باری باری… کس کی باری
حسب سابق ساحل سمندر جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کی گئی
لاہور:
لیجیے 2016ء بھی رخصت ہوا، یکم جنوری 2017ء کے اخبارات میں زیادہ تر مضامین اسی موضوع پر تھے۔ دنیا بھر میں نئے سال کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ وطن عزیز میں بھی مبارک بادوں کے فون اور پیغامات لوگوں کو موصول ہوتے رہے۔ باوجود سخت ممانعت کے اچھی خاصی فائرنگ بھی ہوئی۔ حسب سابق ساحل سمندر جانے والے راستوں کی ناکہ بندی کی گئی مگر وزیر اعلیٰ کے حکم پر عوام کو سال نو کی خوشیاں منانے کی مشروط اجازت دے دی گئی اور راستے کھول دیے گئے۔ شرط یہ تھی کہ خوشیاں مناؤ مگر فائرنگ نہ کی جائے۔
وزیراعلیٰ کا یہ اقدام قابل ستائش ہے کہ عوام جو عرصے سے پہلے ہی خوشیوں سے محروم کر دیے گئے ہیں اگر کسی بہانے خوش ہونا چاہتے ہیں تو اس پر قدغن لگانا مناسب نہیں۔ بہرحال پوری دنیا میں سال نو کا استقبال خوشیوں، جوش، ولولے اور خوشگوار امیدوں کے ساتھ ہی کیا جاتا ہے۔ جو موت سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں، ان کے لیے بھی سالِ نو اس لحاظ سے خوشی کا باعث ہوتا ہے کہ ان کی دکھوں بھری زندگی کا ایک سال تو کم ہوا۔ جیسے عمر قید کے مجرموں کا ایک ایک لمحہ گن گن کر گزرتا ہے اور ہر سال ان کی سزا کی مدت کو کم کرتا جاتا ہے۔
اسی طرح یہ بے سہارا غربت کے مارے بھی اپنی زندگی کا ایک سال کم ہونے کو غنیمت جانتے ہیں۔ ایسا بھی وہ لوگ سمجھتے ہیں جو مثبت انداز فکر اور صبر و قناعت کے ساتھ اپنے حالات سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ جو کسی غیبی امداد کی آس میں ہر روز مرتے اور ہر روز جیتے ہیں۔ جب کہ کم ہمت، منفی خیالات اور کمزور ارادوں والے تو حالات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں، امید کا دامن چھوڑ کر مر جانے کا حتمی فیصلہ کر لیتے ہیں۔ روز روز مرنے پر ایک بار مرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ دنیا کی چھوٹی سی زندگی کی سختیاں برداشت نہیں کر پاتے۔ مگر آخرت کی لامتناہی زندگی کے عذاب کی فکر نہیں کرتے اور یہ نہیں سوچتے کہ:
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کہاں جائیں گے
بہرحال جو سال گزر گیا وہ تو گزر گیا، اب نئے سال سے پھر نئی امیدیں لگائے سب ہی خوشگوار تبدیلی کے تمنائی ہیں۔ مگر اس سال بھی افق سیاست (کہ جس کے گرد ہمارا پورا معاشرہ گھومتا ہے) پر دھند چھائی ہوئی ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں تو ساڑھے تین سال سے خوابیدہ سیاستدان انگڑائی لے کر بیدار ہونے لگے ہیں۔ اقتدار کی رسہ کشی کے لیے اپنی اپنی ٹیمیں تیار کی جا رہی ہیں۔ کمزوروں کو ہٹا کر مضبوط اور طاقتوروں کو آگے بڑھایا جا رہا ہے، بیماروں کی جگہ صحت مند اور خواتین کی جگہ مردوں کو ایوانوں میں بھیجنے کی تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں، مقاصد واضح بھی ہیں اور غیر واضح بھی۔ باریوں کے حساب سے اب جن کی باری ہے، وہ اپنی باری کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں۔
