کراچی میں ناگہانی حادثات اور امدادی ادارے
اس وقت کراچی کی اصل آبادی کیا ہے کسی کوکچھ پتہ نہیں
محکمہ فائر بریگیڈ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق سال 2016ء میں شہرکراچی میں صدر فائر اسٹیشن کی حدود میں سب سے زیادہ اور ماڑی پور فائر اسٹیشن کی حدود میں سب سے کم آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوئے، جنوری 301، فروری424، مارچ 373، اپریل 374، مئی 427، جون 327، جولائی 266، اگست 264، اکتوبر 329، نومبر میں 426 واقعات ہوئے۔ اس طرح سال 2016ء میں شہر کراچی میں 3 ہزار سات سو 66 آتشزدگی کے واقعات ہوئے۔
محکمہ فائربریگیڈ اور ریسکیو یونٹ نہ صرف آگ لگنے کی صورت میں شہریوں کی املاک اور جان و مال کو بچانے کے لیے مستعدی سے خدمات انجام دیتا ہے بلکہ قدرتی آ فات و حادثات میں بھی محکمہ فائر بریگیڈ شہریوں کی خدمت میں مصروف رہتا ہے لیکن شہرکراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں ایک مایوس کن صورت حال سامنے آتی ہے۔ آیئے! اس بابت طائرانہ جائزہ لیتے ہیں کہ معاملہ کیا ہے۔
اس وقت کراچی کی اصل آبادی کیا ہے کسی کوکچھ پتہ نہیں، صرف اندازے بیان کیے جاتے ہیں، کوئی ایک کروڑ کہتا ہے، کوئی ڈیڑھ کروڑ توکوئی دوکروڑ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ اس وقت کراچی ہی اصل پاکستان ہے یعنی ملک بھرکی آبادی کا رخ کراچی ہی کی طرف ہے۔ اسی بڑھتی ہوئی آبادی نے کراچی میں مسائل کے انبارکھڑے کر دیے ہیں۔
ان ہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ( آگ ) ہے ہر روز کراچی کے کسی نہ کسی کونے میں لگ جاتی ہے یا کہ لگائی جاتی ہے یہ الگ بحث ہے۔ البتہ مذکورہ بالا رپورٹ کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت کراچی ناگہانی آتشزدگی کے نرغے میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان دنوں حکومت اور بلدیہ عظمیٰ کراچی کے اعلیٰ حکام کی غفلت کے باعث محکمہ فائر بریگیڈز زبوں حالی کا شکار ہے، کراچی کی موجودہ آبادی کے پیش نظر محکمہ فائربریگیڈ آگ بجھا والی گاڑیوں، فائر بریگیڈ اسٹیشنز اور فائرفائٹرزکی کمی کا شکار ہے، انتظامیہ کی خلاف ضابطہ ٹینڈر کاروائی کے باعث ساڑھے تین ارب روپے سے کراچی و اندرون سندھ کے لیے 186 فائر ٹینڈرز کا معاملہ عدالت میں زیر التواء ہے۔
میڈیا اطلاعات کے مطابق سپریم کورٹ نے ساڑھے تین ارب روپے کی لاگت سے کراچی اور اندرون سندھ میں آگ بجھا نے والی گاڑیوں کی خریداری کے لیے حکم امتناع جاری کر رکھا ہے۔ درخواست میں الزام ہے کہ صوبائی حکومت نے مختلف اضلاع کے لیے 186 فائرٹینڈرزکی خریداری کے لیے سندھ پبلک پروکیورمنٹ رولز 2010ء کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹینڈر طلب کیے، نہ توا خبار میں اشتہار دیا گیا اور نہ ہی اوپن مارکیٹ میں ٹینڈرطلب کیے، سپریم کورٹ میں دائر پٹیشن میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے بڑے پیمانے پرکرپشن کی منصوبہ بندی کی ہے جس کے تحت خریدی جانے والی فائرٹینڈرکی لاگت 2 کروڑ 40 لاکھ روپے لگائی گئی ہے جب کہ یہ ہی گاڑی 2 سال قبل کراچی پورٹ ٹرسٹ نے صرف ایک کروڑ 80 لاکھ روپے میں خریدی تھی۔
