آج چند اشعار ہی سہی
جب سے حافظہ کمزور ہونے لگا ہے میں نے بعض تحریریں اور اشعار محفوظ کرنے یعنی نقل کرنے شروع کر دیے ہیں
لاہور:
جب سے حافظہ کمزور ہونے لگا ہے میں نے بعض تحریریں اور اشعار محفوظ کرنے یعنی نقل کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اگرچہ یہ سب کسی ترتیب کے بغیر ہی ہوتا رہتا ہے لیکن کچھ تحریریں پسند کی بھی ہوتی ہیں جو شاید آپ لوگوں کو بھی اچھی لگیں اور اگر پسند نہ آئیں تو میری پسند کی کمزوری سمجھ کر معاف کر دیں۔ اس سلسلے میں چند اشعار بھی ہیں جو پیش خدمت ہیں اس امید کے ساتھ کہ یہ آپ کو پسند آئیں گے۔
کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہش اظہار پھر رہے نہ رہے
عابد سیال
لرز رہا تھا ستارہ بھی میرے ساتھ ظفر
شب جوانی کی تصویر اور کیا ہو گی
............
ایک آواز کہ ہے کوئی خریدار کہیں
ایک بازار یہاں آخر شب لگتا ہے
............
دھیان کے آتش دان میں ناصر
بجھے دنوں کا ڈھیر پڑا ہے
............
فلک سے رفتگاں نے جھک کے دیکھا
بساط خاک سے اٹھنا ہمارا
میجر شہزاد نئر
خوبصورت بہت ہو تم لیکن
دوسروں کا بھی کچھ خیال کرو
............
کوئی تدبیر کرو' وقت کو روکو یارو
صبح دیکھا ہی نہیں' شام ہوتی جاتی ہے
............
نہ زمینی ہوں نہ آسمانی ہوں
ختم ہوتی ہوئی کہانی ہوں
فیصل احمد
کاشف حسین دشت میں جتنے بھی دن رہا
بیٹھا نہیں غبار میرے احترام میں
............
جدائی بن کے بچھا لی ہے عرش پر اظہار
اسی پر بیٹھ کے روتا' اسی پہ سوتا ہوں
اظہار الحق
کبھی تو پوچھ کسی ان کہی کے بارے میں
کہ دل میں خواہش اظہار پھر رہے نہ رہے
............
اب مجھے واپسی کی فکر نہیں
اپنی کشتی ڈبو چکا ہوں میں
............
کٹ ہی گئی جدائی میں' یہ کب ہوا کے مرگئے
تیرے بھی دن گزر گئے میرے بھی دن گزر گئے
عدیم ہاشمی
............
شیخ جو ہے مسجد میں ننگا' رات کو تھا مے خانے
کرتا ٹوپی خرقہ جبہ مستی میں انعام کیا
............
جسے چٹکی بجانا کہہ رہے ہو
ہماری انگلیوں کی گفتگو ہے
شعیب زمان
............
طلب کریں تو یہ آنکھیں بھی ان کو دے دوں میں
مگر یہ لوگ ان آنکھوں کے خواب مانگتے ہیں
عباس رضوی
دکھ تو یہ ہے کہ ساری دنیا ہے
میں نہیں ہوں' مری کہانی میں
افضل گوہر
............
راستہ دیتی ہے دیواریں ہمیں اب بھی ظفر
در کھلا کرتے تھے پہلے بھی ہمارے نام سے
............
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
............
رات کھولے تھے کچھ پرانے خط
پھر محبت دراز میں رکھ دی
زندگی تو مجھے گزار کہ میں
اس سے پہلے تمہیں گزار چکا
ستیہ پال آنند
............
میں ماں کی تصویر کے آگے روئی جب
میری ماں کی آنکھیں دیکھنے والی تھیں
ریحانہ قمر
............
بال چراغ عشق دا' تے کردے روشن سینہ
دل دے دیوے دی رشنائی جاوے وچ زمیناں
میاں محمد بخش
............
کون طاقوں میں رہا' کون سر راہگزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے
............
آپ تھے جس کے چارہ گر...وہ جواں
سخت بیمار ہے دعا کیجیے
جون ایلیا
اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
میں اب اکثر میں نہیں رہتا۔ تم ہو جاتا ہوں
انور شعور
اب تو دنیا بھی وہ دنیا نہ رہی
اب تیرا دھیان بھی اتنا نہ رہا
............
میں اگر پہلا تماشا تھا تماشا گاہ میں تو پھر
مشغلہ اس کا میری ذات سے پہلے کیا تھا
٭٭٭