مگر تجزیہ کار کچھ اچھی خبریں نہیں دے رہے۔ عوام کے لیے تو باری اور دو باری برابر ہے۔ تمام چہرے جانے پہچانے اور کارکردگیاں آزمائی ہوئی ہیں۔ چہرے بدلیں یا وہی رہیں، ان کی زندگی میں کچھ بدلنے والا نہیں۔ کیونکہ چہرے یا جماعتیں بدلنے سے نظم حکمرانی تو نہیں بدلتا۔ دوستانہ مخالفت نے جو گل کھلائے ایسے میں کسی بہتری کی توقع کرنا حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ اگر حزب مخالف حقیقی مخالفت برائے اصلاح یا بطور جذبہ حب الوطنی کا مظاہرہ کرتی تو حکمرانوں کی مجال ہوتی کہ اتنی ڈھٹائی سے عدالتی فیصلوں کو نظرانداز کردیا جاتا؟ فوری طور پر نفاذ اردو کے حکم کا کیا ہوا؟ نیشنل ایکشن پلان پر کس حد تک عمل ہوا؟ (بلاصوبائی تفریق کے) تحفظ نسواں بل کا کیا حشر ہوا؟ اقلیتوں کو جبراً تبدیلی مذہب کے بل کے خلاف کیا ادھم مچا کوئی فرق پڑا؟ اب اگر حکمران تبدیل ہوگئے تو کیا یہ سب آپ کو روز اول ہی تھالی میں سجا ہوا مل جائے گا؟
موجودہ حکومت کے پاس تقریباً ڈیڑھ سال ہے، اگر اب بھی کچھ کرنا چاہے تو بہت کچھ کرسکتی ہے۔ ہمارے ایک نجومی سیاستدان نے تو انتخابات 2017ء ہی میں ہونے کی پیش گوئی بھی صادر فرما دی ہے۔ لہٰذا حکمرانوں کے پاس وقت کم اور کام بہت، یعنی ''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' والا معاملہ ہے۔ مگر جلدی تو وہ کرے جس کو کچھ کرنا ہو، کاغذی گھوڑے دوڑانا اور زبانی دعوے کرنے والوں کے پاس تو وقت ہی وقت ہے، اور وہ تو اپنی اسی کاغذی و زبانی کارکردگی پر دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بلند بانگ دعوے بھی کر چکے ہیں۔
اب یہ عوام کی اپنی حماقت ہی ہے کہ وہ ایسے خادمین قوم کو دوبارہ اس کارخیر کا موقع فراہم نہ کریں اور دوسری جانب کی بڑھکوں میں آ جائیں۔ حالانکہ یہ عوام آخر ہیں کیا چیز؟ فیصلے تو بڑوں کے درمیان خود ہی مل جل کر ہو جاتے ہیں۔ درپردہ وعدے وعید جسے عرف عام میں مک مکا یا ڈیل وغیرہ کہتے ہیں، ہو جاتے ہیں اور عوام سدا ''نفس مطمئنہ'' ہر حال میں گزر بسر کر لیتے ہیں۔
عوام کا تو عالم یہ ہے کہ ہر انتخاب میں خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، جو جیت جائے فوراً اسی پر خوش ہو جاتے ہیں مگر صرف دو تین ماہ بعد ہی ہارنے والوں کے پیٹ میں مروڑ اٹھنے لگتے ہیں تو یہ عوام ہی ان کے ساتھ اپنے ہی فیصلے کے خلاف (جو بظاہر عوام ہی کا فیصلہ ہوتا ہے) سڑکوں پر نکل پڑتے ہیں۔ مخالفین اور موافقین کے درمیان باضابطہ دنگل ہوتے ہیں اور گہما گہمی کے ساتھ زندگی رواں دواں، حکومت جاری و ساری رہتی ہے۔ حکمراں سینے پر ہاتھ رکھ کر عوامی اور عدالتی فیصلے پر کہتے رہتے ہیں۔
مخالفت سے ڈرنے والے اے احمقو نہیں ہم
کئی بار لے چکے ہو تم امتحاں ہمارا