دل جان قرآن
ماضی میں وہ قومیں تباہ وبرباد ہوئیں جنھوں نے عدل وانصاف اور مساوات کا جوہرختم کردیا
ISLAMABAD:
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنے آپ سے سوال کرتا ہے، اس کا جواب بھی اسے ملتا ہے۔ کیونکہ قدرت کا سسٹم بہت Perfect ہے اور ایسا نہیں ہوتا کہ آپ عقل و شعور سے بیگانے ہوں اور پھر ایک عملی انسان بھی ہوں۔ کیونکہ عمل کے لیے عقل، شعور بے حد ضروری ہے اور جہاں خدانخواستہ ایسا نہیں ہوتا معاشرے کے وہ لوگ گدومل یا لاہورکے اصلاح خانے میں قیام پذیر ہوتے ہیں۔
میں نے اصلاح خانے کی ترکیب یوں استعمال کی ہے کہ میں قدرت کے شاہکارکو کسی ایسے نام سے نہیں پکار سکتا جو اس پر مناسب نہیں لگتا۔ یہ مشین بگڑ کر بھی نہ جانے کن کن افکارکا ادراک کرتی ہے کم ہی کوئی اس پر سوچ سکا یا حقیقتاً کچھ کر سکا، کیونکہ ہم میڈیکل کی زبان میں یا یوں کہیے کہ طب کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں دل کی زبان سے نہیں۔
دیوانہ بکارخویش ہوشیار است
اس قسم کی تراکیب شعرا نے زیادہ تر استعمال کی ہیں لفظوں کا فرق ہو گا مفہوم یہی ہے۔ نہ توگل کو بلبل سے کوئی تعلق ہے نہ بلبل کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ دن بھرگل کے پاس افکار تازہ سماعت کرے۔
قدرت نے سب کو اپنے اپنے کام تفویض کیے ہیں، گڑبڑ وہاں ہو جاتی ہے جب لاگ کام ''دکھانا'' شروع کر دیتے ہیں۔ اب اتنا تو سب جانتے ہیں کہ ''کارکردگی'' دکھانا اور ''کام دکھانا'' میں کیا فرق ہے۔ انسان کے عمل نے لفظوں تک کو متاثرکر دیا۔ جہاں پہلے کہا جاتا تھا کہ آپ مجھے امید ہے کہ اس سلسلے میں کام دکھائیں گے یعنی مثبت قدر وہ اب صلائے عام میں منفی ہو گئی، واہ رے انسان تیری ہرکل سیدھی، تیرے اپنے مفاد میں۔
کہہ یہ رہے تھے ہم کہ انسان خود بین وخود آشنا ہے۔ ہرگز ایسا نہیں ہے کہ وہ اپنا مفاد نہ جانتا ہو نہ چاہتا ہو، بس ایک فرق ہے کہ آج کا انسان مفاد عامہ سے بے بہرہ نہیں وہ اسے اختیار نہیں کرنا چاہتا۔ یہ انسانی رویے کی تبدیلی ہے، جس نے ادب، ثقافت، شرافت، انسانیت، سماجیات، اقتصادیات سب کو متاثر ہی نہیں کیا تباہ و بربادکر دیا ہے کیونکہ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں، اسے بہرحال تباہ ہونا ہے، یہ تاریخ بھی ہے اورحقیقت بھی۔
اس کا ادراک کرنا مشکل نہیں ہے۔ ماضی میں وہ قومیں تباہ وبرباد ہوئیں جنھوں نے عدل وانصاف اور مساوات کا جوہرختم کردیا معاشرے سے جزا اور سزاکے معیار بدل گئے۔ یہ تو اسلامی دور میں ابتدا میں ہی آپ دیکھ سکتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی وفات کے بعد، فکر ساری دنیا میں بھی اس سے الگ کچھ نہیں تھا بلکہ اگر دیکھا جائے تو اسلامی بادشاہوں نے یہ برائیاں ان ہی معاشروں سے اختیارکیں۔
وہ کسے پسند ہوتا کہ روم کا وفد مسجد میں آئے اور مسلمانوں کا خلیفہ چٹائی پر بیٹھا عدل کر رہا ہو۔ لوگوں کو بوریا نشین کا خوف اس لیے ہو کہ وہ خدا کے قانون کو نافذکر رہا ہو۔ خلافت راشدہ ایک بہترین زمانہ تھا۔
کیوں بہترین زمانہ تھا، لوگوں کو انصاف ملتا تھا جو اس وقت کے دنیا بھرکے معاشروں میں ناپید تھا، اور کوئی بھی اعلیٰ ترین کے پاس جانے کے لیے وسائل کا محتاج نہیں تھا۔ مسجد نبوی ساری دنیا میں انصاف فراہم کرنے کا آسان ترین سستا ترین ادارہ تھا، سچ وکیل تھا اور حق انصاف اور دنوں مہینوں کے بجائے فوری سستا ترین انصاف۔ میں مسلمان ہونے کے ناتے دنیا کو مطعون نہیں کر رہا کیونکہ اب تو میری شرمندگی کا دورچل رہا ہے۔ ساری دنیا میں مسلمان کس حال میں ہیں یہ ہم جانتے ہیں۔ فاتح عالم کس مقام پر جا چکے ہیں سب جانتے ہیں سرحدوں کے اندر سرحدیں ہیں، دلوں کے اندر دراڑیں۔ ہم نے آغاز کیا تھا کہ ہر انسان قدرتی طور پر خود سے مخاطب رہتا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اس کے اندر اور باہر میں اتفاق نہیں ہوتا۔
