وہ اپنی سلطنت نہ بچا سکا میخائل گورباچوف کے عروج وزوال کی سبق آموز کہانی

اس طرز معیشت میں صنعت، تجارت اور کاروبار کو حکومت کنٹرول کرتی ہے۔


سید عاصم محمود January 03, 2017
کاش پاکستان کا حکمران طبقہ بھی اس داستان سے سبق سیکھ سکے۔ فوٹو : فائل

26 دسمبر 2016ء کو سوویت یونین کے انہدام کی پچیسویں برسی( یا سالگرہ؟ )منائی گئی۔ ماضی کی یہ پُرشکوہ مملکت 26 دسمبر 1991ء کو تاریخ کا حصہ بن گئی تھی۔ سوویت یونین کے مخالفین اس دن کو بطور یومِ مسّرت مناتے جبکہ چاہنے والے غم و افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔وطن عزیز میں خصوصاً دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ افغان جہاد کے باعث ہی سوویت یونین زوال پذیر ہوا۔ ممکن ہے کہ اس امر میں کچھ سچائی ہو، تاہم تاریخ کے اوراق میں بنیادی وجوہ کی نوعیت مختلف درج ہے اور نہایت عجیب و غریب بھی! ان کا مطالعہ ہر باشعور انسان کو حیرت و مخمصے میں ڈال دیتا ہے۔

اس داستان عجب کا آغاز 11 مارچ 1985ء کو ہوا جب میخائل گوبا چوف سوویت یونین پر حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ گویا وہ مملکت کے حکمران بن گئے۔ گوربا چوف کمیونسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے سب سے کم عمر رکن تھے۔ یعنی اب نوجوان قیادت نے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔گوربا چوف ''سینٹرلی پلینڈ اکنامی'' (Centrally Planned Economy) کے مخالف تھے۔

اس طرز معیشت میں صنعت، تجارت اور کاروبار کو حکومت کنٹرول کرتی ہے۔ چناں چہ1986ء میں انہوں نے ''پریسٹوریکا'' پالیسی کا آغاز کیا تاکہ قومی معیشت کو حکومتی گرفت سے آزاد کیا جاسکے۔ مقصد یہ تھا کہ نجی شعبے کے تعاون سے معاشی ترقی شروع ہوسکے۔1987ء سے گوربا چوف ''گلانوسٹ'' پالیسی پر عملدرآمد کرنے لگے۔ اس پالیسی کے تحت میڈیا پر عائد پابندیاں ہٹ گئیں۔ آزادی رائے اور جمہوریت کو فروغ دیا گیا۔سب سے بڑھ کر ملک میں نئی سیاسی جماعتیں قائم کرنے کی اجازت دی گئی۔

مزید براں ایسے اقدامات کیے گئے کہ کمیونسٹ پارٹی کی طاقت اور اثرورسوخ کم ہوسکے۔گویا گوربا چوف نے برسراقتدار آتے ہی معاشی، سیاسی اور معاشرتی سطح پر انقلابی تبدیلیاں متعارف کرائیں اور اندرون و بیرون ملک سبھی کو حیران کر ڈالا۔ان کی پالیسیوں کے باعث مغرب خصوصاً امریکا سے سرد جنگ کا خاتمہ ہوا اور سوویت یونین کے مغربی ممالک سے بھی سفارتی و تجارتی تعلقات استوار ہونے لگے۔

انہی دنوں چین میں بھی ڈینگ زیاؤ پینگ کی زیرِقیادت معاشی انقلاب آرہا تھا۔ چین پہ حکمران کمیونسٹ پارٹی بھی سینٹرلی پلینڈ اکنامی سے چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔ مگر اس کا طریق کار مختلف تھا۔ چینی حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ معیشت کو آزاد کردو اور نجی شعبے کی بھی حوصلہ افزائی کی جائے۔ لیکن معیشت کے بنیادی اوزار حکومت اپنے قبضے ہی میں رکھے۔ مزید براں چینی حکومت کا یہ منصوبہ نہیں تھا کہ ملک میں نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت دی جائے بلکہ وہ کمیونسٹ پارٹی کا اثر و رسوخ اور طاقت بڑھانا چاہتی تھی۔

