لاثانی امتیاز احمد

2016 کا پرآشوب سال جاتے جاتے ایک اور زخم لگا کر چلا گیا


Shakeel Farooqi January 10, 2017
[email protected]

لاہور: 2016 کا پرآشوب سال جاتے جاتے ایک اور زخم لگا کر چلا گیا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر امتیاز احمد 31 دسمبر بروز ہفتہ صبح کے وقت اس جہان فانی سے رخصت ہوگئے۔ وہ 5 جنوری 1928کو لاہورمیں پیدا ہوئے اور اپنی جنم بھومی میں ہی آسودہ خاک ہوئے۔

امتیاز احمد کا نام ہم نے سب سے پہلے اپنے والد صاحب کے منہ سے سنا تھا جوکپتان عبدالحفیظ کاردار، بولرز خان محمد اور فضل محمود اور بلے بازوں نذر محمد، حنیف محمد اور وکٹ کیپر بیٹسمین امتیاز احمد کے بڑے زبردست مداح تھے۔ ''پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں'' والی کہاوت امتیاز احمد پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔ ان کی خداداد صلاحیت کے جوہر اسلامیہ ہائی اسکول، بھاٹی گیٹ لاہور کے زمانے سے کھلنے شروع ہوگئے تھے۔ پھر اس کے بعد جب قیام پاکستان سے قبل انھوں نے پہلی مرتبہ 1944-45 ہندوستان کے مشہور کرکٹ ٹورنامنٹ رانجی ٹرافی میں اپنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا تو اہل نظر کو اندازہ ہوگیا کہ یہ ہونہار کرکٹ کے میدان میں اپنی کامیابی کے خوب جھنڈے گاڑے گا۔

یہ بھی امتیاز احمد کا ہی طرہ امتیاز کہ انھوں نے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے سے قبل بھی ہندوستان کے مشہور شہر بمبئی میں جو اب ممبئی کہلاتا ہے، برابورن اسٹیڈیم میں کامن ویلتھ کی ٹیم کے خلاف ہندوستان کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو XI کی جانب سے 1952 میں ناقابل شکست 300 رنز اسکور کرکے اپنی بے پناہ صلاحیت کا لوہا منوالیا تھا۔ امتیاز کو اس میچ میں کھیلنے کے لیے خصوصی طور پر پاکستان سے بلوایا گیا تھا۔ ان کی اس ٹرپل سنچری میں اس وقت کے نامور بھارتی کرکٹرز روسی مودی، وجے منجریکر، مشتاق علی اور ایس جئے سنگھے نے ان کے ساتھ شراکت داری کی تھی۔

سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس میچ میں امتیاز نے اس دور کے مایہ ناز گیند بازوں کیتھ ملر، ڈیرک شیکلٹن اور اسپنر سونی رامادھین کی خوب پٹائی کی تھی اور انھیں چوکڑی بھلادی تھی۔ اس زمانے میں کیتھ ملر جیسے طوفانی بولر کا مقابلہ کرنا اس لیے بھی آسان نہیں تھا کیونکہ تب بلے باز کی حفاظت کے لیے ہیلمٹ ایجاد نہیں ہوا تھا اور تیز بال بولر کا سب سے بڑا اور خطرناک ہتھیار ہوا کرتا تھا۔ چنانچہ جب امتیاز احمد نے اس میچ کی دوسری اننگز میں اپنی بلے بازی شروع کی تو کھیل کے درمیان انھیں آر آر ڈؤوی کی گیند سے چہرے پر ہٹ ہوجانے کی وجہ سے تھوڑی دیر کے لیے ریٹائر ہوکر پویلین جانا پڑا مگر واپسی پر انھوں نے رہی سہی کسر پوری کردی۔

1954 میں جب پاکستان کی ٹیم نے انگلینڈ کا دورہ کیا تو اس کی پہلی فتح کے دوران امتیاز نے فضل محمود کی گیندوں پر سات کیچ پکڑ کر اپنی وکٹ کیپنگ کا لوہا منوالیا اور Caught Imtiaz bowled Fazal ایک روایت سی بن گئی۔ 1958 میں پاکستان ٹیم کے دورہ ویسٹ انڈیز میں بھی امتیاز احمد نے اپنی صلاحیت کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ برج ٹاؤن کے تاریخی ٹیسٹ میچ میں جہاں لٹل ماسٹر حنیف محمد نے 337 رنز کی شاندار اننگز کھیل کر میچ کا پانسہ پلٹ دیا تھا امتیاز احمد کے 91 رنز بڑی اہمیت کے حامل تھے جو ان کی جرأت مندانہ اور انتہائی جارحانہ بلے بازی پر مشتمل تھے۔

