ڈیووس اجلاس 2017۔ خدشات امکانات اور مواقع
عالمی اقتصادی فورم اپنی غیر جانب داری کے باعث عالمی سطح پر معتبر تصور کیا جاتا ہے۔۔۔
ہر سال جنوری کے تیسرے ہفتے میں عالمی اقتصادی فورم(WEF)کا سالانہ اجلاس، ڈیووس سوئٹزرلینڈ میں منعقد کیا جاتا ہے۔ اس فورم پر دنیا بھر سے مختلف شعبوں کے لیڈرز عالمی، علاقائی اور صنعتی امور سے متعلق مشترکہ لائحۂ عمل طے کرنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ لاطینی امریکا اور غربی ایشیا سمیت علاقائی سطح پر چھ سے آٹھ اجلاس بھی اسی سلسلے کی کڑی ہیں، جن میں سے دو سے زاید اجلاس چین اور متحدہ عرب امارات میں منعقد ہوں گے۔
عالمی اقتصادی فورم اپنی غیر جانب داری کے باعث عالمی سطح پر معتبر تصور کیا جاتا ہے۔ قومی یا سیاسی مفاد سے بالا تر ہوکر صرف ''دنیا کے حالات بدلنے کے جذبے'' سے کام کرنے والی یہ غیر جانب دار تنظیم سوئز وفاقی کونسل کے سات ارکان کی زیر نگرانی کام کرتی ہے۔ ان سات ارکان پر سوئٹزر لینڈ کی وفاقی حکومت مشتمل ہے اور یہی ارکان مشترکہ طور پر اس ملک کی حکومت و ریاست کے سربراہ ہیں۔
اس برس 17تا 20جنوری کو ہونے والے 47ویں سالانہ اجلاس کا مرکزی موضوع ''ذمے دارانہ قیادت'' ('Responsive Leadership') ہے۔ حکومتوں، کاروبار، تعلیم، عالمی تنظیموں، سول سوسائٹی اور میڈیا سے تعلق رکھنے والے 25سو سے زاید اہم ترین افراد اس فور پر جمع ہوکر دنیا کو درپیش اہم ترین مسائل پر گفتگو کریں گے۔ یہ عالمی لیڈرز ماضی میں بین الاقوامی تعاون کے لیے اپنائے گئے ایسے مختلف نظاموں پر بھی غور کریں جنھیں آج کے پیچیدہ تر ہوتے حالات میں کارآمد بنایا جاسکتا ہے اورکثیر قطبی دنیا میں حقیقی ترقی کی راہیں تلاش کی جاسکتی ہیں۔
اس فورم کے بانی اور ایگزیکٹیو چیئرمین کلوس شواب کے مطابق'' ذمے دارانہ (Responsive)قیادت کا مطلب ہے کہ معاشی و سماجی ترقی کے ثمرات سے محروم رہ جانے والوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی اور عدم اطمینان کا اداراک کیا جائے۔ کیونکہ چوتھے صنعتی انقلاب کے آغاز ہی میں صورت حال مزید غیر یقینی ہوجائے گی اور اس کے اثرات مسقتبل میں ملازمتوں کے مواقع پر بھی مرتب ہوں گے۔''
یہ اجلاس پانچ بنیادی نکات پر توجہ مرکوز کرے گا اور اس میں شرکت کرنے والے قائدین ان ہی نکات کے تناظر میں 2017کے چیلجز کا جائزہ بھی لیں گے۔ وہ پانچ بنیادی نکات یہ ہے 1۔ عالمی اشتراک عمل کے لیے مختلف نظاموں کی مضبوطی۔ 2۔مثبت بیانیے کی مدد سے شناخت پر بحث 3۔عالمی اقتصادی نظام کا احیا 4۔سرمایہ دارانہ نظام میں اصلاحات 5۔چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے تیاری۔ عالمی اقتصادی فورم میں ''ینگ گلوبل لیڈرز'' کے تحت دنیا بھر کے 40برس سے کم عمر کے 8سو خواتین و حضرات کو بلا تفریق رنگ ونسل جمع کیا گیا ہے، یہ مختلف سماجی شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں، شرکاء کے لے پانچ برس کی مدت متعین ہے۔
دنیا کے جن اہم لیڈرز کی شرکت اس برس متوقع ہے، ان میں برطانوی وزیر اعظم تھیریسا مے، چینی صدر شی جن پنگ اور یورپی قیادت سے نیدر لینڈ کے مارک رٹ اور آئرلینڈ کے اینڈا کینی شامل ہیں۔ برطانیہ میں بریٹیکس مہم اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی انتخاب میں کام یابی کو سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور عالمگیریت کے خلاف بڑھتے ہوئے عوامی غیظ و غضب تصور کرنے والے عالمی مقتدر اشرافیہ کے کئی قائدین اس برس اجلاس میں شرکت نہیں کرنا چاہیں گے۔
جغرافیائی سیاست میں ہنگامہ خیز تبدیلیوں نے عالمی سطح پر بڑے چیلنجز پیدا کردیے ہیں۔ آج غیر ریاستی عناصر اپنے مقاصد کی تشکیل نو کرچکے، وہ اپنی صلاحیت کار کو بدلتے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ کررہے ہیں۔ اسی بل پر وہ علاقائی سطح سے بڑھ کر عالمی نظام کو چیلنج کرنے اور اس میں بگاڑ پیدا کرنے کے لیے للکاررہے ہیں۔ شام، عراق، یمن اور لیبیا میں جاری بدامنی مشرق وسطی کے بحران کی سنگین صورت حال کی واضح علامتیں ہیں۔
افغانستان میں جنگ جاری ہے اور رہے گی۔ عالمی سطح پر عدم مساوات کے احساس اور عالمگیریت کے خلاف عوامی غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے جس پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ کلوس شواب کا کہنا ہے ''ان خدشات سے نمٹنے کے لیے یہ کافی نہیں ہوگا کہ ممالک خود کو محفوظ بنانے کی فکر کریں۔ عالمگیریت کے فوائد ہر ایک تک پہنچانا ہی اس کا واحد حل ہے۔'' اقوام اپنے اپنے مفادات کی بنیاد پر ہی اشتراک عمل کرتی ہیں۔ لیکن امریکا ، ٹرمپ کی فتح کے بعد، ''خصوصی مفاد'' پر متوجہ ہوچکا ہے۔ اس اجلاس کے آخری دن، 20جنوری ہی کو ٹرمپ امریکا میں اپنا منصب سنبھال لیں گے۔ سب کی نگاہیں ٹرمپ کی طرز حکمرانی پر جمی ہیں۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں اہم مناصب پر سخت گیر افراد کی تعیناتی سے سیاسی کشمکش میں اضافہ ہوگا۔
جنگی ہتھیار تبدیل ہورہے ہیں۔ سائبر ورلڈ میں حملہ سستا اور دفاع مہنگا ہے۔ نچلی ترین سطح پر دفاع کو یقینی بنانے ہی سے استحکام لایا جاسکتا ہے۔ انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے سی ای او اور صدر ژاں میری گوئہینو لکھتے ہیں'' بیرونی حملوں سے حفاظت کے لیے افراد کو point-to-point encryption کے ذریعے سائبر حملوں سے محفوظ بنانا اور شہریوں کے مابین مقامی سطح پر روابط کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔'' اختیارات کی نچلی حکومتی اور افرادی سطح پر منتقلی کے ایسے انتہائی مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں کہ دہشت گرد اور فتنہ انگیزوں کو اہداف ہی ملنا مشکل ہوجائیں۔