میخائیل گوربا چوف نے سبھی ممالک سے دوستی کرنے کی پالیسی کے تحت مئی 1989ء میں چین کا دورہ کرنا تھا۔ یہ دورہ کئی ماہ قبل طے پایا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ ماہ اپریل سے بیجنگ کے تیانانمن اسکوائر میں ہزاروں طلبہ جمہوریت کے حق میں مظاہرے کرنے لگے۔ ان طلبہ نے گوربا چوف کی تصویر والے پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے کیونکہ انہیں جمہوریت پسند اور انسانی حقوق کا نام لیوا سمجھا جانے لگا تھا۔

15 مئی کو گوربا چوف چین پہنچے۔ چینی حکومت تشویش میں مبتلا ہوگئی کہ گوربا چوف مظاہرین کے حق میں بیان دے سکتے ہیں۔ اس کے بعد قدرتاً نہ صرف مظاہروں میں مزید چینی باشندے شریک ہوتے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ جاتی۔ تاہم چینی حکومت چاہتے ہوئے بھی مہمان کے اظہار خیال پر قدغن نہیں لگاسکتی تھی۔چینی حکومت کا خدشہ درست ثابت ہوا۔ گورباچوف نے چینی سیاست دانوں، افسر شاہی اور عوام و خواص کے سامنے اپنی پہلی تقریر میں کہا:

''ایک ملک میں معاشی اصلاحات اسی وقت کامیاب ثابت ہوتی ہیں جب مملکت کے سیاسی نظام میں بھی انقلابی تبدیلیاں لائی جائیں۔ اسی لیے سوویت یونین میں بھی سیاسی نظام تبدیل کیا جارہا ہے تاکہ جمہوریت پھل پھول سکے۔ شہریوں کو آزادی رائے ملے اور انسانی حقوق کا تحفظ ہوسکے۔''

اس تقریر کے ذریعے سوویت لیڈر چینی حکومت کو یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ وہ بھی چین میں جمہوریت کو فروغ دینے والی پالیسیاں متعارف کرائے۔ مثلاً نئی سیاسی جماعتوں کے قیام کی اجازت دینا، میڈیا پر کنٹرول نرم کرنا وغیرہ۔ مگر چینی حکومت یہ اقدامات کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی تھی۔

چناں چہ گوربا چوف کی تقریر سرکاری میڈیا پر نشر نہیںہوئی۔دراصل ڈینگ زیاؤ کی قیادت میں چینی حکومت صرف ایسے انقلابی اقدامات اٹھانا چاہتی تھی جن سے قومی معیشت ترقی کرسکے۔ ان اصلاحات کا سارا زور معیشت پر تھا، وہ سیاسی نظام کو ہاتھ بھی نہیں لگانا چاہتی تھی۔ لہٰذا گوربا چوف کی رخصتی کے صرف ایک دن بعد 20 مئی کو چینی حکومت نے شورش زدہ علاقوں میں مارشل لاء لگایا اور ٹینکوں سے لیس فوجیوں نے مظاہرین پر چڑھائی کردی۔ جھڑپوں میں کئی سو طلبہ و شہری مارے گئے۔ مقتولین کی صحیح تعداد نامعلوم ہے۔

