شاہ عبداللطیفؒ بھٹائی اور مغربی شاعر
شاہ لطیف نے مومل رانو، سسی پنہوں، عمر ماروی، لیلا چنیسر اور سورٹھ رائے ڈیاچ جیسی رومانوی داستانوں کوموضوع بنایا،
شاہ عبداللطیف بھٹائی سندھ کے منفرد صوفی شاعر ہیں جن کے کلام میں فطرت کی خوبصورتی، دھرتی کی مہک، تصوف کی گہرائی اور محبت جیسے لازوال جذبے کا ذکر بارہا ملتا ہے۔
شاہ عبداللطیف بھٹائی 1689ء میں کھڈیاں نامی گاؤں میں پیدا ہوئے، جو ہالا ڈسٹرکٹ حیدرآباد میں واقع ہے۔ شاہ لطیف، سیاحت اور موسیقی کے دلدادہ تھے۔ خاص طور پر انھوں نے سندھ کے بہت سارے خطے دیکھے، جن میں ہنگلاج، جوناگڑھ، گرنار، جیسلمیر وغیرہ شامل ہیں۔ سفر کے دوران انھوں نے زندگی کو قریب سے دیکھا، لوگوں کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے اور ان کا فکر سماجی شعور سے بہرہ ور ہوا۔ شاہ لطیف تنبورو نامی ساز بجایا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے شعر میں موسیقی کی ترتیب موجود ہے۔ ان کے کلام کو ''شاہ جو رسالو'' میں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ شاہ لطیف نے مختلف عشقیہ داستانوں کو اپنے کلام میں منظم کیا ہے، جن میں عشق مجازی سے عشق حقیقی تک تلاش و جستجو کا طویل راستہ ملتا ہے۔ شاہ لطیف کی شاعری تصوف کے رموز و اسرار کے اردگرد گھومتی ہے۔ وحدت، سمندر کی مانند ہے، جس کے اردگرد کثرت کی لہریں موجزن ہیں۔ وہ ہر چیز کے مقابلے میں خالق کائنات کے قریب ہیں اور یہ کائنات خالق کا پرتو ہے۔ صوفی اپنی ذات کی نفی بار بار کرتا ہے کیونکہ ذات کی محبت دلفریب جال ہے، جس میں الجھ کر انسان کبھی بھی ابدی سچ تک رسائی حاصل نہیں کرسکتا۔
روح انسانی میں جلوہ فرما ہے
پرتو حسن بے مثال اس کا
زندگی مسلسل تبدیلی کی طرف گامزن رہتی ہے، زندگی تازگی سے فنا کی طرف محو سفر ہے۔ ایک پرانی دنیا جہاں چیزیں تھکی ہوئی اور باسی محسوس ہوتی ہیں، رویے بھی یکسانیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ محبتوں کی نوعیت بدل جاتی ہے۔ یہ انٹروپی ترتیب سے بے ترتیبی کے عمل کو ظاہر کرتی ہے جب کہ صوفی کا پیغام اسی بے ترتیبی کو کاملیت کی طرف لے کر آتا ہے۔ تصوف وجود، زندگی اور کائنات کو ہم آہنگی کی طرف لے کر چلتا ہے۔ اسلامی تصوف کا ایشیا و یورپ پر براہ راست اثر نظر آتا ہے۔ مولانا رومی کی روحانی فکر نے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اسپین سے تعلق رکھنے والے صوفی ابن عربی کے افکار مشرق و مغرب میں یکساں مقبول ہیں۔ امام غزالی بھی صوفی ازم کے فلسفے کو اجاگر کرتے رہے ہیں۔ تصوف کا فلسفہ محبت، انسان دوستی اور امن پسندی کے اصولوں سے جڑا ہوا ہے۔ مغربی شاعروں میں ولیم ورڈز ورتھ شاہ لطیف کی فکر کے قریب محسوس ہوتے ہیں۔ ورڈزورتھ اٹھارہویں صدی کی رومانی تحریک کے روح رواں رہے ہیں۔ انھوں نے تخیل کو کلاسیکی شاعروں کے روایتی تسلط سے آزاد کروا لیا اور موضوعات کو محلوں، بادشاہوں اور پرتعیش زندگی کی یکسانیت سے باہر لے کر آئے۔ عام زندگی کے کردار عوامی توجہ کا مرکز بنے۔ بالکل اسی طرح شاہ لطیف کے کردار بھی عوامی امنگوں کے ترجمان بنے ہیں، جن کے خواب زمین کے رشتے سے منسلک ہیں۔ شاہ لطیف ذات کی سچائی میں ڈوب کر خالق کائنات کو پانے کی جستجو میں ہمہ تن مصروف نظر آتے ہیں۔ جہاں خیال ابدی سچ میں جذب ہوجاتا ہے۔
ایک صدا ایک گونج' سننے میں ہیں دو
غور سے گر سن لو' مخرج ان کا ایک ہے
دوسری جانب ورڈزورتھ کی شاعری سے دلکش منظر نامہ جھلکتاہے جس میں انھیں فطرت کے ہر رنگ میں خالق حقیقی کا عکس دکھائی دیتا ہے۔ ورڈز ورتھ اپنی نظم ''یہ ایک خوبصورت شام ہے'' میں وقت کو کسی مقدس راہبہ کی طرح بیان کرتے ہیں جو سانس روک کر محو عبادت ہے۔ ڈوبتے سورجے کی شانتی میں آسمان کا مہربان عکس سمندر پر چھا رہا ہے اور اس وقت عظیم ہستی جاگ اٹھتی ہے۔
فطرت، ورڈزورتھ کے لیے ایک رہبر کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہ لطیف بھی فطرت کے رنگوں میں اپنی محبوب ہستی کو کھوجتے ہیں، جس کا عکس انھیں چاند، تاروں، بادلوں، سورج اور لہروں میں نظر آتا ہے۔ ورڈزورتھ کی طرح شاہ لطیف کے لیے بھی فطرت ایک دائمی پناہ گاہ ہے جس کی ترتیب، توازن اور ہم آہنگی انسانوں کے لیے سبق آمیز ہے۔ فطرت بغیر کسی تفریق کے عطا کرنے کا ہنر رکھتی ہے۔
یہ کھلا خزینہ فطرت
موتیوں سے بھرے ہیں سب کے ہاتھ
ساز اٹھا' ساز اٹھا مغنی! ساز
دے ہی دے گا سخی تجھے سوغات
شاہ لطیف بھٹائی حسیاتی شاعر ہیں۔ ان کے شعر میں فطرت کے مناظر اور آوازیں جا بجا ملتی ہیں۔ آپ خود موسیقی سے گہرا شغف رکھتے تھے اور ''تنبورو'' نامی ساز بھی بجایا کرتے تھے۔ لہٰذا وہی ترنم ان کے اشعار میں بھی پایا جاتا ہے۔ انگریزی کے حسیاتی شاعروں میں جان کیٹس کا نام سرفہرست ہے۔ کیٹس 1795 میں انگلینڈ میں پیدا ہوئے، والدین کی موت کے بعد ان کا بچپن احساس محرومی میں گزرا، جوانی میں بھائی کی موت، فینی براؤن سے ناکام عشق اور تپ دق کی بیماری کی وجہ سے کیٹس کی شاعری میں درد کی شدت محسوس ہوتی ہے۔ غم نے کیٹس کے احساسات کو جلا بخشی اور وہ اندھیرے میں بھی بغیر دیکھے پھولوں کو ان کی خوشبو سے پہچان لیتا ہے۔ کیٹس کی شاعری اس کے ذاتی غم کی نمایندگی کرتی ہے، جس میں فراریت کا عنصر نمایاں ہے جب کہ شاہ لطیف دکھ کو تعمیری جذبہ سمجھتے ہیں، جو انسان کو شعور و آگہی کی منزلوں سے روشناس کرواتا ہے۔ ان کی شعری ذات سے بڑھ کر سماجی شعور سے منسلک نظر آتی ہے۔ شاہ لطیف بنیادی طور پر محبت کے شاعر ہیں۔ وہ محبت جو سمندر سے گہری ہے، جس کی تشنگی کو کئی سمندر بھی سیراب نہیں کرپاتے۔
قسم ہے مجھ کو اس تشنہ لبی کی
سراپا تشنہ الفت بنا دے
نہ ہو سیری کبھی وارفتگی سے
بجھاؤں تشنگی کو تشنگی سے
مغربی شاعروں میں جان ڈن میٹافزیکل شاعری کے حوالے سے شاہ لطیف کی فکر کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی شہرہ آفاق نظم ایکسٹیسی میں جان ڈن کہتے ہیں۔
پیار کے اسرار روح میں پھلتے پھولتے ہیں
مگر جسم ہی اس کا محور ہے
شاہ لطیف کی شاعری میں محبت ایک مقدس جذبہ ہے جو جسمانی تقاضوں سے ماورا ہے۔ آپ انسانی نفسیات کی پیچیدگیوں سے واقف ہیں کہ زندگی کے تغیر میں محبت کے رنگ وقت کی بارش میں دھل جاتے ہیں۔ لہٰذا وہ محبت کو پانے سے زیادہ کھونے میں بقا حاصل ہے۔
شاہ لطیف قصہ گوئی میں مہارت کے حامل ہیں، ان کی کردار نگاری بے مثال ہے اور موضوع پراثر ہیں۔ یہ خوبی انگریزی کے مشہور شاعر اور ڈرامہ نویس ولیم شیکسپیئر میں پائی جاتی ہے۔ ان کے ڈراموں ہملٹ، میکیتھ اور رومیو جولیٹ نے لازوال شہرت حاصل کی جب کہ شاہ لطیف نے مومل رانو، سسی پنہوں، عمر ماروی، لیلا چنیسر، سوہنی مہینوال اور سورٹھ رائے ڈیاچ جیسی منفرد رومانوی داستانوں کو شاعری کا موضوع بنایا، جن میں ڈرامے کا تاثر موجود ہے۔ یہ رومانوی داستانیں اسٹیج پر پیش کی جاچکی ہیں۔
ہر سال 14 صفر کو بھٹ شاہ میں ان کا عرس عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ یہ شاہ صاحب کا 269 واں عرس ہے۔ تین دن ہونے والی اس تقریب میں رنگا رنگ پروگرام کے ساتھ محقق ان کے فن اور فکر کے نئے زاویے دریافت کرتے ہیں۔