پاک و ہند کی معاشی حقیقت
موجودہ پاکستانی حکومت نے قرضوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔۔۔
دنیا میں افریقہ کے چند ممالک چاڈ، صحرائے اعظم، مالی، اریٹریا، ایتھوپیا، صومالیہ، سوڈان، تنزانیہ، نائیجیریا اور موریطانیہ کے بعد زیادہ غربت برصغیر خاص کر پاک و ہند میں پلتی ہے۔ یہاں 80 فیصد لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں اور ان کے پاس سینیٹری کا انتظام نہیں ہے۔ ایک لاکھ میں سے ساڑھے چار سو خواتین زچگی کے دوران جان سے جاتی ہیں، جن کی عمریں سترہ سے چونتیس سال کی ہوتی ہے۔ یہاں اڑتیس کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔ معقول اور بروقت علاج صرف پانچ فیصد لوگوں کو میسر ہے، جب کہ اسی خطے میں اربوں نہیں بلکہ کھربوں روپے میزائل، بم، ٹینک، توپ، راکٹ، مشین گنوں، لڑاکا طیاروں، سب میرینوں اور بارود پر خرچ کردیے جاتے ہیں۔
موجودہ پاکستانی حکومت نے قرضوں کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں مسلم لیگ ن کی حکومت نے آٹھ ہزار ارب روپے کے قرضے حاصل کیے ہیں، جس کے بعد ملک پر قرضوں کا مجموعی بوجھ بائیس ہزار ارب روپے سے بڑھ گیا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق 30 ستمبر 2016ء تک مقامی قرضوں کا بوجھ 14787 ارب روپے ہوگیا، جس میں طویل المدتی قرضے 7904 ارب رو پے اور قلیل المدت قرضوں کا حجم 6482 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
اسی طرح 30 جون 2016ء تک غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 7200 ارب رو پے سے بڑھ گیا ہے، جس میں سرکاری قرضوں کا حجم 6200 ارب روپے ہوگیا ہے۔ غیر ملکی مجموعی قرضوں میں غیر ملکی کرنسی، براہ راست سرمایہ کاروں کو قرضے کے واجبات، بینکوں، سرکاری اداروں، نان ایڈیڈنٹ ڈپازٹس کے واجبات بھی شامل ہیں۔ قانون کے مطابق قرضوں کا حجم جی ڈی پی کے 60 فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے مگر اس وقت قرضے جی ڈی پی کے تقریباً 68 فیصد تک پہنچ چکے ہیں، جو فسکل رسپانسیبلٹی اینڈ ڈیٹ لمیٹیشن ایکٹ 2005ء کی خلاف ورزی ہے۔
پاکستان میں 6 کروڑ سے زاید افراد غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ غربت کی وجہ سے جرائم کا تناسب بھی بڑھ گیا ہے، دنیا میں اسلحے کی پیداوار اور تجارت میں پاکستان کا گیارہواں نمبر ہے، جب کہ صحت اور تعلیم میں 180 مما لک میں 132 واں اور 134 واں نمبر ہے۔ یورپی یونین کے مطابق پاکستان میں 44 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ پاکستان میں گندم کی کاشت کا رقبہ دو کروڑ ایکڑ ہے، جسے چار کروڑ ایکڑ تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح فی ایکڑ گندم کی پیداوار اٹھائیس من ہے، جب کہ اس کی 60 سے 70 من فی ایکڑ تک کی پیداواری صلاحیت موجود ہے۔ گندم ہمارے ملک کی بہت ہی اہم غذائی فصل ہے اور یہ بارانی اور پانی والے دونوں علاقوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ اس فصل سے نا صرف ہماری غذائی ضروریات پوری ہوتی ہیں بلکہ اس کا بھوسہ جانوروں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
سوئس بینک کی ایسوسی ایشن نے 2006ء کی رپورٹ میں بتایا ہے کہ سوئس بینک میں دنیا کے امیروں کی جتنی دولت جمع ہے، اس کی کل دولت سے بھی ہندوستان کے امیروں کی دولت زیادہ ہے، جس کی مقدار 1456 ارب ڈالر ہے۔ یہ رقم بھارت کے غیر ملکی قرضے سے 13 گنا زیادہ ہے۔ اس رقم سے بھارت کے 45 کروڑ لوگوں کو فی کس ایک ایک لاکھ روپے دیے جا سکتے ہیں۔ یہ تمام رقم اگر بھارت کو واپس مل جائے تو نہ صرف بھارت کے تمام قرضے اتر جائیں گے بلکہ بھارت کے مجموعی قرضوں سے بارہ گنا زیادہ رقم بچ جائی گی۔
