شہر قائد کو نظر انداز نہ کریں

موجودہ حکومت کو تقریباً چوتھا سال ہے، لیکن شہر کراچی میں کوئی قابل ذکر کام نہ ہوا


Syed Mohsin Kazmi January 13, 2017
[email protected]

موجودہ حکومت کو تقریباً چوتھا سال ہے، لیکن شہر کراچی میں کوئی قابل ذکر کام نہ ہوا، نہ شہر کی گندگی کا حل نکلا۔ دوسرے صوبوں کے دارالحکومت سے کراچی کی حالت بہت بدتر ہے۔ یہ شہر جو کبھی بہت صاف ستھرا ہوا کرتا تھا، فجر کی نماز سے پہلے اس شہر کی تمام شاہراہیں دھوئی جاتی تھیں۔ تمام پارک، تمام چورنگیاں سبزہ دار تھیں۔ گلی کوچے میں کسی جگہ گندگی نہ تھی بسیں کافی تعداد میں تھیں، ہر 2 منٹ کے بعد دوسری بس آجاتی تھی۔ بسوں کی حالت بھی اچھی تھی جو باقاعدہ اسٹاپوں پر رکتی تھیں، ہر مسافر آرام سے بلاخوف اتر جاتا تھا۔ تمام سرکاری اداروں کی عمارتیں پر رنگ و روغن ہوتا تھا۔ ہر ڈسپینسری میں صفائی بھی تھی اور ادویات بھی موجود تھیں۔ پورا شہر روشنیوں سے جگمگاتا تھا۔ رات 2-3 بجے تک بھی لوگ بلا خوف آمدورفت کرتے تھے۔ اس شہر میں کے ڈی اے، کے ایم سی، کے ای ایس سی کافی حد تک بہتر کام کرتے تھے۔

رشوت اس وقت بھی چلتی تھی، مگر آٹے میں نمک کے برابر۔ مالی اداروں میں رشوت کا تناسب بہت کم تھا۔ کھیل کے میدان ہوں یا تفریح گاہیں، انتہائی صاف و شفاف ہوتی تھیں۔ مدرسوں اور کالجوں میں حاضری بھی مناسب تھی۔ مگر آج 30 سال میں یہ شہر اجڑ گیا۔ ہر طرف ٹوٹی ہوئی سڑکیں، گندے بہتے ہوئے گٹر، اجڑے اور لاوارث پارکس ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ کچھ ٹوٹی ہوئی بسیں چلتی ہیں، نہ ان میں آرام دہ کرسیاں ہیں، نہ ہی چھت کے بیچ والی بار، جسے کھڑے ہوکر پکڑا جا سکے۔ کوئی بس اسٹاپ پر نہیں رکتی، چلتی ہوئی بس میں چڑھنا اور اترنا ہوتا ہے۔ اسٹاپوں پر جہاں بسیں رکتی ہیں، اس کے اترنے کی جگہ پر رکشہ، موٹر سائیکل سوار اتنا گزرتے ہیں کہ ہر مسافر اپنی جان خطرے میں ڈال کر اترتا ہے۔

اس شہر قائد کے کسی کونے، کسی چوارہے، کسی بازار میں چلے جائیں، کوڑا کرکٹ کا ڈھیر ملے گا۔ بے ہنگم تجاوزات اتنی کہ پیدل چلنے والوں کے لیے 10 فٹ کے بجائے 2 فٹ کی جگہ ہے۔ ان تمام معاملات کے لیے ادارے بھی ہیں، ان کے پاس بجٹ بھی، لیکن سارا عملہ اتنا بدعنوان ہوچکا ہے کہ وہ اپنے دفتروں سے باہر بھی نہیں نکلتا ہے۔ اس شہر کی مثال میں بار بار اس لیے دیتا ہوں کہ اس شہر کے ساتھ سازش کی گئی، یہاں ریاست کو مفلوج کیا۔ ہر شہری کسی نہ کسی شکل میں بھتہ، چندہ یا غنڈہ گردی ٹیکس ادا کرتا رہا ہے۔

2008ء سے 2015ء تک بلدیاتی نظام ختم کرکے دوسرے انتخابات نہیں کروائے، اس طرح پورا بلدیاتی ادارہ تباہ ہوگیا۔ جس نے چاہا، جہاں چاہا قبضہ کرلیا، نوجوانوں کو بے راہ روی پر ڈال دیا گیا۔ کوئی ترقیاتی کام نہ ہوا، شہر کی سڑکیں برباد ہوگئیں۔ کچھ ترقیاتی کام جنرل مشرف کے زمانے میں کراچی میں ہوئے، جس میں کراچی میئر نعمت اللہ نے اچھے کام کیے اور پھر مصطفیٰ کمال نے بڑی لگن اور جانفشانی سے جنرل پرویز مشرف کے دیے ہوئے فنڈز سے اس شہر کو پلوں اور سڑکوں کی تعمیر نو کرکے، گرین بسیں چلا کر سیوریج کا پائیدار نظام بنادیا۔ اگر بلدیاتی انتخابات کی مدت ختم ہوتے ہی انتخابات کرا دیے جاتے تو آج یہ شہر بہت بہتر ہوتا۔

بھلا ہو سپریم کورٹ کا، جس نے ایکشن لے کر حکمرانوں پر دباؤ ڈالا اور بلدیاتی الیکشن ہوئے، جو جمہوری دور میں پہلی مثال ہے، اور اب سپریم کورٹ نے مردم شماری کا حکم دے کر بہت اچھا قدم اٹھایا۔ ہم پاکستانی عدالت عظمیٰ کو سلام پیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں وہ سوموٹو ایکشن کے ذریعے حکومت کو مجبور کریں کہ وہ عوام کی بنیادی ضرورتیں، ٹرانسپورٹ، پانی، بجلی اورگیس انفرااسٹرکچر کو بہتر بنانے کا حکم جاری کریں گے۔

ہر گھر سے باقاعدہ بجلی، پانی، گیس کے بل لیے جاتے ہیں اور لوڈشیڈنگ بجلی اور گیس کی بھی ہوتی ہے۔ ہر سہ ماہی بلوں میں اضافہ ہوتا ہے، خاص طور پر بجلی دینے والے ادارے بلوں کی من مانی رقم وصول کرتے ہیں۔ شکایت پر کوئی سنوائی نہیں ہوتی۔ یہ سارے حالات ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں اس طرح نہ تھے۔ وہ عوام کی تکلیف پر فوری ایکشن لیتے تھے۔ عوامی پروجیکٹ بنواتے تھے۔ اس لیے آج جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہیں، انھیں چاہیے کہ بھٹو کے وژن پر توجہ دیں، ورنہ یہ نعرہ بوگس ہے۔

ہمارے اس شہر کے مسائل میں ٹریفک کا معاملہ ٹریفک آئی جی کو کرنا ہے، کے ڈی اے اور کے ایم سی کے اعلیٰ منصب کے اداروں کو کرنا ہے۔ کیا وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ یہ نہیں کرسکتے کہ اپنے ماتحت اداروں کے وزار اور مشیر سیکریٹری کو مجبور کریں کہ وہ وقت پر آفس آئیں، شہر کراچی کے حالات میں بہتری لائیں۔ میں نے کافی عرصہ بیوروکریٹس کے ساتھ کام کیا ہے، خاص طور پر کمشنروں کے ساتھ۔ ہر ادارے کے چیف ایگزیکٹو کو چیف منسٹر ہفتہ وار بلاکر یہ پوچھتا تھا، آپ نے اب تک ایسا کون سا کام کیا ہے جو پہلے نہیں کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو نے وزیروں کو مجبور کیا تھا وہ عوامی کچہریاں لگائیں، اور جہاں جہاں عوامی کام ہوتے ہیں، یا یوٹیلٹی کے کام ان میں عوام کی مشکلات کو ختم کرکے سہل کریں۔ انھوں نے اپنے زمانے میں بننے والے پاسپورٹ کے نظام میں تھانوں کی انکوائری ختم کرکے حکم دیا تھا ہر ایک کو چوبیس گھنٹے پاسپورٹ دیا جائے۔ انھوں نے ایک عوامی شکایت پر وزارت داخلہ کو حکم دیا تھا کہ کسی کے گھر میں کوئی چھاپہ نہ مارا جائے، جو کچھ چادر اور چار دیواری میں ہورہا ہے، اس میں مداخلت نہ ہو، سوائے اس کے کہ کوئی ایسی شکایت جو ثبوتوں کے ساتھ ہو، وہاں بھی مجسٹریٹ کے حکم پر ہی جاسکتے تھے۔

وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ اپنی گڈ گورننس بنائیں۔ وہ ایک سمجھدار، تعلیم یافتہ اور تجربہ کار بھی ہیں، اور کچھ کرنا بھی چاہتے ہیں۔ اگر وہ بے اختیار ہیں تو استعفیٰ دے دیں۔ اس شہر کی جتنی اہمیت ہے اس کا احساس کسی کو نہیں۔ پی پی پی کا یہاں ووٹ بینک کم ہے اس لیے وہ اس پر توجہ نہیں دیتی، جب کہ ذوالفقار علی بھٹو نے تو اس شہر کو بلند کیا تھا۔

سند ھ کی گورنرشپ کسی غیر سیاسی شخصیت کو دے دی جائے جو چاق و چوبند ہو اور وفاق اور صوبائی وزیراعلیٰ مرکز پولیس، ایف آئی اے، کے ڈی اے، کے ایم سی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ایسے سربراہ لگائیں جو قابل بھی ہوں اور ان کی شہرت بھی اچھی ہو، مگر انھیں کم سے کم 3 سال تک اس منصب پر رہنے کی ضمانت ہو، تاکہ وہ پورے اختیارات سے کام کریں اور عوام میں اب اداروں کا اعتماد بحال ہو، جو فی زمانہ نہیں ہے۔ کراچی کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں