مشرقی پاکستان…بنگلہ دیش اَن کہے حقائق
فوجی کریک ڈاؤن سے پہلے شیخ مجیب الرحمن نے فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے اور جنگ آزادی کا آغاز کرنے سے انکار کردیا تھا۔
''بنگلہ دیش کی آزادی کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا''ہم اندھے جذبات میں کھو کر تاریک راہوں میں مارے جائیں گے۔ بنگلہ دیش کی جلاوطن عبوری حکومت کے وزیراعظم تاج الدین احمد، وزیر خارجہ مشتاق احمد خوندکر اور مکتی باہنی کے کمانڈر انچیف کرنل محمدعطاالغنی عثمانی (ایم اے جی عثمانی) سے ملاقات کے بعد ہمارا فطری رد عمل تھا۔
بنگلہ دیش کوہمارے ہاں ممنوعہ موضوع بنا دیا گیا تھا لیکن چار دہائیاں گزرنے کے بعد برف پگھلنا شروع ہوگئی ہے اور اب نت نئے انکشافات پر مبنی یادداشتیں شایع ہورہی ہیں ۔1971ء میں مغربی پاکستان سے متعدد بنگالی افسروں نے پاک بھارت سرحد پر متحارب افواج کی آنکھوں میں دُھول جھونک کر نئی دہلی اور کلکتہ کا سفر بڑی کامیابی سے طے کیا۔ میجر شریف الحق دالیم اُن بنگالی افسروں میں شامل تھے جنہوں نے کامیاب فرار کی روایت قائم کی، وہ اپنے دو ساتھیوں کیپٹن موتی اور لیفٹیننٹ نور کے ہمراہ علم بغاوت بلند کرکے فورٹ عباس سے عالمی سرحد عبور کرکے فرار ہوگئے تھے، پھر اسی شریف الحق دالیم نے 15اگست 1975ء کو بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن کاتختہ اُلٹنے کی کامیاب منصوبہ بندی کی جس کے دوران وہ سارے خاندان سمیت مارے گئے جس میں اُن کے تینوں بیٹوں سمیت 16قریبی عزیز شامل تھے۔ اُن کی داستان حیات''بنگلہ دیش۔۔۔اَن کہے حقائق''پاکستان سے بغاوت اور بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے تاحال پوشید ہ گوشوں سے پردہ اُٹھاتی ہے۔ میجر شریف الحق دالیم نے واقعات بیان کرنے کے ساتھ حالات کا تجزیہ بھی بڑی بے باکی سے کیا ہے ۔ جو چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی خاصے کی چیز ہے۔
''اگر آزادی کی تعبیر ہمارے خوابوں کے مطابق نہ ہوئی تو ایسی آزادی کاکوئی فائدہ نہیں ہوگا'' کیپٹن نور مایوسی،غصے اور کنفیوژن میں بڑبڑائے جارہا تھا۔ میں نے اسے کہا کہ اس وقت خاموشی حکمت کا تقاضا ہے۔ ہم بنگلہ دیش کی آزادی اور اپنے مستقبل کا فیصلہ میدان جنگ میں کریں گے۔ ہمارے خواب تو عوامی لیگ پہلے ہی بھارت کے ہاتھ فروخت کرچکی ہے۔ہمیں بے معنی اور نمائشی آزادی نہیں چاہیے۔نور کو اپنے اوپر قابو نہیں تھا۔ میجر دالیم لکھتے ہیں کہ ''میں نے بڑی مشکل سے سمجھا بجھا کر نور کو ٹھنڈا کیا ۔مایوسی گناہ ہے۔ ہم اپنے مقدر کا خود فیصلہ کریں گے۔ بس میدان جنگ پہنچنے تک صبر کرو''۔ موتی بھی نور کو سمجھا رہا تھا۔
''اَن کہے حقائق'' کے مصنف نے صرف زوایہ نگاہ کی تبد یلی سے حالات کی ایسی منظر کشی کی جو پہلی بار منظر عام پر آرہی ہے۔ عوامی لیگ کی جلاوطن سیاسی قیادت اور ان کے بھارتی سرپرست مکتی باہنی کے گوریلوں کو اول تا آخر شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ عام تاثر یہ تھا کہ پاکستانی فوج کا حصہ رہنے والے، ان تمام بھگوڑے افسروں کو اقتدار کی چاٹ لگ چکی ہے ۔وقت نے ان خدشات کو سچ ثابت کیا اور انھی جذباتی نوجوانوں کے ہاتھوں شیخ مجیب الرحمن خاندان سمیت قتل ہوئے۔
بھارت کے لیے بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کے دوران مقامی انتہا پسند گروپوں کا مکتی باہنی کے عناصر سے تال میل اور روابط سب سے بڑا درد سر تھا۔کلکتہ ، جس کو بنگلہ دیش کی آزادی کا بیس کیمپ بنایا گیا تھا ، نکسل باڑی انقلابیوں کے گھیرے میں تھا۔ مغربی بنگال، بہار ،اڑیسہ، آسام، میگیالہ، تری پورہ، منی پوراور میزورام میںنکسل باڑی تحریک پھیل رہی تھی۔ ایسے حالات میں بنگلہ دیش کی تحریک آزادی اور مکتی باہنی کو نکسل باڑیوں کے اثرات سے محفوظ کرنا سب سے بڑا چیلنج تھا۔ جس سے بھارتی حکام بڑی حکمت سے عہدہ برا ہوئے لیکن مشرقی پاکستان میں علیحدگی کے شعلے بھڑکانے والے بھارتی فوجی افسرحر یتِ فکر کے اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکے۔ اُن میں سے ایک بریگیڈئیر شاہ بیگ سنگھ نے مدتوں بعد گولڈن ٹیمپل میں سنت جرنیل سنگھ بھنڈرانوالہ کے ساتھ جان دی۔
ہمارے ہاں جن جذباتی مورخوں نے مشرقی پاکستان اور بنگلہ دیش کے حوالے سے قابلِ قدرتصانیفات کیں ہیں، ان میں بیک جنبش قلم مغربی پاکستان کی اشرافیہ کی حماقتوں اور تکبر کے ردعمل میں آزادی کے لیے برسرپیکارتمام بنگالیوں کوبھارت کا ایجنٹ قرار دے کر خس کم، جہاں پاک، والا فارمولا استعمال کرکے معاملہ نمٹادیا ہے لیکن ''اَن کہے حقائق'' میں تصویر کا دوسرا رُخ بھی دکھا گیا ہے۔میجر شریف الحق دالیم بتاتے ہیں کہ مکتی باہنی کا توڑ کرنے کے لیے جلاوطن بنگلہ دیشی حکومت اور بھارتی حکام نے مشترکہ حکمت عملی کے تحت ''بنگلہ دیش لبریشن فرنٹ'' (BLF)کے نام سے ایک نئی تنظیم کھڑی کی۔ جس کا مکتی باہنی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا۔ BLF کی تربیت بھارتی ماہرین کرتے تھے ۔
ہم تو مادر وطن کو آزاد کرانے کے لیے جاں ہتھیلی پر رکھ کر کوئٹہ سے کلکتہ پہنچے تھے ۔یہاں بنگلہ دیش کو آزادی سے پہلے ہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی منصوبہ بندیاں ہورہی تھیں۔ چانکیہ کے فرزند تمام بنگالی عناصر پر مشتمل وسیع البنیاد قومی جلاوطنی حکومت تشکیل دینے کے بجائے صرف عوامی لیگ کے خود غرض رہنمائوں پر مشتمل حکومت بنا کر اپنے مذموم عزائم کی بنیادیں استوار کرچکے تھے۔ تاکہ کمزور بنیادوں پر ملنے والی آزادی کو غلام بنانے کے لیے زیادہ تگ و دو نہ کرنی پڑے۔میجرشریف الحق دالیم بتاتے ہیں کہ ہم نے شعوری فیصلہ کرلیا کہ ایسی کسی سازش کا حصہ نہیں بنیں گے اور تمام سازشوں کوناکام بنانے کے لیے اپنے ہم خیال تلاش کریں گے۔ ظاہر ہے کہ بھارتی سرزمین پر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ ہمیں صرف میدان جنگ پہنچنے کا انتظار کرنا تھا۔ مجیب نگر ہماری منزل تھا۔ جس کا راستہ، ایسے حالات میں کچھ آسان نہیں تھا۔ اقوام عالم کی آزادی کی تحاریک ہمارے سامنے تھیں، چین، ویت نام اور الجزائر کی جنگ آزادی کی شمعیں ہمارے ذہن و قلب کو گرماتی تھیں ۔ ہم بھی بھکاری بن کر نہیں ، خون پسینہ بہاکر منزل حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ہم تینوں نے حلف اُٹھایا کہ ہم کسی تنازعے میں نہیں پڑیں گے اور بنگال کی آزاد سرزمین پر مجیب نگر پہنچ کر اگلا قدم اُٹھائیں گے۔
مکتی باہنی کے کمانڈر انچیف محمد عطاالغنی (جی اے ایم عثمانی)پاکستان آرمی کے جوانوں میں مشہورومعروف ''ٹائیگر پاپا''پاک فوج کی مایہ ناز ایسٹ بنگال رجمنٹ کے بانی کمانڈر جلاوطن حکومت کی سیاسی قیادت اور بھارتی ماہرین کے لیے درد سر بنے ہوئے تھے ۔ انھوں نے8 جولائی 1971کو عبوری کابینہ کے اجلاس میں یہ کہہ کر استعفیٰ دے دیا تھا''اگر یہ بھارت کی جنگ ہے اور ہم دارالحکومت اسلام آباد سے دہلی لانے کے لیے ہندوئوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں تو میں اس کے لیے تیار نہیں ہوں'' کرنل عثمانی نے ہمیں بتایا کہ موجودہ جنگ آزادی کا شیخ مجیب اورعوامی لیگ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ 25اور 26مارچ کی آدھی رات فوجی کریک ڈائون سے پہلے شیخ مجیب الرحمن نے فوج کے خلاف ہتھیار اُٹھانے اور جنگ آزادی کا آغاز کرنے سے صاف انکار کردیا تھا کہ مجیب صرف پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتا تھا۔۔۔کرنل عثمانی بتا رہے تھے کہ جنگ آزادی کااعلان چٹاگانگ ریڈیو سے میجر ضیاء الرحمن نے کیا تھا (سابق وزیراعظم خالدہ ضیاء کے شوہر، جو بعد میں بنگلہ دیش کے صدر بنے اور اقتدار کے کھیل میں مارے گئے)
کرنل عثمانی طویل گوریلا جنگ کے بعد بھارتی فوج کی مداخلت کے بغیر آزادی کی جنگ جیتنا چاہتے تھے ۔ کرنل عثمانی 1965کی جنگ میں لاہور کا دفاع کرکے جدید جنگی تاریخ میں نئے معرکے درج کراچکے تھے ۔ اسی بناء پر 16دسمبر1971کو جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ مشرقی محاذ پر اپنے مختلف کمانڈروں کو اکٹھاکرتے دو گھنٹے تاخیر سے 9ہیلی کاپٹروں کے قافلے کے ساتھ ڈھاکہ پہنچے تھے لیکن اس تقریب کے اصل میزبان کرنل عثمانی کو تقریب فتح سے دانستہ دور رکھا گیا۔ جب کہ ہماری ذلت کا تماشا دکھانے کے لیے جنرل مانک شا نے جنرل اروڑہ کی اہلیہ بھینی اروڑہ کو خصو صی طور پر ڈھاکہ بھجوایا تھا۔
1965میں لاہور کا دفاع کرنے والے ایسٹ بنگال رائفلز کے شہداء سینئر ٹائیگرز کی یاد گار آج بھی ہمیں متحدہ پاکستان کے دنوں کی یاد دلاتی ہے جو ہماری بداعمالیوں اور اجتماعی گناہوں کی نذر ہوگئے۔متحدہ پاکستان کے غدار مکتی باہنی ''سپاہِ آزادی ''کے بنگالی گوریلے تھے یا مغربی پاکستان کی سیاسی اور فوجی اشرافیہ ، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی لیکن اَن کہے حقائق وقت کی گرد اور دُھول کی نظر ہونے کے بجائے چھن چھن کر ہمارا منہ چڑارہے ہیں۔
لاہور کا دفاع کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کرنے والے بنگالی سینئر ٹائیگرز کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آغاشورش کشمیری نے کہا تھا ۔
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
یہ دلاور سرزمین پاک کے دم ساز ہیں
ان کے سینوں میں دھڑکتا ہے محمدﷺکا کلام
مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام
گذشتہ سے پیوستہ ۔۔۔۔۔۔جنرل نیازی نے ذاتی ریوالور کے بجائے ملٹری پولیس کے سپاہی کا ریوالور ہتھیار ڈالنے کی تقریب میں جنرل اروڑہ کو پیش کیا تھا جس کے بارے میں جنرل جیکب نے لکھا ''میں نے اگلے دن جب جنرل نیازی کے ریوالور کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ یہ ریوالور کسی جرنیل کا نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی نالی کو مدتوں سے صاف نہیں کیا گیا تھا۔ اس میں جالے لگے ہوئے تھے اور زنگ آلودتھی، اسی طرح اس کی آرائشی ڈوربھی گندی اور ادھیڑی ہوئی تھی ۔دراصل جنرل نیازی نے اپنا ذاتی ریوالور بچاتے ہوئے ہماری آنکھوں میں دُھول جھونک کر ملٹری پولیس کے سپاہی کا ریوالور جنرل اروڑہ کے سامنے سرنڈر کردیا تھا ۔ مجھے جنرل نیازی کی اس عجیب وغریب منطق کی سمجھ نہیں آسکی۔یہ صرف جنرل نیازی کے لیے ذہنی اطمینان کا پہلو ہو سکتا تھا''۔