جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں ساتواں اور آخری حصہ

اگر آپ نےچوں چوں کا مربہ صرف محاوروں میں سنا ہے توآپ بلوچستان حکومت کی شکل میں اسکی عملی اور واضح مثال دیکھ سکتے ہیں


شاہد کاظمی January 09, 2017
کثیر جماعتی اتحاد کو شاید ایوان سے نکلنے کی فرصت نہیں ملتی ورنہ وہ جان سکیں کہ بلوچستان جیسے امیر مگر غریب صوبے میں تعلیم، صحت، روزگار کے کیا مسائل ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: گزشتہ عام انتخابات کے بعد جہاں اِس شک پر مہر ثبت ہوگئی کہ پاکستان میں باری کی سیاست اپنے عروج پر ہے وہیں ایک دوسرے کو ہر اچھے بُرے کام میں تحفظ دینے کی روایت بھی سرائیت کرتی جارہی ہے۔ عام انتخابات کے بعد سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ہر دھڑے نے ملک کا ایک مخصوص حصہ اپنے مفادات کے لئے مختص کرلیا ہے۔

سندھ میں حسبِ سابق بھٹو ازم کا راج ہے، تو پنجاب میں حالات بناء کسی تبدیلی کے پاکستان مسلم لیگ نواز کے حق میں ہموار ہیں۔ ہاں تھوڑی سی تبدیلی یہ آئی ہے کہ اِس بار خیبرپختوانخوا ایک نئی پارٹی کے حصے میں آگئی اور وہ بھی حصہ بقدرے جثہ کی عملی مثال بنی ہوئی ہے۔ نعروں و دھرنوں کے علاوہ عمل سے کوسوں دور، یعنی سب اپنی اپنی ہمت کے مطابق وطنِ عزیز پر اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھے ہیں، مگر ایک صوبہ ایسا بھی ہے جہاں کسی بھی پارٹی کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہیں ہے بلکہ وہاں قدم قدم پر الگ منظر واضح ہے، اور وہ ہے صوبہ بلوچستان۔

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پہلا حصہ)

اپوزیشن سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (دوسرا حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (تیسرا حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (چوتھا حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (پانچواں حصہ)

جمہوریت سے عوام کی ٹوٹتی امیدیں (چھٹا حصہ)

اگر آپ نے چُوں چُوں کا مربہ صرف محاوروں میں ہی سنا ہے اور عملی شکل میں کبھی نہیں دیکھا تو آپ بلوچستان حکومت کی شکل میں اِس کی واضح مثال دیکھ سکتے ہیں۔ حکومت نہ ہوئی کہ وراثتی جائیداد ہوگئی کہ ڈھائی سال ایک حکومت کرے گا اور ڈھائی سال دوسرا۔ نہ جانے یہ وطن پرستی کا کون سا جذبہ ہے جو وزارت، مشاورت یا کرسی کے بِناء صوبے یا ملک کی خدمت نہیں کرنے دیتا، یا پھر ایسا ہوسکتا ہے کہ جناب ڈھائی سال آپ نے صوبے کے وسائل پر ہاتھ صاف کیا اور اب ڈھائی سال ہمیں دیجیئے۔ ڈھائی سال باگ ڈور نیشنل پارٹی نے سنبھالی اور اب ڈھائی سال وفاقی حکمران جماعت کے حصے میں آئی۔

لگتا ہے یہ بے پر کی کسی دشمن نے اُڑائی ہے کہ یہ صوبہ غریب ترین ہے۔ جب ایک صوبے کے ٹوائلٹ تک سے نوٹوں کی گڈیاں نکلتی ہوں تو وہ غریب کیسے ہوسکتا ہے؟ ڈھائی سالہ پروگرام کس کامیابی سے جاری ہے، اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کچھ عرصہ قبل 60 کروڑ سے زائد کی رقم ایک سیکرٹری سطح کے بندے کے گھر سے برآمد ہوئی جبکہ سونا اُس کے علاوہ ہے۔ اب اندازہ لگا لیجیئے کہ باقی صوبے میں کیا حال ہوگا۔

اقتدار کی بندر بانٹ سے فرصت ملے تو شاید اِس غریب صوبے کے حکمران سوچ سکیں کہ ریکوڈک بھی اسی صوبے میں ہے جو چاغی کا ایک علاقہ ہے اور سونے اور تانبے کے ذخائر سے مالامال ہے اور یہ پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوسکتا ہے مگر مجرمانہ غفلت، کوتاہی، بے ضابطگیوں سے یہ منصوبہ پچھلے کئی سال سے لٹکا ہوا ہے۔ کثیر جماعتی اتحاد کو شاید ایوان سے نکلنے کی فرصت نہیں ملتی ورنہ وہ جان سکیں کہ اِس امیر مگر غریب صوبے میں تعلیم، صحت، روزگار کے کیا مسائل ہیں، اور کیوں وہاں کے لوگوں میں دن بدن احساسِ محرومی بڑھ رہا ہے۔

اِس دھرتی پر ایک وار تو ہمسایہ ملک کر رہا ہے لیکن کچھ غلطی اور خامی ہماری بھی ہے کہ ہم اس صوبے کی عوام کی محرومیوں کے لئے آغازِ حقوق بلوچستان پیکج کا اعلان تو کرتے ہیں مگر اُن کو اُن کا حق نہیں دیتے۔ اب ایک نئی محرومی نے جنم لے لیا ہے کہ سی پیک سے پیدا ہونے والے معاشی مواقع سے مقامی لوگوں کے بجائے غیر مقامی لوگوں کو فائدہ دیا جائے گا، اور ہم بطور قوم حسبِ سابق شاید اُن کی اس محرومی کا قلع قمع یا اُن کے دلوں سے یہ غلط فہمی دور کرنے کے لئے کچھ نہیں کر پائیں گے۔ شدت پسند عناصر اِس صوبے کے لئے باقی ملک کی طرح مزید عذاب بنے ہوئے ہیں۔ عالمی طاقتوں نے بھی اپنی ریشہ دوانیوں کا مرکز اِس غریب صوبے کو بنایا ہوا ہے اور اپنے بھی محرومیوں کا ازالہ کرنے سے قاصر ہیں۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق بلوچستان میں ایک ٹریلین ڈالر سے زائد کے قدرتی وسائل بشمول سونا، تانبا، کوئلہ، قیمتی پتھر اور قدرتی گیس کے ذخائر موجود ہیں۔ گہرے سمندر کی بندرگاہ ایک اضافی صفت بن گئی ہے، مگر کیا حل ہو عاقبت نااندیشی کا کہ ہم ایک بازو گنوانے کے بعد بھی سنبھل نہیں رہے اور بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کے لئے خاطر خواہ اقدامات کرنے میں بھی سنجیدہ نہیں۔ عام انتخابات کے بعد وہاں کے عوام کو اُمید ہو چلی تھی کہ تمام جماعتوں کے اتحاد پر مشتمل بناء کسی اختلاف شاید صوبے کی بہتری کے لئے کام کرسکیں مگر اب تک ایسا ہوتا ممکن نظر نہیں آتا، اور عوام کی ٹوٹی اُمیدوں کے چراغ رفتہ رفتہ گل ہورہے ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں