بے حسی کے اس ماحول میں

ہر صبح ابھی سابقہ مسئلہ حل نہیں ہو پاتا کہ ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے


Muqtida Mansoor January 09, 2017
[email protected]

سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گفتگو کا آغاز کہاں سے کیا جائے۔ مسئلہ ایک ہو تو بات کی جائے، یہاں تو مسائل کا انبار ہے۔ ہر صبح ابھی سابقہ مسئلہ حل نہیں ہو پاتا کہ ایک نیا مسئلہ سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے۔ وجہ ایک نہیں درجنوں ہیں۔ ایک طرف فرسودہ نوآبادیاتی نظام حکمرانی کا تسلسل، جو سیاسی، سماجی اور معاشی پسماندگی کا ایک بنیادی سبب ہے۔

دوسری طرف سماجی ڈھانچے میں پیوست اشرافیائی کلچر کی مضبوط جڑیں ہیں، جنھوں نے عام آدمی کو ان کے جمہوری اور شہری حقوق سے محروم کر رکھا ہے۔ تیسری طرف خواندگی کی تشویشناک حد تک کم شرح نے عوام کو سوچنے سمجھنے سے محروم کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اشرافیائی کلچر کے چنگل سے نکل نہیں پا رہے۔ ان کے علاوہ ان گنت دیگر اسباب بھی ہیں جو ملک و معاشرے کو فرسودگی اور زوال آمادگی کی جانب دھکیلنے کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ کسی ایک اظہاریہ میں ان کا احاطہ ممکن نہیں، بلکہ ہر ایک مسئلہ کئی کئی اظہاریوں کا متقاضی ہے۔

ایک ایسے ماحول میں جہاں حکمرانوں اور صاحب الرائے افراد کی آنکھوں پہ چربی کی دبیز تہیں جمی ہوں، کانوں میں روئی ٹھنس چکی ہو، ملک کے طول و عرض سے محکوم، مظلوم اور محروم طبقات کی ابھرنے والی چیخیں نہ ایوانوں کو ہلاتی ہیں اور نہ ہی عام آدمی کے دل پہ کوئی اثر کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ چیخیں روز کا معمول ہیں۔ یہ اس ملک کے قبائلی اور جاگیردارانہ اشرافیائی کلچر کا حصہ ہیں۔ آج کل اسلام آباد میں ایک لڑکی طیبہ پر ایک سیشن جج کی بیگم کی جانب سے ہونے والے تشدد اور ایذا رسانی کا ذرایع ابلاغ میں چرچا ہے۔

عدالت عظمیٰ نے اس واقعے کا ازخود نوٹس لے لیا ہے۔ مگر جج صاحب منصفی کی مسند پر بدستور براجماں ہیں، ان کی بیگم بھی کسی حوالات کے بجائے اپنی پرتعیش خواب گاہ میں پرسکون نیند کے مزے لے رہی ہیں۔ کیونکہ انھیں یقین ہے کہ وہ جس اشرافیائی کلچر کا حصہ ہیں، وہ انھیں صاف بچا لے جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے چند سکوں کے عوض اس ستم رسیدہ لڑکی کے والدین کا منہ بند کرنے کی بھی کوشش کی۔

یہ ایک واقعہ ہے، جو وفاقی دارالحکومت میں رونما ہوا۔ بڑے شہروں میں ہونے والے ایسے قبیح واقعات ذرایع ابلاغ کے ذریعے مشتہر ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے اکثر دودھ میں کچھ ابال آ جاتا ہے، مگر پھر وہی ڈھاک کے تین پات، یعنی جلد ہی سرد خانوں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ کراچی میں ہونے والے نوجواں کے قتل کی داستانیں بھی قصہ پارینہ ہوئیں۔ جلد ہی محمد میاں سومرو کے بھانجے کے قتل کی داستان بھی داخل دفتر ہو جائے گی۔ اشرافیہ کے ہاتھوں میں دولت اور اقتدار و اختیار کی لگامیں ہیں، جب کہ غریبوں کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ جو انھیں بااثر افراد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔

اس قسم کے واقعات روز کا معمول ہیں، جو ملک کے طول وعرض میں صبح و شام رونما ہوتے رہتے ہیں۔ غربت و افلاس کی چکی میں پسے خاندان، جن کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول جوئے شیر لانے سے کم نہیں، ہر وقت حکمران اشرافیہ اور اہل ثروت کی ذہنی اور جسمانی ایذارسانی کا شکار رہتے ہیں، کیونکہ یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ یہ انسان نہیں بلکہ گندی نالیوں میں پلنے والے کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان کا کام ہی اہل زر کی جوتیاں سیدھی کرنا اور کھانا ہے۔ اس لیے انھیں اہمیت دینے اور مساوی شہری سمجھنے کی کسی کو کیوں فکر ہو؟ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی پر کسی کی آنکھ سے کیونکر آنسو ٹپکے؟

یہی وجہ ہے کہ جب کبھی ذرایع ابلاغ کی وجہ سے کوئی واقعہ، کوئی سانحہ منظر عام پر آ جاتا ہے، تو کچھ دے دلا کر معاملہ دبانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان 70 برسوں کے دوران کوئی ایک مثال ایسی نہیں ہے جب گھریلو ملازمین کے ساتھ جنسی زیادتی یا ایذا رسانی پر کسی بااثر شخصیت یا اس کے اہل خانہ کو سزا ملی ہو۔

دراصل پاکستان ایک ایسا ملک بن چکا ہے، جو تمامتر قدرتی اور انسانی وسائل رکھنے کے باوجود معاشی بدحالی، سیاسی انتشار اور سماجی بے راہ روی کا اس لیے شکار ہے، کیونکہ اس پر نااہل، خودغرض اور کوتاہ بین اشرافیہ کے پنجے بری طرح گڑے ہوئے ہیں۔ جو عوام کو اپنا زر خرید غلام سمجھتے ہیں۔ وہ ایک ایسے نظام کا خاتمہ کیوں چاہیں گے، جس کی وجہ سے اقتدار پر ان کی گرفت قائم ہے۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ ملک میں تعلیم عام ہو اور قانون کی بالادستی قائم ہو۔ وہ کب چاہیں گے کہ وہ لوگ جو ان کے دست نگر ہیں، ان کی ہمسری پر اتر آئیں۔

بیشتر بااثر اراکین اسمبلی برملا کہتے نظر آتے ہیں کہ ''تعلیمی نظام بہتر بنا کر کیا ہم اپنے غلاموں کو اپنے سروں پہ مسلط کر لیں؟ کیا اپنے ووٹروں کو اپنے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ بخش دیں؟'' یہی وہ مائنڈ سیٹ ہے، جو ملک میں عوامی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ اسی طرز عمل کی وجہ سے تعلیمیافتہ نوجوان ملک چھوڑ کر دیگر ممالک کا رخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

کیا یہ مضحکہ خیز بات نہیں کہ ایک ایسی ریاست جسے امور مملکت چلانے کے لیے ہر چند ماہ بعد عالمی مالیاتی اداروں کے آگے کاسہ گدائی پھیلانا پڑتا ہو، بینکوں سے قرضے اور دوست ممالک سے امداد لینے کی ضرورت پڑتی ہو۔ اس کے منتخب نمایندوں کی بلٹ پروف لینڈ کروزرز ایوان نمایندگان کے سامنے قطار اندر قطار کھڑی ہوں۔ وہ ملک جس کی 40 فیصد سے زائد آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو، بیروزگاری اپنی انتہاؤں کو چھو رہی ہو اور اجرتیں اتنی قلیل ہوں کہ عام آدمی کے لیے زندگی گزارنا محال ہو۔ وہاں حکمران اشرافیہ کے اللے تللوں کا یہ عالم ہو کہ ایوان وزیراعظم کے بیت الخلا اور غسل خانوں کی تزئین و آرائش کے لیے 24 کروڑ مختص کیے جائیں، جب کہ وزرا اور دیگر اہلکاروں کے اخراجات کا کوئی حساب نہ ہو۔

آج اورنج ٹرین کی پٹریاں بچھائی جانے اور میٹرو بسوں کے ٹریک بنائے جانے کو ترقی کہا جا رہا ہے، مگر تعلیمی ادارے، جو ترقی کی پہلی سیڑھی ہوتے ہیں، بدترین زبوں حالی کا شکار ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ اورنج ٹرین اور سڑکوں کی تعمیر میں بھاری کمیشن ملتا ہے، جب کہ اسکول، کالج اور اسپتال کی تعمیر سے وہ منافع نہیں ملتا، جو حکمرانوں کی ہوس زر کی تسکین کر سکے۔ پھر جن کے اپنے بچے بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہوں، جن کے بارے میں یہ یقین ہو کہ بالآخر انھوں نے ہی آگے چل کر اقتدار سنبھالنا ہے، تو پھر عام آدمی کے لیے بہتر تعلیم کی کسی کو کیا پرواہ ہو سکتی ہے۔

ملائشیا ہم سے دس برس بعد آزاد ہوا (31 اگست 1957ء)۔ تنکو عبدالرزاق (موجودہ وزیراعظم کے والد) نے کئی اہم فیصلے کیے جنھیں عملی جامہ مہاتیر محمد نے پہنایا۔ پہلا فیصلہ تعلیم کو A لیول تک مفت کرنا تھا، جس نے ہر امیر و غریب کی رسائی تعلیم تک کر دی اور محض 15 برسوں میں تعلیم کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ دوسرا اقدام یہ کیا کہ وہ ٹیکنالوجی، جو جاپان چھوڑ رہا تھا، اسے مستعار لے کر اپنی معیشت (جس کا انحصار کبھی پام آئل اور ربر پلانٹس پر ہوا کرتا تھا) کو صنعتی بنانے کی طرف راغب کیا۔ یوں ملائشیا 1990ء کے عشرے میں ایک تیزی سے ترقی کرتا ہوا صنعتی ملک بن گیا۔ یہی قصہ انڈونیشیا کا ہے، جس نے جنرل سوہارتو سے جان چھڑانے کے بعد تیزی کے ساتھ ترقی کی ہے اور ایشیا کی چوتھی مضبوط معیشت بن چکا ہے۔

مگر ہماری حکمران اشرافیہ اس ملک کو فیوڈل کلچر اور نوآبادیاتی طرز حکمرانی سے نکلنے ہی نہیں دے رہی کہ کوئی اور راہ اختیار کی جا سکے۔ کیونکہ ان کے اقتدار کی بقا اسی میں ہے کہ فیوڈل اور برادری کلچر کو برقرار اور نوآبادی طرز حکمرانی کے ذریعے عوام کو کنٹرول میں رکھا جائے، جب کہ پاکستان کی مڈل کلاس اور اہل دانش موقع پرست اور منافق ہیں، جو مختلف مصلحتوں کو بہانہ بنا کر اپنا الو سیدھا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس لیے ملک میں مفلوک الحالی، غربت اور افلاس کے خاتمے کے امکانات دور دور تک نظر نہیں آ رہے۔ لہٰذا ستم رسیدہ محروم طبقات کے بچے اور بچیاں اسی طرح بااثر اشرافیہ کی جنسی ہوس اور جسانی ایذا رسانی کا شکار ہوتے رہیں گے۔ جب کبھی کوئی باضمیر صحافی ان کی چیخوں کو سینہ قرطاس پر منتقل یا نشر کردے گا، تو معاشرے میں تھوڑا سا ابال آجائے گا، مگر پھر ظلم و جبر کی وہی سیاہ رات ان مسکینوں کا مقدر ہو گی۔ کیونکہ حق و انصاف کی صبح صادق ابھی بہت دور ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں