سرمایہ داری کا مطلب بے روزگاری
وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ عوام کا سمندر ظلم پرستی کو اکھاڑ پھینکے گا اور تمام انسان ایک برادری میں ڈھل جائیں گے۔
ہماری معیشت، سیاست اور معاشرت تباہی کی جانب گامزن ہے۔ دنیا کے چند کرپٹ اور تباہ حال ملکوں میں سے ایک ہمارا وطن پاکستان بھی ہے۔ ایک جانب دولت کا پہاڑ تو دوسری جانب غربت کا سمندر ہے۔ ماں کے پیٹ سے کوئی بھی برائیاں لے کر پیدا نہیں ہوتا۔ جب بے روزگاری میں اضافہ ہوتا ہے تو جان ہتھیلی پر رکھ کر ڈاکو بن جاتا ہے، مایوس لوگ منشیات کے عادی ہوجاتے ہیں، جسم فروشی عام ہو جاتی ہے، کچھ بھوک سے تنگ آکر خودکشی کرلیتے ہیں، کچھ لوگ اپنے آپ کو زندہ رکھنے کے لیے گداگر بن جاتے ہیں۔
2012 میں اب تک صرف کراچی میں 4 ہزار 843 گاڑیاں اور 20 ہزار 655 موٹرسائیکلیں چھینی گئیں۔ 125 پولیس اہلکاروں سمیت 2 ہزار 210 معصوم لوگ قتل کیے جاچکے ہیں۔ کراچی میں چند ہزار کے عوض کرائے کے نو عمر قاتل دستیاب ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پہلے کئی سال سے دیکھ رہے ہیں کہ وزیرستان، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور قبائلی علاقوں میں دہشت گردوں نے اغوا برائے تاوان کو باقاعدہ ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ جرائم کی رفتار اور شدت کے حوالے سے پنجاب بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ پنجاب پولیس کی ایک رپورٹ کے مطابق اس سال اکتوبر تک مجموعی طور پر 3 لاکھ 39 ہزار 122 مقدمات رجسٹر کیے گئے جن میں قتل کے 5 ہزار 673 ، اقدام قتل کے 6 ہزار720، اغوا کے 13 ہزار 512، اغوا برائے تاوان کے 134 اور ڈکیتیوں کے 15 ہزار 507 واقعات شامل ہیں۔
اور جو مقدمات رجسٹر نہیں ہوسکے ہوں گے ان کی تعداد بھی اس کے لگ بھگ ہی ہوگی۔ تمام تر دعوؤں کے باوجود ان جرائم کی شرح میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اب اس نظام کی حدود و قیود میں ان کو روکا نہیں جاسکتا۔ بنیاد پرستی اور دہشت گردی کو بھی اس کالے دھن نے ایک صنعت کا درجہ دے دیا ہے۔ ملاؤں اور بنیاد پرستوں کی سرپرستی اور نگہداشت اسی کالے دھن کی مرہون منت ہے۔ نہ صرف مدرسے اور مساجد کی بڑی تعداد بلکہ اب تو ان کے ٹی وی چینلز بھی نا معلوم کس قسم کی کمائی سے چلائے جاتے ہیں۔ پھر اس میں سامراجی اور علاقائی قوتوں کی مداخلت اور ان کے ٹاؤٹ ریاستی گماشتوں کی کمیشن خوری نے فرقہ واریت اور جنونیت میں ہزاروں بے گناہ اور معصوموں کے قتل کو ایک سود بخش تجارت میں بدل دیا ہے۔
اسے روکنے کے لیے بھی اس کالے دھن کی ضبطگی کے علاوہ اور کوئی حل قابل عمل نہیں ہے۔ حکمران طبقے کی پکڑ جتنی کمزور ہوتی جارہی ہے اسی تناسب سے قومی اشتعال بڑھ رہا ہے۔ بلوچستان کے بعد اب سندھ میں بھی انتشار اور خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ کسی بھی قسم کے سیاسی عمل کا گلا گھونٹ کر محنت کش طبقے کو تحریکوں اور بغاوتوں سے کنارہ کش کردیا جائے۔ بلدیاتی حکم نامے کے بعد اب ایک بار پھر کالا باغ ڈیم کا نان ایشو قوم پرستوں کو پلیٹ میں رکھ کر دیا گیا ہے تاکہ وہ اس کے گرد تھوڑی بہت سماجی حمایت حاصل کرسکیں اور پھر اسے سیاست کی منڈی میں فروخت کیا جاسکے۔