یہ یقیناً چینی حکومت کا ناروا اقدام تھا۔ مظاہرین کو بذریعہ مذاکرات بھی منشتر کرنا ممکن تھا۔ لیکن یہ عجیب معاملہ ہے ، اس کے بعد پورے چین میں یک جماعتی حکومت مضبوط و مستحکم ہوگئی۔ حکومت نے پھر معاشی اصلاحات کے لیے اپنے پروگرام پر شدومد سے عمل جاری رکھا اور نتائج دنیا والوں کے سامنے ہیں۔ آج چین معاشی و عسکری طور پر سپرپاور بن چکا۔ سیاسی نظام میں سقم موجود ہیں۔ تاہم مجموعی طور پر چین کی معاشی،سیاسی و معاشرتی زندگی ہموار طریقے سے چل رہی ہے۔

اُدھر سوویت یونین میں بھی عجب واقعات نے جنم لیا۔ عقل سلیم کہتی ہے کہ معاشی اصلاحات اور جمہوریت اپنالینے کے بعد سوویت یونین کو ترقی کرنا چاہیے تھی مگر وہاں قومی معیشت مزید بگڑگئی۔ اشیائے خورونوش کی قلت رہنے لگی اور کئی کارخانے بند ہوگئے۔ مورخین اس معاشی ابتری کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ جب کمیونسٹ پارٹی کی قوت کم ہوئی، تو گورباچوف انتظامیہ سے اپنے اصلاحی پروگرام پر صحیح طرح عمل درآمد نہیں کرا سکے۔ بڑھتے قرضوں سے نجات پانے کی خاطر دھڑا دھڑ روبل چھاپے جانے لگے۔ اس امر نے ملک میں افراط زر بے تحاشا بڑھا دیا۔ نتیجتاً سوویت معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔

آخر 24 دسمبر 1991ء کو میخائیل گوربا چوف نے استعفیٰ دے دیا اور صرف ایک دن بعد سوویت یونین تحلیل ہوگیا۔ روس میں آج بھی عوام و خواص کی اکثریت گوبا چوف کو سوویت یونین کے خاتمے کا ذمے دار سمجھتی ہے۔ان کا کہنا ہے، وہ بھی چینی حکومت کی طرح صرف معیشت سدھارنے کے اقدامات کرتے تو شاید اپنے بے پناہ قدرتی وسائل کی وجہ سے سوویت یونین کا وجود برقرار رہتا۔ مگر مملکت کے سیاسی نظام کی چولیں ہلاکر گوربا چوف نے تباہی و بربادی کو خود دعوت دے ڈالی۔بورس یلسن روس کے نئے حکمران منتخب ہوئے تاہم وہ بھی معیشت نہ سدھار سکے۔

بلکہ اس جمہوریت پسند صدر کے دور میں روس کرپشن و فراڈ کا گڑھ بن گیا۔ آخر صدر پیوٹن نے ملک میں قانون کی رٹ بحال کی اور معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کیا۔ دلچسپ بات یہ کہ کامیابی اسی وقت ملی جب روس میں یک جماعتی حکومت مضبوط ہوگئی۔ صدر پیوٹن سولہ برس سے آہنی گرفت کے ساتھ روس پر حکومت کررہے ہیں۔ مخالفین ان پر ڈکٹیٹر ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔ تاہم حمایتیوں کا کہنا ہے کہ ولادیمر پیوٹن کے یک جماعتی دور کی بدولت ہی روس دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا ہوا اور اب ایک اہم عالمی طاقت بن چکا۔

سوویت یونین کی داستان ِزوال ہمیں سبق دیتی ہے کہ ایک ملک میں مضبوط ومستحکم حکومت کی موجودگی بہت ضروری ہے۔ تب چاہے طرز حکمرانی جمہوری ہو،سوشلسٹ یا مذہبی، اگر حکمران تدبر و عقل مندی سے پالیسیاں بنائیں، تو ملک معاشی طور پر ترقی یافتہ و خوشحال ہوجاتا ہے۔ اور جب معیشت طاقتور ہو، تو ملک خود بخود معاشرتی و عسکری طور پر بھی مضبوط بن سکتا ہے۔ کاش پاکستان کا حکمران طبقہ بھی اس داستان سے سبق سیکھ سکے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں