے عزتی کا ذمے دار۔ ایک ڈی سی بڑی ہی ذمے داری کے ساتھ اپنے ضلع کی انتظامیہ کو چلاتا تھا اگرچہ وہ اپنے کمشنر اور پھر صوبہ کے بڑے افسر کے ماتحت ہوتا تھا لیکن جہاں انصاف کا سوال پیدا ہوتا وہ اپنے ضلع کا لاٹ بن کر فیصلہ کرتا۔
عوام جس قدر کسی ڈی سی کے دفتر سے جس قدر مطمئن ہوتے، بڑے لوگ ڈی سی سے اسی قدر بے زار دکھائی دیتے کیونکہ ایک ڈی سی کسی بڑے کے حق میں فیصلہ نہیں دیتا تھا سوائے اس کے کہ انصاف کا یہی تقاضا ہو۔ ڈی سی کے دفتر سے عوام کو جو سہولت ملتی تھی وہ بے مثال تھی اور صاحب ضلع کے اختیار کو بخوشی تسلیم کیا جاتا تھا۔ کسی ڈی سی کے دفتر کے باہر کوئی چوکیدار نہیں ہوا کرتا تھا جس کا جی چاہتا وہ وقت مقررہ میں اپنی درخواست پیش کر سکتا تھا اور اس کا جواب پا سکتا تھا۔ یہ ڈی سی نہ صرف بڑے لوگوں کے لیے ناپسندیدہ ہوا کرتا بلکہ سرکاری افسر بھی اس سے بدکتے تھے چنانچہ ایک وقت ایسا آیا کہ ڈی سی کے خلاف محاذ مضبوط ہو گیا۔
نئی حکومت میں انصاف کے لیے اتنی جان اور تڑپ نہیں تھی کہ وہ ڈی سی آفس کو برقرار رکھ سکتی چنانچہ ڈی سی آفس اور اختیارات کے مخالف کامیاب رہے اور ڈی سی آفس ختم کر دیا گیا جس سے انصاف سے گھبرانے والے مطمئن ہو گئے اور ضلع کا اقتدار گویا کسی حد تک ان کو منتقل ہو گیا۔ اب تک یہی صورت چلی آ رہی تھی کہ ضلع میں بے انصافی کی سب سے بڑی رکاوٹ راستے سے ہٹ گئی۔ نہیں معلوم ضلع میں انصاف کو پسند کرنے والے کیسے کامیاب ہو گئے کہ حکومت وقت نے ڈی سی آفس کو پھر سے کھول دیا۔ ابھی اس کی ابتداء ہے لیکن ڈی سی آفس کی جو پرانی روایت ہے وہ پھر سے لوٹ آئے گی کیونکہ جن لوگوں نے ڈی سی آفس کو بحال کرایا ہے وہ اس کا اقتدار بھی واپس لائیں گے کیونکہ عام آدمی کا یہ ایک بڑا سہارا تھا اور اس کی درخواست ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکی جاتی تھی۔
حکومت کا اصل مقصد عوام کو انصاف دینا ہے اور اس کی مشکلات کو دور کرنا ہے۔ اس بنیادی کام کے لیے برطانوی دور میں ڈی سی کا آفس قائم کیا گیا اور ایک ڈی سی کو عوام کے مسائل حل کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ یہ کام مدتوں تک چلتا رہا لیکن پھر یہ رفتہ رفتہ ترک کر دیا گیا اور عوام پھر سے بے انصاف بیوروکریسی کے چنگل میں پھنس گئے۔ ابھی تک یہی صورت حال موجود ہے اب جب کہ اس میں تبدیلی دکھائی دے رہی ہے تو امید ہے کہ عوام کے درد مند جن لوگوں کی ہمت سے یہ تبدیلی آئی ہے اس کے نتائج بھی بہتر نکلیں گے اور یہ لوگ اپنی محنت ضایع نہیں جانے دیں گے۔ عوام کا بھی یہی تقاضا ہے اور ملک کا مفاد بھی اسی میں ہے کہ پرانے صاحب ضلع کو زندہ اور بحال کیا جائے۔