نعمتوں پر شکر کیجیے

ہم دنیاوی تگ و دو میں اتنے مصروفِ عمل ہیں کہ حلال و حرام کا فرق بھی بُھلا بیٹھے ہیں۔


اگر ہم شاکر رہیں تو اﷲ ظاہری نعمتیں بھی بڑھا دیں گے او ر قلبی سکون و راحت بھی نصیب فرمائیں گے۔ فوٹو : فائل

لاہور: زندگی خوشی اور غم کا مرکب ہے۔ اسلام ان دونوں حالات میں ہماری مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ اگر خوشی، سکھ اور فراوانی کی نعمت مل جائے تو ہمارا رویَہ کیا ہونا چاہیے اور اگر کبھی بہ طور آزمائش حالات ناموافق اور ناسازگار ہوجائیں، کسی تکلیف، دکھ، بیماری اور تنگی کا سامنا کرنا پڑجائے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے۔۔۔ ؟

صحیح مسلم میں حضرت صہیب رومیؓ سے مروی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: '' مومن کا حال بھی بہت عجیب ہے اس کی ہر حالت میں بھلائی ہی بھلائی ہے، مزید یہ کہ مومن کے علاوہ یہ بات کسی اور مذہب کے ماننے والے کو نصیب نہیں۔ اگر اسے سہولت، آسانی اور خوشی حاصل ہوتی ہے تو یہ اﷲ کا شکر گزار بندہ بن جاتا ہے جو اس کے لیے اجر اور فراوانی ِنعمت کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے اور اگر کبھی ناساز حالات سے واسطہ پڑجائے تو امر الٰہی پر صابر و شاکر رہتا ہے جو اس کے لیے اجر اور معیت ِخداوندی کے لحاظ سے خیر ہی خیر ہے۔''

کیا ہم نے کبھی اس بات پر غور کیا ہے کہ ہم ہر وقت خدائی نعمتوں کے بار تلے دبے ہوئے ہیں۔ اْس نے اپنی مخلوقات میں سے ہمیں ساری مخلوق کا سردار بنایا، پھر انسانوں میں سے ہمیں مسلمان بنایا، اپنے آخری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کا امتی بنایا، ہمیں زندگی گزارنے اور آخرت سنوارنے کے لیے کتاب ِہدایت دی۔ کتاب ِ ہدایت سمجھانے کے لیے ہمارے اندر ہادی ِبرحق صلی اﷲ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، ہمیں صحابہ و اہل بیت رضوان اﷲ علیہم اجمعین جیسی مقدس شخصیات نصیب فرمائیں۔ کفر و شرک سے بچا کر دولتِ اسلام عطا فرمائی، رسوم و رواج اور بدعات و خرافات سے ہٹا کر سنت نصیب فرمائی۔

برائیوں اور گم راہیوں سے دور رکھنے کے لیے اولیائے کرام اور مجتہدین نصیب فرمائے۔ کھیتی باڑی، کاروبار زندگی اور رہائش کے لیے زمین عطا کی۔ خوراک کے لیے سبزیاں، پھل، گوشت اور کھانے پینے کے لیے انواع و اقسام کی بے شمار چیزیں مہیا فرمائیں۔ جسم ڈھانپنے کے لیے اچھا اور عمدہ لباس، سفری ضروریات کے لیے سواریاں، معاشرے میں رہنے کے لیے عزت، جسمانی اعضاء میں تناسب اور نعمت ِحسن، خوش حال زندگی کے لیے اچھے رفیق اور شریک حیات اور آل و اولاد عطا فرمائے۔ آنکھ جیسی نعمت جس سے سارا جہاں حقیقی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے، دماغ جسے صحیح طور پر کام میں لا کر کام یابیوں کو حاصل کیا جاسکتا ہے، زبان جس سے دلی جذبات اور خواہشات کو ادا کیا جاسکتا ہے اور ہاتھ پاؤں کی سلامتی سے دوسروں کی محتاجی ختم فرمائی۔

ال غرض اﷲ کی عنایت کردہ کثیر اور عظیم نعمتوں کو ہم ہر پل استعمال کرتے ہیں۔ اس نے ہمیں ان کے استعمال کا طریقہ بھی بتادیا کہ ان عظیم نعمتوں کو غلط طریقے سے استعمال نہ کرنا بل کہ صحیح طور پر استعمال کرکے شکر ادا کرو گے تو تمہیں یہ بھی اور دیگر نعمتوں سے مالا مال کردوں گا۔ میر ے احسانات، انعامات اور اعزازات وصول کرکے میری ناشکری اور ناقدری نہ کرنا ورنہ تمہیں اس جرم کی سزا میرے عذاب کی صورت میں اٹھانا پڑے گی۔ معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو ہر وقت پریشانی کا اظہار کر تے ہیں، اپنی کم نصیبی، لاچاری، محرومی اور بدقسمتی کا رونا روتے ہیں بل کہ کچھ تو ایسے بھی ہیں جن کی زبان سے ناشکری کے ایسے الفاظ نکلتے ہیں جو انتہا ئی مایوس کن اور معیوب ہوتے ہیں۔

جامع الترمذی اور دیگر معتبر کتب ِاحادیث میں اﷲ کے آخری نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک سنہرا اصول ارشاد فرمایا ہے : دو خصلتیں ایسی ہیں جس میں وہ پیدا ہوجائیں تو اﷲ کریم اس کو صابر و شاکر لکھ دیتا ہے۔ پہلی خوبی دین داری کے معاملے میں اپنے سے فائق انسان کی طرف دیکھے اور پھر اس کی اقتداء میں لگ جائے، خود بھی نیکی اختیار کرے اور اس جیسی نیکیوں کو انجام دینے کی بھر پور کو شش کرے۔ دوسری خوبی اس میں یہ ہو کہ دنیا وی امور میں اپنے سے کم تر انسان کو دیکھے پھر اﷲ کی طرف سے ملنے والی زیادہ نعمت کو دیکھے اس پر اﷲ کا شکر ادا کرے تو ایسے شخص کو اﷲ پاک صابر شاکر لکھ دیں گے ۔

افسوس کہ ہم اس کے برعکس زندگی گزار رہے ہیں۔ دنیاوی امور میں اتنے آگے بڑھنے کی تگ و دو میں مسلسل مصروف عمل ہیں کہ حلال و حرام کا فرق بھی ختم کر بیٹھے ہیں۔ دولت، دولت اور دولت کے حصول میں انسانی رشتوں کو بھی یک سر نظرانداز کر بیٹھے ہیں۔ ہماری نظریں کبھی بھی اپنے سے چھوٹے اور کم درجے کے لوگوں پر نہیں پڑتیں۔ چھوٹے کاروبار، چھو ٹے مکانات، معمولی غذا سے پیٹ کے دوزخ جلانے والوں کی حالت زار اگر ہمیں دیکھنی پڑ بھی جائے تو ہم اسے عبرت کی بہ جائے حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس انداز سے سوچنے اور غور کرنے کا موقع ہی نہیں مل پاتا کہ ہم خدا کا شکر ادا کرسکیں۔

خدا کے وعدے پر یقین کرکے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصول کو مدِنظر رکھتے ہوئے شکر کرنے کے خوگر بنیں۔ اگر ہم شاکر رہیں تو اﷲ ظاہری نعمتیں بھی بڑھا دیں گے او ر قلبی سکون و راحت بھی نصیب فرمائیں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں