سی پیک کے پاکستان کے لیے فواید

جب یہ عوامی دولت عوام پر خرچ ہونے لگی تو صدیوں سے پس ماندہ بھوکے ننگے عوام بھی ترقی کرنے لگے


Zamrad Naqvi January 09, 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

ماضی کی شاہراہ ریشم، حال کا سی پیک یعنی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ۔ اس کے لیے ہمیں ماضی میں جانا پڑے گا جب پاکستان چین دوستی کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب چین پر پوری دنیا کے دروازے بند تھے کیونکہ چین میں کمیونسٹ انقلاب برپا ہو چکا تھا۔ چنانچہ ہر طرح کی ملکی دولت اور وسائل پیداوار جو کچھ لوگوں اور گروہوں کی ملکیت تھے۔ اسے عوام کی ملکیت بنا دیا گیا۔

جب یہ عوامی دولت عوام پر خرچ ہونے لگی تو صدیوں سے پس ماندہ بھوکے ننگے عوام بھی ترقی کرنے لگے۔ چنانچہ یہ انقلاب گردن زدنی قرار پایا عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے سرخیلوں کی نظر میں۔ چنانچہ عالمی سرمایہ داری نے اس کے خلاف ہر طرح کا پروپیگنڈا کیا۔ ہر برائی اور خرابی اس سے منسوب کی گئی۔ تاکہ برصغیر سے لے کر مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید کے عوام سامراج غلامی سے نجات نہ حاصل کر لیں۔

چین پر یہ بڑا کٹھن وقت تھا۔ اس اانقلاب کو ناکام بنانے کے لیے ہر طرح کی سازش کی گئی۔ لیکن چینی عوام ماؤزے تنگ اور ان کے ساتھی چواین لائی کی قیادت میں متحد تھے چنانچہ ہر سازش ناکام ہوئی اور چینی عوام اور ان کی قیادت ہر آزمائش میں سرخرو ہوئی۔جب چین عالمی تنہائی کا شکار تھا پاک چین دوستی کی ابتدا ہوئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب دور میں چین کا دورہ کیا جب وہ پاکستان کے وزیر خارجہ تھے۔

کہا جاتا ہے کہ پاک چین دوستی کی بنیاد رکھنے والے بھٹو تھے۔ انھوں نے جان لیا تھا کہ چین پاکستان کی مستقبل سازی اور سالمیت کی حفاظت میں کیا کردار ادا کر سکتا ہے اس وقت سرد جنگ شروع ہوئی تھی اور دنیا دو بلاکوں میں بٹ رہی تھی۔ ایک طرف امریکی کیمپ تھا تو دوسری طرف روسی بلاک۔ امریکی بلاک دنیا کے سرمایہ دار ملکوں اور ان کے طفیلوں پر مشتمل تھا۔ پاکستان امریکی بلاک کا حصہ تھا، آج بھی ہے۔ جب کہ روسی بلاک میں وہ ممالک اور مظلوم اقوام شامل تھیں جو سامراجی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے تھے۔ پاکستان امریکی کیمپ کا حصہ ہونے کے باوجود کمزوری اور غیریقینی صورتحال کا شکار تھا۔

بھارت کے مقابلے میں اس کمزوری کو دور کرنے کے لیے پاکستان نے امریکا کی ہر طرح کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ سوویت یونین کے خلاف فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کیا۔ اپنے ملک کو میدان جنگ بناتے ہوئے خود کو دہشتگردوں اور دہشتگردی کا عالمی مرکز بنا لیا۔ لیکن ان سب قربانیوں اور خدمت گزاریوں کے باوجود امریکا کا جو جھکاؤ بھارت کی طرف ہی رہا۔ ایک طرف پاکستان اپنے قیام سے ہی امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کی سرتوڑ کوشش کرتا رہا تو دوسری طرف امریکا اور سوویت یونین بھارت کی خوشنودگی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے میں مصروف رہے۔