دنیا میں پناہ گزینوں کے سمندر امڈ رہے ہیں جس کے باعث بے پناہ مسائل پیدا ہوچکے ہیں۔ افریقا اور مشرق وسطی میں جاری خانہ جنگی اور انتشار نے یہاں کے باشندوں کو ترک وطن پر مجبور کردیا ہے اور ایک بڑی تعداد اپنے خاندان کے محفوظ مستقبل کے لیے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہے، اور اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ہوئے جائے پناہ کی تلاش میں سرگرداں ہے۔2015کے دوران صرف ایک برس میں دس لاکھ سے زاید مہاجرین یورپ کی حدود میں داخل ہوئے۔ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق 2016 کے ماہ ستمبر تک تین لاکھ افراد نے یورپ کی جانب مہاجرت کی۔
ان اعداد و شمار سے یہ بات عیاں ہے کہ شام، عراق، افغانستان اور نائجیریا میں جاری بحران ابھی تھمے نہیں جب کہ دوسری جانب کوسوو اور ایریٹیریا میں بڑھتی ہوئی غربت سے تنگ ہزاروں افراد ترک وطن ہی میں اپنی بقا تلاش کررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق بیرونِ ملک پناہ حاصل کرنے کی جستجو میں 38سو افراد صرف گذشتہ سال کے ابتدائی دس ماہ میں بحیرہ روم کا لقمہ کا بنے۔ گذشتہ برس ہونے والے عالمی اقتصادی فورم کے سالانہ اجلاس کے ایجنڈے میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کے مسئلے کو ترجیحات میں شامل کیا گیا اور اسے ''کرہّ ارض کے لیے قدرتی آفات اور بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے بھی بڑا خطرہ'' قرار دیا گیا تھا۔
گذشتہ برس ڈیووس میں وزیر اعظم میاں نواز شریف نے زیادہ تر دو طرفہ ملاقاتوں ہی کے لیے انفرادی سطح پر کوششیں کیں۔ اس سے پاکستان کو فائدہ بھی ہوا لیکن ہمارے مجموعی قومی تاثر پر اس کے باوجود منفیت کے سائے منڈلاتے رہے۔ اس مرتبہ کابینہ کی دو خواتین وزرا مختلف پینلز میں شامل ہیں، کاش کہ وہ بااختیار بھی ہوتیں! اس برس اس فورم میں پاکستان کے حوالے سے اہم ترین پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ پاکستان کے سابق سپہ سالار جنرل راحیل شریف کو سیکیورٹی امور سے متعلق مذاکروں میں شرکت کے لیے مدعو کیا جارہا ہے۔
وہ مختلف سربراہان مملکت کے ساتھ انتہائی حساس سیکیورٹی اور دفاعی امور پر تبادلہ خیال بھی کریں گے۔ ذاتی سطح پر یہ جنرل راحیل شریف کے لیے تو اعزاز ہے ہی ، پاک فوج کے لیے بھی فخر کی بات ہے۔ انھوں نے مثالی انداز میں پاکستان کے لیے خدمات انجام دیں۔ اب عالمی سطح پر ان کی موجودگی پاکستان کے مثبت امیج کو اجاگر کرے گی جو بلا شبہہ دہشت گردی اور داخلی انتشار کے خلاف افواج پاکستان کی کام یاب مہم کا ثمر ہے۔
اس فورم میں مٹھی بھر پاکستانی بزنس مین مدعو ہیں ، یہ قلیل تعداد پاکستان کی بھرپور نمائندگی کے لیے ناکافی ہے۔ اس کے برعکس بھارت کے 125بزنس مین عالمی اقتصادی فورم کے رکن ہیں اور اس بھرپور نمائندگی کے ساتھ اس فورم سے بے پناہ فوائد حاصل کرتے ہیں۔ ڈیووس میں سجنے والا عالمی اسٹیج پاکستان کا مثبت امیج پیش کرنے کے لیے بہترین موقع ثابت ہوسکتا ہے۔ ہمارے بزنس لیڈرز کو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی عالمی سطح پر شناخت کے لیے اس فورم سے بھرپور استفادہ کرنا چاہیے۔