انھوں نے ویسٹ انڈیز کے رائے گلکرائسٹ اور ڈیوڈنی جیسے طوفانی بولرز کی جو کالی آندھی کہلاتے تھے خوب دھنائی کی۔ وہ عبدالحفیظ کاردار کی قیادت میں تشکیل پانے والی پہلی پاکستانی ٹیم کے انتہائی اہم اور سرگرم رکن تھے۔ انھوں نے 1952 سے 1962 کے دس سالہ قابل ذکر عشرے میں 41 ٹیسٹ میچوں میں 29 کی اوسط سے 2079 رنز اسکور کیے اور وکٹ کے پیچھے 77 کیچ پکڑے جب کہ 66کھلاڑیوں کو اسٹمپ آؤٹ کیا۔

دائیں بازو کے زبردست اسٹروک پلیئر 180 فرسٹ کلاس میچوں میں شرکت کرکے 137 اعشاریہ 37کی اوسط سے 10,391 رنز اسکور کیے۔ انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز قیام پاکستان سے قبل 1944 میں کیا اور غیر منقسم ہندوستان کی مختلف ٹیموں میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام بھی انھوں نے اسی شان کے ساتھ 1962میں انگلینڈ کے اوول ٹیسٹ میچ میں کیا اور غیرمنقسم ہندوستان کی مختلف ٹیموں میں اپنی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ اپنے ٹیسٹ کیریئر کا اختتام بھی انھوں نے اس شان کے ساتھ 1962 میں انگلینڈ کے اوول ٹیسٹ میچ میں دھواں دھار 49 اور 98 رنز اسکور کرکے کیا۔ امتیاز اور فضل محمود محض ساتھی کھلاڑی ہی نہیں بلکہ آپس میں بڑے گہرے دوست بھی تھے۔

دونوں نے کئی برسوں تک ایک دوسرے کے ساتھ مل کر پنجاب یونیورسٹی کی ٹیموں کا انتخاب بھی کیا۔ اگرچہ کئی کھلاڑی Reverse Swing بولنگ کی ایجاد کے دعوے دار ہیں لیکن امتیاز صاحب کا کہنا تھا کہ اس کا سہرا ان کے ہم عصر فاسٹ بولر خان محمد کے سر تھا، جو پاکستان کی پہلی قومی کرکٹ ٹیم کے اوپننگ بولر تھے۔ اگرچہ امتیاز احمد نے کھلاڑی کی حیثیت سے اپنے کیریئر کا آغاز تقسیم سے پہلے شمالی ہندوستان سے کیا لیکن ان کی اصل شہرت اس وقت ہوئی جب انھوں نے 1945-46 میں آسٹریلین سروسز کے خلاف کھیلتے ہوئے کیتھ ملر، سیل پیپر اور پیٹی فورڈ جیسے طوفانی بولرز کے چھکے چھڑا دیے۔

امتیاز احمد اور کرکٹ کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ انھوں نے نہ صرف ایک بے مثال کرکٹر کی حیثیت سے ناقابل فراموش خدمات انجام دیں بلکہ ایک انتہائی مخلص، غیر جانبدار اور باوقار قومی سلیکٹر کے طور پر بھی گراں قدر خدمات انجام دیں جن کے اعتراف میں انھیں بجا طور پر پرائیڈآف پرفارمنس اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا جس کے وہ پوری طرح مستحق تھے۔ اس کے علاوہ پی سی بی کی جانب سے انھیں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ انھوں نے پاکستان ایئرفورس میں 27 سالہ طویل خدمات بھی انجام دیں جہاں سے وہ بحیثیت ونگ کمانڈر شان و شوکت کے ساتھ سبک دوش ہوئے۔

انھوں نے کئی سال تک انڈر 19کرکٹرز کی کوچنگ کی اور تین برس تک پاکستان ویمنز کرکٹ ٹیم کے لیے مشیر کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ پی اے ایف اسکول آف فزیکل فٹنس پشاور کے سربراہ بھی رہے جس کے دوران انھوں نے اسکواش کے مایہ ناز ہیرو جان شیر خان کو بھی تربیت دی۔ امتیاز احمد امتیازی خصوصیات و صفات کے حامل تھے اور اس اعتبار سے وہ اسم بامسمی تھے۔ اردو شاعری سے بھی انھیں بڑا گہرا شغف تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ایک انتہائی نیک دل اور مرنجان مرنج قسم کے انسان تھے جن کے بارے میں پرخلوص دعائے مغفرت کے ساتھ یہی کہنے پر اکتفا کیا جاسکتا ہے:

خدا بخشے کہ کیا کیا خوبیاں تھیں مرنے والے میں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں