فلسطین میں 2610 نئے یہودی گھروں کی تعمیر…
امریکا میں قائم ایک ہزار تنظیمیں فلسطین میں یہودی آباد کاری کے لیے یہودیوں کی مالی معاونت کررہی ہیں
اسرائیل نے بارہ سال کے بعد مقبوضہ بیت المقدس کے نواح میں واقع ایک بستی میں2610 نئے یہودی مکانوں کی تعمیر کی منظوری دے دی ہے۔ اسرائیلی میونسپل کمیٹی کے مطابق چند ہفتوں یا مہینوں کے اندر وہاں تعمیرات کا آغاز کردیا جائے گا۔ یہودی بستیوں کی آبادکاری کی نگرانی کرنے والی اسرائیلی تنظیم ''اب امن'' کا کہنا ہے کہ نئے مکانوں کی تعمیر کی منظوری حتمی ہے۔ اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس اور مغربی کنارے میں گزشتہ ماہ یہودی آبادکاروں کے لیے تین ہزار نئے مکانوں کی تعمیر کا اعلان کیا تھا۔ جب کہ فلسطینی علاقوں میں چھ ہزار نئے مکان تعمیر کرنے کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔ ایک اسرائیلی عہدے دار کے مطابق یہ فیصلہ فلسطین کو اقوام متحدہ میں غیر رکن ریاستی مبصر کا درجہ دینے کے ردعمل میں کیا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے اپنی کابینہ سے کہا تھا کہ یہودی یروشلم میں کہیں بھی رہ سکتے ہیں اورگھر بنا سکتے ہیں۔ ان علاقوں میں جہاں یہودی کوگھر بنانے کا حق حاصل ہے،شہر کے مشرق میں عرب آبادی والے علاقے بھی شامل ہیں۔جب کہ فلسطین کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے کہا ہے کہ اسرائیل مقبوضہ سرزمین پر نئی یہودی بستیوں کی تعمیر پر قابل احتساب ہوگا اور یہودی آباد کاروں سے بھی بازپرس ہوسکتی ہے۔ امریکا، اقوام متحدہ اوراس کی سلامتی کونسل نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کی سرزمین پر یہودی بستیوں کی تعمیر کے منصوبے کی مذمت کی ہے۔ اس کے علاوہ برطانیہ اور فرانس نے بھی اسرائیل کے یہودی بستیوں کی تعمیر میں توسیع کے منصوبے کے خلاف ردعمل کا اظہار کیا۔ یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ یروشلم کے گرد مزید گھروں کی تعمیر کے بارے میں تازہ ترین انتہائی پریشان کن اسرائیلی منصوبوں کی مخالفت کرتی ہے جس سے امن کا عمل مزید مجروح ہو گا۔
امریکا سمیت کئی ممالک ہر بار اسرائیل کے ایسے اقدام کی صرف مذمت کرتے ہیں۔ اسرائیل کی طرف سے ہٹ دھرمی و ناانصافی کو روکتے نہیں ہیں۔ یہ زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ نہیں۔ اسرائیل جب سے معرض وجود میں آیا ہے، وہ اپنی اسی روش پر قائم ہے۔ فلسطینیوں سے ظلم وجور، قوت اورمالی تحریص کے ہتھکنڈوں سے زمین ہتھیانا، فوجی حملوں کے ذریعے اپنی سرحدوں میں توسیع کرنا اور پوری دنیا سے یہودیوں کو لاکر فلسطینیوں سے چھینی گئی زمین میں آباد کرنا صہیونی حکومت کا مستقل طرز عمل ہے۔ اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی تعمیر کی تاریخ پر نظر ڈالنا حقائق کو سمجھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
فلسطینی ادارہ شماریات کی ایک چشم کشا رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت 1967ء میں غزہ کی پٹی پر قبضے کے بعد سے علاقے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے 144منصوبے بنا چکی ہے، جن پر مکمل عمل درآمد ہوچکا ہے۔ 26 بستیاں تو مقبوضہ بیت المقدس میں جب کہ رملہ اور البریح ضلع میں 24 یہودی بستیاں قائم کی گئی ہیں۔ اسرائیل نے 16 یہودی بستیوں کو 1948ء میں زیر تسلط آنے والے علاقوں کے ساتھ ملا دیا ہے، تاکہ صہیونی ریاست کے توسیع پسندانہ عزائم پورے ہوسکیں۔ مقبوضہ بیت المقدس کے علاقے میں فلسطینیوں کی ہتھیائی گئی اراضی پر 26یہودی بستیوں میں 259712 صہیونی رہائش پذیر ہیں۔