اگر یہ رقم سرمایہ کاری میں لگائی جائے تو اس کا سود مرکزی حکومت کے سالانہ بجٹ سے بھی کہیں زیادہ ہوگا۔ اگر حکومت تمام ٹیکس ختم کردے، اس کے باوجود حکومت کے پاس ٹیکسوں سے زیادہ رقم بچ جائے گی۔ سپریم کورٹ آف انڈیا نے سرکاری تحقیقات پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم بنانے پر زور دیا ہے، جس کی سربراہی سپریم کورٹ کے دو ریٹائرڈ جج کریں گے۔ ہندوستان میں 49 ارب پتی (ڈالروں میں) ہیں، جب کہ اسی ہندوستان میں 34 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں۔
10 ہزار انسان روزانہ صرف تپ دق سے لقمہ اجل بنتے ہیں۔ مودی سرکار ہندو انتہاپسندی کے نعروں پر اقتدار میں آئی ہے، بلکہ حقیقتاً نریندر مودی ہندوستان کے بڑے سرمایہ داروں کا نمایندہ ہے اور خود بھی سرمایہ دار ہے۔4 جولائی 2016ء کو بتایا گیا کہ بھارت کی سویس بینکوں میں رقم رکھنے والا دنیا میں 57 واں ملک ہے جب کہ پاکستان کی پوزیشن اس فہرست میں69 ویں تھی۔ یاد رہے وفاقی وزیر خزانہ اسحاق دار نے اعلان کیا تھا وہ سوئس بینکوں میں چھپائے گئے پاکستانیوں کے 200 ارب ڈالر وطن لائیں گے۔ وہ وعدے کیا ہوئے؟
پاک و ہند میں جتنی زرعی اجناس کی پیداوار ہوتی ہے، معدنیات کے ذخائر اور دیگر قدرتی وسائل ہیں، اسے اگر عوام میں برابری کی بنیاد پر تقسیم کر دیا جائے تو یہ دنیا بھر کے عوام کا پیٹ بھر سکتے ہیں۔ مگر ایسا کیوں کریں؟ سرمایہ داری نام ہی ہے قدر زائد کو ہڑپ کرنے کا۔ اگر سرمایہ دار، پیداواری قوتیں، شہریوں اور محنت کشوں کا استحصال نہ کرتے تو کیوں کر یہ طبقاتی خلیج برقرار رہتی۔ اس طبقاتی نظام کو ختم کیے بغیر عوام کے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے عوام کے مسائل کا واحد حل ایک امداد باہمی کے آزاد معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔
ریاستی آلات کو استعمال کر کے درجنوں ملکوں میں اشتراکیت قائم کر کے دیکھ لی، کہیں بھی اشتراکیت برقرار نہ رہ سکی۔ اس لیے کہ انقلاب کے بعد اقتدار عوام کے حوالے کرنے کے بجائے کارکنان کے حوالے کر دیا گیا۔ ریاست خود ایک جبر کا ادارہ ہے اور اس کے چار ذیلی ادارے ہیں، اسمبلی، محافظ، ابلاغ اور عدلیہ۔ اگر انقلاب کے بعد روس، چین، مشرقی یورپ اور دیگر اشتراکی ممالک ریاست کا متبادل تشکیل دیتے اور اشتمالی نظام یعنی اسٹیٹ لیس سوسائٹی کی جانب پیشرفت کر دیتے تو اشتراکی انقلاب، ردِ انقلاب یعنی سرمایہ داری کی جانب نہیں پلٹتا۔ چونکہ اشتراکی ریاست ایک مطلق ریاست ہی ہوتی ہے، اس لیے یہاں طبقات بھی موجود ہوتے ہیں اور بعد ازاں یہی خلیج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رد انقلاب کے لیے بورژوازی کو موقع ملتا ہے۔
آخر کار دنیا میں کہیں بھی اشتراکی ریاست قائم نہیں رہی۔ جب روس سے چین تک، جرمنی سے بلغاریہ تک سب اشتراکی ریاستیں وجود میں آ چکی تھیں تو پھر سرحدوں کی کیا ضرورت تھی۔ ریاستی سرحدوں کو ختم کرکے اسٹیٹ لیس سوسائٹی تشکیل دی جاسکتی تھی اور ریاست کا متبادل خود انحصار اور خودمختار مقامی عوامی کمیٹیاں بنائی جاسکتی تھیں، جو ریاست کی جگہ آزادی سے کام کرتیں۔ جن ملکوں میں اشتمالیت کی ذرا سی جھلک دکھائی گئی وہاں عوام کو جو فائدہ ہوا، اس کی مثال آج تک دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ مثال کے طور پر ان اشتراکی ممالک میں بھوک، افلاس، ناخواندگی، بیماری، گداگری، خودکشی، عصمت فروشی اور منشیات نوشی کا نام و نشان ختم ہو گیا تھا۔ صنعتی اور زرعی پیداوار کی شرح نمو میں جرمنی، جاپان، برطانیہ اور امریکا سے اشتراکی ممالک آگے نکل گئے تھے۔