یہ اندر اور باہر یوں کہہ رہا ہوں کہ اردو کی کمزوری کی وجہ سے شاید ٹی وی اینکر ظاہر و باطن بھی نہ سمجھ سکیں، اب تو جنید جمشید جیسے لوگ بھی ''کُل'' کو''کل'' پڑھ جاتے ہیں۔ ''کُل جہاں'' کو ''کل جہاں'' اور پتہ نہیں سوچا ہو گا ''جانے دو کون سمجھتا ہے یہاں''۔ بھٹکنا انسان کی فطرت ہے اور میں انسان ہوں اور بے حد کمزور اپنی کتاب مقدس قرآن میں باربار دیکھنے کے باوجود کہ کون بھٹک رہا ہے، کون بھٹکا رہا ہے، میری دلچسپی صرف اس میں ہے کہ میں تو کمزور ہوں، حقیرہوں، میں کیسے تخلیق کیا گیا کوئی حقیقت نہیں ہے میری۔
یہ ایک ''خود بہلاوا'' قسم کی چیز سے جس کا میں اور مجھ جیسے کروڑوں شکار ہیں اوپر سے یا مولوی صاحب نے اور بھی ڈرا کر رکھا ہوا ہے۔ تو ذہن کمزوری کو جلد قبول کر لیتا ہے اور طاقت سے پرہیزکرتا ہے۔ یہی ایک الگ موضوع ہے جب برداشت پیدا ہو گئی، معاشرے میں تو اس پرگفتگو ہو سکے گی۔ اب تو تو تو شدی۔ من من شدی کا دور ہے۔
اگراس کا معروف نام لکھوں گا تو بات نہیں بنے گی اسے اندرکی آواز ہی کہتے ہیں تاکہ آسانی رہے۔ انسان جوکچھ کرتا ہے اس سے باخبر ہے، بے خبر ہونے کی اداکاری کرتا ہے۔ اس کے فوائد ہیں اور باخبری ذمے داری کا تقاضا کرتی ہے اور وہ موجود نہیں ہے کہہ کر ہم جان نہیں چھڑا سکتے وہ ہم اختیار نہیں کرنا چاہتے۔
یہاں دوطرح کے اسٹوڈنٹ، طالب علم ہوتے ہیں ایک قسم بیان کر دی ہے اور دوسرے وہ جو اس دن چھٹی کر لیتے ہیں، پیٹ درد، بخار، چکر آ جانا وغیرہ عام اور سہل بہانے ہیں۔
مگر جہاں جان دے کر جانا ہے وہاں کوئی بہانہ نہیں چلے گا، آپ کے حاضر ہونے کا فول پروف یعنی ناکام نہ ہونے والا بندوبست موجود ہے۔ نگرانوں کی کمی نہیں ہے دو تو آپ کے ساتھ ہی گئے ہیں جو ساتھ رہے ساری زندگی۔ شاہد اور اپنی اپنی جگہ واحدکہ کام الگ الگ ہے اور نگران اعلیٰ جو بہت مشفق تو ہے پر اصول اور ضابطوں کے تحت جو زندگی کی سلیبس یا تو زندگی کے قانون میں پہلے سے بیان بھی کر دیے گئے تھے اور بار بار یاد دہانی بھی تمام زندگی یہ اندرکی آوازکرواتی رہی ہے۔
بل میں وارننگ ہوتی ہے نا یہ بھی ایڈوانس بل تھا جو بعد میں ادا کرنا تھا اور اصول اور ضابطوں کے تحت اس کا سکہ زندگی تھی اور اس کی خریداری عمل جوہر دو سمت ہو سکتا تھا اور ہوتا ہے۔ انسان شاید سو سال جی لے یا زیادہ عمل اس عرصے میں اسے یا تو ولی بنا دیتا ہے یا ابلیس کا کارندہ۔ ہم نے دیکھے ہیں یہ زندہ ولی یہ ہمارے درمیان تھے ہمارے درمیان ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ ظاہر پر یقین نہیں رکھتے لہٰذا ظاہر نہیں ہوتے۔
اب رہ گئے ابلیس کے کارندے ہرگلی چوراہے پر ہیں اور اعلیٰ ترین تک ہیں،کام ایک ہی کر رہے ہیں۔ عدل و انصاف نہیں ہے لہٰذا کمزور پکڑا جا رہا ہے۔ طاقتور خنک کمرے یا گرم کمرے میں آرام کر رہا ہے،کام دونوں نے ایک کیا ہے۔ اب اس کا فیصلہ یہاں تو جو ہوتا ہے سو ہوتا ہے اس پرکوئی تبصرہ نہیں کیونکہ اس سے ہم متفق نہیں مگر ایک بات جانتے ہیں کہ وہ اندر کی آواز وہاں Audio ہو جائے گی سارا کچا چٹھا کھول کر رکھ دے گی تب ہو گا انصاف اور وہ بہت سخت ہو گا۔ ہم بہت کمزور ہیں، ڈرتے ہیں ہم سب لوگ جو یہاں کمزور ہیں طاقتوروں کا کمال ہے کہ وہ نہیں ڈرتے کل سے۔
کل کمزور اس کی نظر میں طاقتور اورطاقتور کمزور ہو گا، ایسا پڑھا ہے ہم نے کتابوں میں اور دل جان قرآن میں۔