یہ تعداد غرب اردن میں یہودی آباد کاروں کا 54.6فیصد حصہ بنتی ہے۔ البریح اور رملہ کے علاقہ میں 24یہودی رہائشی منصوبوں میں 77120 یہودی رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے غرب اردن میں آباد کار یہودی کل آبادی کا 16فیصد ہیں جب کہ عملی طور پروہ پورے غرب اردن کے 42فیصد علاقے پرقابض ہیں۔ اسرائیل عالمی برادری کی طرف سے مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی آبادیاں قائم نہ کرنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے آئے روز مظلوم فلسطینیوں کی زمینیں غصب کر کے نئی یہودی بستیاں تعمیر کررہا ہے۔
اب تک مقبوضہ مغربی کنارے میں3 لاکھ سے زیادہ یہودی آبادکاروں کو بسایا جا چکا ہے جب کہ 22لاکھ مقامی فلسطینی اس علاقے میں رہ رہے ہیں۔ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں مغربی کنارے،غزہ کی پٹی اور القدس پر قبضہ کیا تھا، جس کے بعد اس نے دوسرے ممالک سے آنے والے یہودیوں کی فلسطینی علاقوں میں آبادکاری شروع کردی تھی۔ فلسطینیوں کے سینئر مذاکرات کار نبیل بتاتے ہیں کہ ''ہم 19 برسوں سے یہی کچھ ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم نے اوسلو معاہدے پر دستخط کیے تھے، اس وقت آبادکاروں کی تعداد 1,50,000 تھی۔ آج مغربی کنارے میں 450,000 سے بھی زیادہ یہودی آباد کار ہیں۔مقبوضہ مغربی کنارے میں نئی یہودی بستیاں آباد کرنے کے لیے اسرائیلی کابینہ نے 6ملین ڈالر کے فنڈز کی منظوری دی ہے۔ اسرائیلی تنظیمیں مقبوضہ مغربی کنارے میں متعدد نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
فلسطین میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم نے انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں قائم ایک ہزار تنظیمیں فلسطین میں یہودی آباد کاری کے لیے یہودیوں کی مالی معاونت کررہی ہیں۔ اس سلسلے میں مرکز اطلاعات فلسطین کی رپورٹ کے مطابق امریکی ارب پتی ایرفنگ مورفیٹش کی تنظیم سی اینڈ ایم یہودیوں کو آباد کاری کے لیے مدد فراہم کرنے والی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ جو فلسطین میں آباد کیے گئے یہودیوں کو بھاری قیمتوں کے عوض زمینیں اور جائیدادیں خریدنے کے لیے رقوم فراہم کررہی ہے۔ سی اینڈ ایم امریکا کی 1000 این جی اوز میں سب سے بڑی سمجھی جاتی ہے۔
گزشتہ ایک عرصے کے دوران اس تنظیم نے بیت المقدس کے قدیمی شہر میں 70سے زیادہ جائیدادوں اورمختلف مقامات پر اراضی خرید کریہودی آباد کاری کے منصوبوں پرکام شروع کیا ہے۔ یہودیو ں نے مسجد اقصیٰ سے 150میٹر کے فاصلے پر''معالیہ از یتیم'' کے نام سے ایک کالونی بھی تعمیر کرلی ہے جس میں 132رہائشی اپارٹمنٹس ہیں۔ اگر اسرائیل کو اس قسم کے اقدامات سے روکا نہ گیا تو وہ پورے فلسطین پر قبضہ کرسکتا ہے، اس لیے عالمی برادری کو چاہیے کہ بے کس و بے حال فلسطینیوں پر اسرائیل کے ظلم کو روکے۔ کیا کوئی ملک غزہ کے باسیوں کے زخموں پر مرہم رکھتے ہوئے اسرائیل کو غیر قانونی یہودی بستیوں کے قیام سے روکنے کے لیے کوئی اقدام کرے گا؟ ماضی کودیکھتے ہوئے تو امت مسلمہ سمیت کسی سے ایسی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