دیانت ہے جس کا نام۔۔۔۔

فکری دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کی جستجو کی جائے


اکرام سہگل January 07, 2017

فکری دیانت کا تقاضا یہی ہے کہ سچ کی جستجو کی جائے، چاہے اس کی زد ہمارے احساسات یا پہلے سے تسلیم کردہ تصورات ہی پر کیوں نہ پڑتی ہو اور جب حقائق واضح ہوجائیں تو، یہ سوال نہ رہے کہ ان کا فائدہ یا نقصان کس کو ہوگا۔ دیانت، اخلاص اور بیباکی جیسی اقدار کو چاہے ''دقیانوسی''کیوں نہ تصور کیا جائے لیکن یہی حکمرانوں کی اصل قوت ہیں۔ حقیقی لیڈر کبھی اپنی غلطی تسلیم کرنے سے نہیں گھبراتا، مسائل پر سوچ بچار کرتا ہے اور اس کی نظر چیلنجز میں بھی مواقع تلاش کرلیتی ہے۔

ہارورڈ کے ماہر اخلاقیات لوئس ایم گیونن کے نزدیک فکری دیانت کا جوہر ہے کہ ''نیک نیتی فریب نہیں کھاتی چاہے فریب کھانے میں مفاد ہی کیوں نہ پوشیدہ ہو''۔ اس تناظر میں ہمارے رہنماؤں کا عمومی رویہ دیکھیے، جو کبھی ذاتی تو کبھی سیاسی مصلحت کے تحت، مختلف مواقع پر متضاد بیانات دیتے ہیں اور بڑی بے باکی کے ساتھ اس رویے کا قانونی جواز پیش کرتے ہیں۔ پاناما گیٹ کوئی معمولی مقدمہ نہیں، ملک کے اعلیٰ ترین منصب دار کی اخلاقی حیثیت اس کی زد میں ہے۔ یہ ممکن ہے کہ کوئی بھی قابل وکیل قانونی داؤ پیچ کی مدد سے اپنے مؤکل کو قانون کی گرفت سے صاف بچا لے جائے، لیکن باضمیر قانون داں ایک شہری کی حیثیت سے خود پر ریاست کے حقوق اور اپنے فرائض کا پورا ادراک رکھتا ہے، وہ جانتا ہے کہ جب بات وزیر اعظم کی ہو تو صرف سچ ہی کو ''حقائق'' کے طور پر پیش کیا جانا چاہیے۔

ضروری نہیں کہ اخلاقی ذمے داری قانونی طور پر بھی لازم آتی ہو۔ عوامی نمائندوں کو لیکن قانون اور اقدار دونوں ہی کا پاس کرنا ہوتا ہے۔ حق و ناحق کو قبول و رد کا پیمانہ تسلیم کرنے کا نام ہی اخلاقیات ہے۔ جرمن فلسفی ایمانوئل کانٹ نے ان ہی قدروں کو اصول اخلاق کی بنیاد قرار دیا تھا۔

جب فکری دیانت اور اخلاقی ذمے داری کا احساس کسی معاشرے میں دَم توڑ جائے، تو اچھی طرز حکمرانی کی موت سب سے پہلے ہوتی ہے اور پاکستان کی طرح، جمہوریت صرف نام کو باقی رہ جاتی ہے۔ اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے نوکر شاہی، سیاست داں اقتدار میں آنے کے بعد دونوں ہی کو بدعنوانی کی راہ پر لے آتی ہے۔ حکمران کاروبار ریاست چلانا جانتے نہیں، یا تو اس کے لیے بیوروکریٹس کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں یا کئی مرتبہ یہ امور خود نوکرشاہی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے اور بابو چاپلوسی اور جی حضوری کرکے حکمرانوں کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ حکمرانوں اور بیوروکریسی میں مال سمیٹنے کا مقابلہ جاری رہتا ہے، اب کون کس کا احتساب کرے؟ صرف عدالتیں ہی حدود سے تجاوز اور نقب زنی کا تدارک کرسکتی ہیں۔

ہمارے ہاں حکمرانوں نے اقتدار کو طول دینے کے لیے دیانت فکر اور اخلاقی قدروں کو پامال کیا۔ المیہ یہ ہے کہ ایسا کرنے والوں میں وہ بھی شامل رہے ، قوت کے غلط استعمال کو روکنا، جن کی ذمے داریوں میں شامل تھا۔ ایک ریٹائرڈ جرنیل کہتے ہیں کہ دیانت دار اور بے باک فرد کو اس نظام کا حصہ ہی نہیں رہنے دیا جاتا اور اصلاح کے امکانات معدوم تر ہوجاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے کسی منصب تک پہنچنے کے لیے، جہاں سے نظام میں کوئی مؤثر تبدیلی لائی جاسکے، دوہری نہیں تہری شخصیت اپنانی پڑتی ہے۔ سبق یہ ہے کہ کسی بھی قیمت پر نظام کا حصہ بنے رہو! مناصب کی جستجو میں جب کوئی ایک بار سمجھوتا کرلے تو عہدہ و منصب کے تحفظ کے لیے ہر اصول کی قربانی دینا پڑتی ہے۔