عام انتخابات کی تیاری اور رکاوٹیں شروع ہوچکی ہیں اس لیے بھی کہ اسٹیبلشمنٹ میں ابھی تک کوئی واضح مفاہمت نہیں ہوپائی بلکہ ریاستی اداروں کے مابین اور ان کے اپنے اندر نئے حکومتی سیٹ اپ کے حوالے سے تضادات بڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی مفاہمت پر مبنی امریکا نواز حکومت اگرچہ ڈانواں ڈول ہے مگر ابھی تک امریکا اور ریاستی اداروں کے پاس کوئی سنجیدہ متبادل بھی نہیں بن پایا۔ ایک نئی نئی مقبول ہونے والی سیاسی جماعت کی تاحال ریاستی پشت پناہی جاری ہے اور اس کی مہم پر بہت پیسے خرچ کیے جارہے ہیں مگر خود حکومتی اور غیر حکومتی ذرایع کے سروے کے مطابق اب اس کی مقبولیت کا گراف مسلسل نیچے آنا شروع ہوگیا ہے۔
ریاستی خلفشار کے پیش نظر کچھ لوگ یہ پیش گوئی بھی کر رہے ہیں کہ شاید امن عامہ کی خستہ صورت حال کے پیش نظر انتخابات معینہ وقت پر نہ ہوسکیں۔ شاید یہ بات کسی حد تک درست بھی ہو کہ جو قوتیں آیندہ حکومتی سیٹ اپ کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں، وہ شعوری طور پر ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور کریں گی کہ انتخابات اس وقت تک نہ ہوں جب تک انھیں ان کی بقا اور حصے داری کی مکمل ضمانت نہیں مل جاتی۔ اسٹبلشمنٹ کی بالادست قوت چونکہ براہ راست اقتدار میں آنے کے لیے درکار حمایت حاصل کرنے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکی،تاہم وہ بھی نیا حکومتی سیٹ اپ بنانے کے لیے سرگرم بتائی جاتی ہے۔ امریکا کے ساتھ تعلقات اگرچہ معمول پر نہیں آپائے مگر نئے حکومتی سیٹ اپ کی تشکیل کے لیے مقتدر قوتوں اور امریکا میں ایک مشروط قسم کا معاہدہ ہونا ناگزیر ہے۔
اس نظام میں امریکی آشیرواد کے بغیر نہ تو یہاں کوئی حکومت بنائی جاسکتی ہے اور نہ لمبے عرصے تک چلائی جاسکتی ہے۔ وزیرستان آپریشن کے گرد بھی بحث و مباحثہ آج کل ٹھنڈا پڑ رہا ہے اور امریکا بھی حقانی نیٹ ورک سمیت دیگر تمام طالبان دھڑوں کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے اور حامد کرزئی سے کروا رہا ہے۔ ادھر افغانستان اور پاکستان میں بھی طالبان کمانڈروں کا لین دین جاری ہے۔ اس کا براہ راست تعلق خطے میں مسلسل بدلتے ہوئے طاقتوں کے توازن سے ہے۔ پشتونخوا اور بلوچستان کے بعد اب کراچی میں بھی طالبان کا مصنوعی واویلا باآسانی سنا جاسکتا ہے۔ انتخابات کا معمہ حل ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ریاست بالخصوص کراچی کے حوالے سے کچھ سنجیدہ اقدامات کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
ریاست کے اندر ریاستی سرپرستی میں ہی ایک نیم ریاست کے طور پر ایم کیو ایم کا کردار اب کچھ ریاستی دھڑوں کے لیے قابل قبول نہیں رہا۔ لیکن تضاد یہ ہے کہ ریاست اور ایم کیو ایم کو اپنے اپنے بحران کی وجہ سے ایک دوسرے کی پہلے سے کئی گنا زیادہ ضرورت بھی ہے۔ نئی حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی جانچ پڑتال کے عدالتی احکامات کے ذریعے ایم کیو ایم کی سیاسی قوت کو محدود کرکے انھیں کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن ابھی تک ایم کیو ایم اس حوالے سے مزاحمت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، حقیقت میں ایم کیو ایم میں مزاحمت اور ادھر ریاست میں کوئی سنجیدہ آپریشن کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اپنی کھوئی طاقت کو پرزور بنانے کے لیے طاہر القادری سے اتحاد کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں۔
لوگ اس قلابازی پر فیس بک سمیت دیگر سوشل میڈیا پر خوب ہنس رہے ہیں۔بنا بریں ریاست اپنی کمزوری کی وجہ سے پھر پیچھے ہٹ سکتی ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو ان سیاسی قوتوں کے کارکنوں کو ایم کیو ایم کی جارحیت کے انتقام کا نشانہ بننا پڑے گا جو آج ریاستی آشیرواد میں آپے سے باہر ہوئے جا رہی ہیں۔ اس لیے خاموش قوتیں تمام فریقین کے لیے قابل قبول اور آبرومندانہ مصالحت کروانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ پیپلزپارٹی بھی ایک پینڈولم کی طرح ادھر سے ادھر جھول رہی ہے۔
ایک طرف پارٹی کے اندر مفاہمت کی پالیسی کے خلاف غم و غصہ پایا جاتا ہے، جس کا اظہار پنجاب کے کارکنوں نے ضمنی انتخابات میں ق لیگ کو ووٹ نہ دے کر بھی کیا ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی ایم کیو ایم کے ساتھ سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی پر دباؤ بڑھا رہی ہے۔ اگر اس کے باوجود پیپلزپارٹی کے دائیں بازو کے رجعتی دھڑے اور ن لیگ کے نئے مفاہمتی ایجنڈے سے خوفزدہ ہوکر ایم کیو ایم سے سیٹ ٹو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کی کوشش کرتی ہے تو باقی سارے نسلی، علاقائی اور فرقہ پرور گروہوں کو اکٹھا کرکے بعض ادارے ایک خونی کھیل کھیل سکتے ہیں۔
دوسری طرف ایم کیو ایم جو سپریم کورٹ کے الطاف حسین کو توہین عدالت کے نوٹس اور آج کل عمران فاروق قتل کیس میں لندن میں ہونے والی پیش رفت کے حوالے سے بھی سنجیدہ دباؤ میں ہے اور قیادت کی تبدیلی اور اسی طرح کے دیگر مباحثوں کے تناؤ کی وجہ سے ہیجانی کیفیت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایسی کیفیت میں وہ بھی کسی قسم کی مہم جوئی کی مرتکب ہوسکتی ہے۔ یہ ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں کسی اہم شخصیت کا قتل کروا کر کراچی کے حالات کو اس سطح پر لے جانے کی کوشش کی جائے جس سے انتخابات ناممکن دکھائی دینا شروع ہوجائیں۔
مفاہمت کی جو بھی شکل بنے یہ بات تو طے ہے کہ محنت کش عوام کی انتخابی عمل میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس صورت میں وہ یکسر اس سیاسی اور پارلیمانی انتخابات سے بیزار ہوتے جارہے ہیں۔ اس سرمایہ دارانہ ریاست پر سے عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔ اب وہ وقت بہت جلد آنے والا ہے کہ عوام کا سمندر اس ظلم پرستی کو بھی اکھاڑ پھینکے گا اور تمام انسان ایک برادری میں ڈھل جائیں گے۔ ساری دولت کے مالک سارے عوام ہوں گے۔