سوویت یونین کے خاتمے سے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ عالمی سرمایہ داری نے سوشلزم کو شکست دے دی۔ سرمایہ دارانہ نظام کا پوری دنیا پر غلبہ ہو گیا اور دنیا کے ممالک جوق در جوق کھلی منڈی کی معیشت کو اپنانے لگے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے نتیجے میں دنیا کی کل دولت کا نصف سے زائد حصہ چند درجن افراد کی ملکیت بن گیا۔ اس ظالمانہ ارتکاز کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج دنیا میں اربوں لوگ رات کو بھوکے سونے پر مجبور ہیں۔چین اب عالمی سرمایہ داری نظام کا ناگزیر حصہ ہے۔ ایسا حصہ جس کے بغیر اس نظام کا چلنا مشکل ہے۔

چین کے امریکا یورپ جاپان اور دیگر مغربی ممالک سے تضادات ہو سکتے ہیں لیکن سرمایہ داری نظام سے نہیں۔ روس میں جہاں کمیونزم سوشلزم کا تجربہ ہوا۔ اب وہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے۔چین امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ اس کی تیز رفتار معاشی ترقی نے جاپان جرمنی سمیت دنیا کے دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سی پیک قدیم ترین شاہراہ ریشم کا جدید ترین تصور ہے جس کے ذریعے چین اپنی پیداوار کو سینٹرل ایشیا بحیرہ روم اور یورپ تک پہنچانا چاہتا ہے۔ چین کی معاشی ترقی سے یورپ جاپان اور خاص طور پر امریکا کی معاشی بالادستی خطرے میں پڑ گئی ہے۔

یہ معاشی جنگ ہے جو سرمایہ دارانہ نظام کے کھیل کا حصہ ہے۔ اپنی گرتی ہوئی شرح پیداوار کی وجہ سے چین کے منصوبہ سازوں نے کمال کا منصوبہ سی پیک معاشی راہداری کی شکل میں بنایا تاکہ اس کی پیداوار کم ترین لاگت میں دنیا کے دوسرے حصوں تک پہنچ سکے اس کا اندازہ اس سے لگائیں کہ گوادر بندر گاہ استعمال کرنے سے چین کو روزانہ 6 ملین ڈالر کی بچت ہو گی اور چین کا اس بندر گاہ کو استعمال کرنے سے خلیجی ممالک سے جہاں سے وہ اپنی بیشتر تیل کی ضروریات پوری کرتا ہے سے فاصلہ 12500 کلو میٹر (اور 45 دن پر تیل چین پہنچنے میں لگتے ہیں اب دس دن لگیں گے) سے صرف ڈھائی ہزار کلو میٹر رہ جائے گا۔ یعنی چین پاکستانی معاشی راہداری استعمال کر کے ناقابل بیان ان گنت معاشی اور اسٹرٹیجک فوائد حاصل کرے گا۔ جب کہ پاکستان کو بھی اس سے فوائد حاصل ہوں گے، لیکن چین کے مقابلے میں بہت کم۔

سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان میں لوٹ مار کرپشن کا جو نظام رائج ہے اس کی موجودگی سی پیک کے فوائد پاکستانی عوام کو بھی حقیقی معنوں میں مل سکیں گے یا حکمران طبقات اور ان کے طفیلیے گروہ ہی فیضیاب ہوں گے۔ پاکستانی عوام کو یہ جاننا چاہیے کہ پاک چین معاشی راہداری واحد نہیں بلکہ چین دنیا میں ایسی مزید 5 معاشی راہداریاں قائم کر رہا ہے۔

پاک چین اقتصادی راہداری کی سرمایہ کاری میں 35 ارب ڈالر امداد نہیں بلکہ یہ قرضے کی شکل میں پاکستان کو دیے گئے ہیں جو بالآخر پاکستانی قوم اور ان کی نسلوں کو سود سمیت واپس کرنے ہیں۔

چین ایک ابھرتا ہوا سامراج ہے جو امریکا کی جگہ لینے جا رہا ہے۔ ہمیں سی پیک کے صرف مثبت رخ کو ہی سامنے نہیں رکھنا چاہیے بلکہ یہ بھی دیکھنا ہے کہ ہماری معیشت چین کے کسی حد تک کنٹرول میں آئے گی اور اس کے اثرات پاکستانی سیاست اور سماج پر کتنے پڑیں گے۔

پانامہ لیکس کے حوالے سے اہم تاریخیں 16-13-12-9تا 18 جنوری۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