ذرایع کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے محکمہ فائر بریگیڈ کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ تجربہ کار ملازمین کا دوسرے محکموں میں تباد لہ، کنٹریکٹ پر رکھے گئے ماہر ڈرائیورز اور دیگر ریسکیو ورکرز کی مدت ملازمت میں توسیع نہ کرنا، 300 سے زائد گھوسٹ ملازمین، اقربا پروری، خلاف ضابطہ تقرریاں و ترقیاں، ذیلی اداروں کی بندش، ڈیزل چوری، بوگس ادائیگیاں، مواصلاتی نظام کی عدم موجودگی، اسنارکل سمیت اہم گاڑیوں کی خرابی یا غیر فعالیت اور دیگر وجوہات کے باعث محکمہ فائر بریگیڈ شہر کراچی میں بر وقت آگ بجھانے کے قابل نہیں رہا، رپورٹ کے مطابق اس وقت شہرکراچی میں 22 فائر اسٹیشن ہیں، محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس 46 فائرٹینڈر، 3 اسنارکل،2 ریسکیو وین، ایک ریڈیوموبائل، ایک کمانڈ وہیکل، ایک بریک ڈاون، دس ہزار گیلن پانی کے چار باوزر اور پانی کے دو چھوٹے ٹینکرز موجود ہیں، جب کہ بین الاقوامی معیار کے مطا بق ایک لاکھ کی آبادی کے لیے ایک فائر ٹینڈر ہونا چاہیے۔
اس طرح کراچی میں 250 فائر ٹینڈرز اور 18 اسنارکل ہونے چاہیے۔ 46 فائر ٹینڈر میں سے آتشزدگی کے موقعے پر صرف 22 گاڑیوں کو استعمال میں لایا جاتا ہے۔ کراچی میں اس وقت صرف تین اسنارکل ہیں، دو اسنارکل 2007ء میں فن لینڈ سے 13 کروڑ روپے میں درآمد کی گئی تھیں تاہم شہر کے ماحولیات سے موافق نہ ہونے کے باعث شروع سے ہی مسائل پیدا کر رہی ہیں، محکمہ فائر بریگیڈ کے پاس تاریخی ریڈیو موبائل ہے جس نے 1974ء میں ہونے والی اسلامی کانفرنس کی نگرانی کی تھی تاہم اس وقت تمام ضروری آلات سے محروم ہے۔
ایک عرصے سے اہل کراچی یہی سنتے آ رہے ہیں کہ قدرتی آفات سے بچاؤکے اقدامات کو بہتر کیا جا رہا ہے، اداروں میں ضروری میشنری اور تربیتی وسائل کی کمی پوری کی جا رہی ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب ناگہانی آفت آتی ہے تو معاملہ جوں کا توں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے ناگہانی حادثات کے تناظر میں اہل کراچی کسی بھی وقت اچانک ہونے والے حادثے کے لیے تیار رہتے ہیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکومتی اہلکار اور ذمے داران اس جانب سے نظریں چراتے ہوئے ٹھوس احتیاطی تدابیر اختیارکرنے اورجامع منصوبہ بندی سے گریزاں رہے ہیں۔
ہمارے یہاں کسی بھی بڑے حادثے کی صورت میں افراتفری اور انتہائی ناقص کارکردگی دیکھنے میں آتی ہے جس نے اس تاثر کو یقین میں بدل دیا ہے کہ سرکاری سطح پر کوئی بھی ایسا ادارہ نظر نہیں آتا جس کی ذمے داری ہنگامی صورت حال سے نمٹنا ہو۔کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناسب سے جہاں فائر بریگیڈ کی کمی ہے وہاں ایمبولینسوں کی تعداد بھی کم ہے۔ ایک موازنے کے مطابق لندن کی آبادی 80 لاکھ ہے اور وہاں ایمبولینسوں کی تعداد 800 ہے جب کہ کراچی کی آبادی ایک محتاط اندازے کے مطابق ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے اور یہاں سرکاری اور فلاحی اداروں کے تحت چلائی جانے والی ایمبولینسوں کی تعداد 500 سے بھی کم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں جس کا دل چاہتا ہے ایک عام سی سوزوکی گاڑی پر ایمبولینس لکھوا کر اس پر وارننگ لائٹ لگا کر ایمبولینس کا روپ دے دیتا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں بھی ضرورت سے کم ایمبولینسیں ہیں جو زیادہ تر مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور فنڈز کی کمی کی وجہ سے ناکارہ حالت میں ان اسپتالوں کے احاطے میں کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔
مذکورہ بالا تناظر میں شہر کراچی میں ایمبولینس سروس فراہم کرنے کے لیے ایک بہت بڑے ادارے کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے حکومت، نجی ادارے، مخیر حضرات اور فلاحی اداروں کو خاص طور پر آگے آنا چاہیے کیونکہ یہ امدادی شعبہ کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی کے تناظر میں بے حد توجہ کا متقاضی ہے۔