اب بھی تمہیں یاد کرتا ہے زمانہ
کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا جھگڑا نہیں کیا
ماضی میں ہماری فلمی صنعت میں دو فنکار ایسے بھی گزرے ہیں جن کی وجہ سے فلمی صنعت کے سیکڑوں مزدوروں کے گھروں میں امید کی روشنی ہوتی تھی، رزق تو رب کی ذات دیتی ہے مگر رب کے توسط سے کچھ رب کے بندے زمین پر نیک کام کر رہے ہوتے ہیں، ان میں دو نام سرفہرست ہیں، سلطان راہی مرحوم اور سدھیر مرحوم۔ سلطان راہی تو فن کے شہید تھے۔
اس شخص کی کسی سے دشمنی نہیں تھی وہ تو لوگوں کے لیے شب و روز اسٹوڈیو میں محنت کرتا تھا۔ اس فلمی صنعت میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ اردو فلمیں نہ ہونے کے برابر تھیں اور جو فنکار تھے وہ اپنی فلمی زندگی کے سنہرے دن ختم کر کے ٹی وی سے وابستہ ہو گئے یا پھر اپنی پروڈکشن شروع کر دی۔ اس وقت واحد اداکار سلطان راہی تھے جن کی وجہ سے ایورنیو اسٹوڈیو اور شباب اسٹوڈیو میں رونقیں بحال ہوئیں۔ انھوں نے کولہو کے بیل اور مزدوروں کی طرح کام کیا تا کہ غریب بنکاروں کے گھر کے چولہے جلتے رہیں۔
کبھی کسی فلم ساز سے معاوضے کے حوالے سے بحث یا جھگڑا نہیں کیا، جس نے جو دیا خاموشی سے لے لیا، کبھی پروڈیوسر سے بقایا واجبات نہیں مانگے۔ منافقت سے ہمیشہ کوسوں دور رہے۔ وہ پاکستان کے واحد اداکار یا ہیرو تھے، جو عمر رسیدہ ہونے کے باوجود کم عمر ہیروئنوں کے ہیرو بنے اور وہ فلمیں سپر ہٹ ہوئیں۔ 1970ء سے لے کر 1996ء تک انھوں نے پنجابی فلموں کے حوالے سے انڈسٹری پر حکومت کی۔ 1990ء کے بعد عمر رسیدہ ہو گئے تھے مگر پاکستان میں ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں، کروڑوں میں تھی جن میں صوبہ پنجاب قابل ذکر ہے۔ جنوری 1996ء میں کچھ لٹیروں نے چند سکوں کی خاطر ان سے ان کی زندگی چھین لی۔
راقم کی تفصیلی ملاقات کراچی میں بننے والی فلم ''سڑک'' کے دوران ایک انٹرویو کے لیے مقامی ہوٹل میں ہوئی۔ اس دن شہر میں کوئی ناخوشگوار واقعہ ہوا تھا جس کی وجہ سے سڑک کی شوٹنگ کینسل ہو گئی اور پھر یہ ملاقات تقریباً 4 گھنٹے جاری رہی۔ دوپہر کا کھانا مرحوم کے ساتھ کھایا۔ دوران انٹرویو راقم ان کی خوش گفتاری اور خوبصورت اردو سننے کے بعد حیرت زدہ تھا کہ پنجابی فلموں کے سپر ہٹ ہیرو اور اردو اتنی لاجواب و فصیح کہ بیان سے باہر۔ میں نے برجستہ پوچھ لیا کہ راہی صاحب آپ کی اردو بہت لاجواب ہے۔ زور سے ہنستے ہوئے کہاکہ میاں کمال کرتے ہو، میری مادری زبان اردو ہے اور ہمارا تعلق یوپی سے ہے۔ جب پاکستان بنا تو میں دس سال کا تھا، ہجرت کر کے والدین پنڈی آ گئے۔
ہمارا ایک غریب گھرانے سے تعلق تھا، پنڈی سے میٹرک کیا اور پنڈی کے صدر بازار میں ایک دکان میں سیلزمین کی نوکری کر لی، دکان کے مالک فرحت صاحب نیک آدمی تھے، وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے اور پھر زندگی 1969ء تک مشکل راستوں کے تحت گزرتی رہی اور پھر فلمی صنعت کا رخ کر لیا۔ یہاں اخلاق احمد انصاری مرحوم نے مجھے رہائش دی اور پھر لاہور کا ہی ہوکر رہ گیا۔
فلم ''باغی'' میں مسرت نذیر اور سدھیر کے ساتھ کام کیا۔ سدھیر مرحوم بادشاہ آدمی تھے، جونیئرز سے بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ سدھیر نے اقبال کاشمیری سے میری سفارش کی اور میں فلم ''بابل'' میں کاسٹ ہو گیا اور اس فلم نے میری فنی زندگی کو ایک نئی زندگی دی۔ میرے دل میں سدھیر صاحب کے لیے بہت احترام ہے۔ وحید مراد مرحوم نے میری ملاقات ہدایت کار اسلم ڈار سے کرائی اور انھوں نے ''بابل'' میں میری کارکردگی کو دیکھتے ہوئے وحید مراد مرحوم کے کہنے پر فلم ''بشیرا'' میں مرکزی کردار دیا۔ اس فلم نے تو میری تقدیر بدل دی۔ میں اسلم ڈار اور وحید مراد مرحوم کا یہ احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا اور پھر فلم ''مولاجٹ'' نے مجھے سپر اسٹار کی صف میں لا کھڑا کیا۔
اپنی فلموں میں پر تشدد کرداروں اور گنڈاسہ برداروں کی خوفناک علامت رکھنے والا سلطان راہی نمازی، پرہیزگار انسان تھا۔ اسٹوڈیو میں مسجد بنوائی اور اکثر امامت کے فرائض بھی انجام دیتے۔ رمضان میں اسٹوڈیو میں بڑی افطاری کا اہتمام کرتے، گھر پر تراویح پڑھایا کرتے تھے۔ نعت پڑھنے کا ان کا اپنا ایک خوبصورت انداز تھا۔ پیار سے انھیں فلمی صنعت میں آغا جانی کہا جاتا تھا۔ مرحوم نے 500 کے قریب فلموں میں اداکاری کی، جن میں بیشتر نے ڈائمنڈ جوبلی، پلاٹینیم جوبلی، گولڈن جوبلیاں منائیں، جب کہ سلور جوبلی فلموں کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ان کے چہلم کے موقع پر راقم لاہور میں تھا، ہم نے اپنی آنکھوں سے ان کی یاد میں کتنے لوگوں کو آنسو بہاتے دیکھے۔ رب ان کی مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔
اداکار سدھیر مرحوم کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ سدھیر کا اصل نام شاہ زمان خان آفریدی تھا۔ 1922ء میں لاہور کے علاقے شیرانو گیٹ میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں راگنی کے ساتھ فلم ''فرض'' میں ہیرو آئے، پھر 1949ء میں ہدایت کار داؤد چاند کی فلم ''ہچکولے'' میں نجمہ کے مقابل ہیرو آئے۔ یہ پاکستان کی دوسری فلم تھی، جب کہ پاکستان میں پہلی فلم ''تیری یاد'' تھی جس کی ہیروئن آشا پوسلے تھیں، جو بہت اچھی گلوکارہ بھی تھیں۔ (یاد رہے کہ انڈیا کی آشا بھوسلے نہیں) یہ پاکستانی خاتون تھیں۔ فلم گلفام 4 مارچ 1954ء میں ریلیز ہوئی، پاکستان کی پہلی پنجابی گولڈن جوبلی فلم '' یہی'' تھی، جس کے ہیرو سدھیر اور ہیروئن صبیحہ خانم تھیں۔ ''باغی'' پاکستان کی پہلی فلم تھی جس کی نمائش چین میں ہوئی، یہ سپر ہٹ فلم 1956ء میں ریلیز ہوئی۔
ان کی پہلی فلم ''بلبل'' جو پنجابی زبان میں بنی، جس کی ہیروئن آشا پوسلے تھیں۔ 1995ء کی بات ہے جب راقم سے ان کی پہلی ملاقات اداکارہ، ہدایت کارہ شمیم آرا نے کروائی تھی۔ آشا پوشلے نے بتایا کہ سدھیر صاحب کی پنجابی فلم ''دلابھٹی'' سپرہٹ فلم تھی، اس فلم نے اتنا بزنس کیا تھا کہ آغا جی اے گل مرحوم نے ایورنیو اسٹوڈیو کی تعمیر کر لی، جو پاکستان کا سب سے بڑا اسٹوڈیو ہے۔ اس فلم کے ایک گیت نے پاکستان میں دھوم مچادی تھی، جس کے بول تھے ''واسطہ ای رب دا تو جاویں وے کبوترا'' جب کہ ان کی فلم ''ماہی منڈا'' نے اتنا بزنس کیاکہ باری صاحب نے باری اسٹوڈیو تعمیر کروا لیا۔ 1958ء میں سدھیر کی پنجابی فلم ''جٹی'' نے بھی بڑا بزنس کیا، اس فلم کی آمدنی سے لاہور کا مبارک سینما تعمیر ہوا۔
آخری ایام میں سدھیر کے گھر راقم سے ملاقات آشا پوشلے نے 1995ء میں کروائی۔ سدھیر فلم انڈسٹری کی بے حسی سے بہت نالاں تھے، انھوں نے فلمی صنعت کے لوگوں اور شو بزنس کے صحافیوں سے ملنا تقریباً چھوڑ دیا تھا۔ بڑے اداس لہجے میں راقم کو بتایاکہ شوبزنس میں بے وفائی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے، آپ بھی شوبزنس پر لکھتے ہیں، اس قافلے سے زیادہ امید وابستہ نہیں کرنا۔ راقم ان کی بات سے اتفاق کرتا ہے۔ یہ صرف وقت کو سلام کرتے ہیں۔ دوران گفتگو ان کی بیگم اور ماضی کی ہیروئن شمی چائے لے کر اندر آئیں۔ ان کے اخلاق سے ہم بہت متاثر ہوئے اور محسوس ہی نہیں ہوا کہ یہ بھی ماضی کی سپر ہٹ ہیروئن رہی ہیں، وہ ہمیں بالکل گھریلو خاتون لگیں۔ سدھیر نے اداکارہ زیبا سے بھی شادی کی تھی مگر یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔
سدھیر فلمی صنعت کے رویے سے اتنے مایوس تھے کہ انھوں نے بے اختیار کہاکہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس صنعت میں تالا پڑ جائے گا ۔ یہاں بے حسی کے مجسمے رہتے ہیں اور واقعی گزشتہ دس سال سے انڈسٹری میں تالا لگ گیا ہے۔ 1997ء کو سدھیر اور سلطان راہی 1996ء جنوری کو پہلے ہفتے ہی اپنے رب کی طرف لوٹ گئے، اﷲ ان کی مغفرت کرے۔ (آمین)