فکری دیانت اور اخلاقی ذمے داری سے فرار کا راستہ لالچ اور مفاد پرستی سے گزر کر''نظریۂ ضرورت'' کی منزل تک پہنچتا ہے، چاہے 58 ٹو بی جیسا اختیار ہی کیوںنہ ختم کردیا جائے۔آمرانہ حکومتوںمیں تھوڑے ہی وقت کے لیے عام آدمی سکون کا سانس لیتا ہے لیکن پھر اقتدار کو طویل کرنے کے لیے یہ حکمران سمجھوتے کرتے ہیں اور اپنی راہ سے ہٹ جاتے ہیں۔ مسائل حل نہیں ہوتے۔ پاکستان کا ''کاکڑ'' فارمولا 15برس بعد 2007ء میں بنگلہ دیش نے بھی آزمایا۔ لیکن جب من مانا احتساب ہوا اور فوجی حکمران خود ہی راستہ بھٹک گئے تو اس کے نتائج کیسے برآمد ہوتے۔

''نظریۂ ضرورت'' کے اس آسیب سے محفوظ رہنے کے لیے عدلیہ کو مکمل غیر جانبداری اور مؤثر انداز میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اعلیٰ مناصب پر فائز افراد ''متصادم مفادات'' (Conflict of Interest)کی کسوٹی سے بچنے نہ پائیں۔ ماضی میں چند انتہائی قابل جج صاحبان کو صرف ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر رخصت کیا گیا۔ ان کی خالی ہونے والی نشستیں پُر کرنے کے لیے جلد بازی میں فیصلے کیے گئے جس کے نتائج اچھے نہیں نکلے۔ بڑے عہدوں پر فائز ہونے والوں نے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے قوانین میں تبدیلیاں کیں۔ جو کچھ اس سب سے واقف تھے(یا ہیں) انھوں نے اختیارات کے اس بے رحمانہ استعمال کے خلاف کوئی قدم کیوں نہیں اٹھایا؟

اقتدار کی نچلے طبقات تک منتقلی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ کیا عوام ہمارے نظام پر اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ان کی حقیقی نمائندگی کے بغیر جمہوری نظام کی نعرے بازی محض ڈھکوسلہ ہے۔ ملک کی سبھی بڑی سیاسی جماعتیں ''قانون کی حکمرانی'' کے لیے سوائے زبانی جمع خرچ کے اور کوئی زحمت نہیں فرماتیں، بلکہ حقیقی روح کے ساتھ اس کے نفاذ کی راہ میں خود بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔اقربا پروری اور کرپشن پر اندھا، بہرا اور گونگا بنے رہنے سے کیا صورت حال میں کوئی تبدیلی آئے گی؟جمہوری روایات کا رٹا رٹایا سبق سنانے والوں کو جے آئی ٹیز میں سامنے آنے والے حقائق کو نتیجہ خیز بنانے پر بھی غور کرنا چاہیے۔اعلیٰ عدلیہ کی ایک ایسی ٹیم بنائی جا سکتی ہے جس میں سیاست داں اور بیورکریٹ بھی بطور مبصر شامل ہوں، جو عذیر بلوچ، ڈاکٹر عاصم، اسد کھرل، نثار مورائی اور ان جیسے ہائی پروفائل مقدمات میں ملوث افراد کے اعترافی بیانات کا جائزہ لے۔

پاکستان میں تاثر ہی حقیقت ثابت ہو جاتا ہے،پانامہ کیس میں جن پر الزام لگا ، کیا ان کی جانب سے پاناما کے معاملے میں غلط بیانی سے کام لیا گیا۔ شاید منی لانڈرنگ کے معاملے میں بہت کچھ چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب تک حکمران اپنی اخلاقی ذمے داریوں کی پاس داری نہیں کرتے، عوام کے حالات نہیں بدلیں گے۔ بددیانتی اور اپنے فرائض سے فرار کی روش انھیں ایسے مشیروں اور ساتھیوں کو اپنے گرد جمع کیے رکھنے پر مجبور کیے رکھے گی جو ان کی ہر بات پر آنکھیں بند کرکے ایمان لے آئیں اور تعمیل حکم بجا لائیں، چاہے اس کے لیے انھیں کسی جرم ہی کا ارتکاب کیوں نہ کرنا پڑے۔ ''مفادات کے تصادم'' کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ قوت و اقتدار کے بل پر، ریاستی اداروں کااستعمال کرتے ہوئے افسانوں کو حقیقت اور حقیت کو افسانہ ثابت کرنے کا کھیل جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