فنکار تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں

اس کے کرداروں میں اس کا وہ شریر بولتا تھا جس میں سچائی کی جگمگاہٹ تھی۔۔۔


یونس ہمدم January 13, 2017
[email protected]

ممبئی کے علاقے اندھیری میں 6 جنوری کا سورج طلوع تو ہوا مگر اندھیری کے ایک گھر میں سویرا نہ ہوسکا اور یہ گھر درد کے اندھیرے میں ڈوب گیا۔ اس صبح ایک انسان دوست اداکار اور محبت کا پیکر اوم پوری اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ میں اوم پوری سے کبھی نہیں ملا، لاہور میں ویڈیو کے ذریعے اوم پوری کی فلمیں دیکھی تھیں، اس کے کرداروں میں اتنی انسیت، اتنی انفرادیت تھی کہ اس کا ہر کردار دل میں اترتا چلا جاتا تھا۔

اس کے کرداروں میں اس کا وہ شریر بولتا تھا جس میں سچائی کی جگمگاہٹ تھی۔ جب ہندوستان کی متعصب ترین جماعت شیوسینا نے ہندوستان میں کام کرنے والے پاکستانی فنکاروں کے خلاف نفرت کی مہم کا آغاز کرتے ہوئے دھمکی دی کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے اداکار، موسیقار اور گلوکار ہندوستان کی سرزمین چھوڑدیں ورنہ زندگی ان پر تنگ کردی جائے گی، تو اوم پوری وہ پہلا اداکار تھا جس نے بے خوف ہوکر ببانگ دہل کہا تھا کہ فنکار تو سب کے سانجھے ہوتے ہیں۔

فنکار تو محبتیں بانٹتے ہیں، فنکاروں کے درمیان نفرت کی دیواریں کھینچنے والے نہ صرف فن کے دشمن ہیں بلکہ وہ انسانیت کے بھی دشمن ہیں۔ اوم پوری نے تو ایک حقیقت بیان کی تھی، ایک سچائی کا اظہار کیا تھا، مگر تشدد پسند لوگ اور نفرت کا کاروبار کرنے والوں نے اوم پوری کو اس کے بیان کے بعد کارنر کرنا شروع کردیا تھا۔ مگر باہمت اور بلند حوصلے کے مالک اوم پوری نے نفرت کے بیج بونے والے شیوسینا کے کارکنوں سے کسی طور بھی سمجھوتہ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ کیونکہ وہ انسانیت پرست انسان تھے۔

اوم پوری نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، یہ انبالہ شہر کے ایک گاؤں ہریانہ میں پیدا ہوا تھا۔ بچپن میں چیچک کی بیماری نے اس کے چہرے کو دائمی داغ دے دیے تھے، مگر یہ اپنے ماں کے لیے ہمیشہ چاند کا ٹکڑا ہی رہا۔ اس نے شروع میں آرمی جانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، مگر غربت کی وجہ سے اسے اچھی تعلیم نہ مل سکی، پھر اسکول کے ڈراموں میں حصہ لینے لگا اور اس کے دل میں ایک اداکار بننے کی آرزو نے جنم لیا۔ اسکول ڈراموں سے بڑھتے بڑھتے یہ نیشنل اسکول آف آرٹس سے وابستہ ہوگیا، پھر اس پر فلموں میں کام کرنے کا جنون سوار ہوگیا۔

اسٹیج ڈراموں میں اس نے کافی شہرت حاصل کی، اس نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز ایک مراٹھی فلم ''گھانسی رام کوتوال'' سے کیا، پھر خوش قسمتی سے اوم پوری کو ہندوستان کے لیجنڈ فلمساز و ہدایت کار شیام بینگل کی شفقت حاصل ہوگئی اور اسے اپنی فلم ''آکروش'' میں کاسٹ کیا۔ اس طرح آرٹ فلم سے ابتدا کرنے والا اداکار آہستہ آہستہ مختلف موضوعات کی فلموں میں کاسٹ کیا جانے لگا۔انڈیا میں متوازی سینما مضبوط بنیادوں پر قائم ہے۔ اوم پوری کی ایک فلم ''مرچ مصالحہ'' نے اسے شہرت دی، پھر 1983ء میں بنائی گئی، فلم ''اردھ ستیہ'' میں اوم پوری نے ایک پولیس انسپکٹر کا کردار ادا کیا اور یہ کردار لازوال ہوگیا۔ پھر اوم پوری کے کریڈٹ پر دو منفرد نوعیت کی فلمیں آئیں، جن میں ایک فلم ''گاندھی'' تھی اور دوسری ''ڈرٹی پالیٹکس''۔ ان دونوں فلموں میں اوم پوری اپنے فن کے عروج پر تھا۔

اوم پوری نے بالی وڈ کے علاوہ ہالی وڈ کی بھی فلموں کے لیے بھی اپنا رستہ ہموار کیا، ہالی وڈ کی فلموں میں کام کرکے یورپ اور برطانیہ میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ اوم پوری بھی نصیر الدین شاہ، نانا پاٹیکر، شبانہ اعظمی، فاروق شیخ اور سمیتاپاٹل کے اسکول آف تھاٹ سے تعلق رکھتا تھا۔ اوم پوری آرٹ فلموں کے بعد کمرشل فلموں کی طرف آگیا۔ اوم پوری کی کمرشل فلموں نے بھی سارے ہندوستان میں دھوم مچادی تھی، ان میں ایک فلم ڈسکو ڈانسر تھی اور دوسری فلم شاعر گلزار کی ''ماچس'' تھی۔ اب میں اوم پوری کی ایک ایسی فلم کا تذکرہ کرتاہوں جس کی فلمبندی زیادہ تر برطانیہ میں ہوئی تھی، فلم کا نام تھا ''ایسٹ از ایسٹ''۔ یہ فلم 1999ء میں ریلیز ہوئی تھی، اس میں اوم پوری نے ایک مسلم گھرانے کے سربراہ کا کردار ادا کیا تھا، جس میں نئی تہذیب اور پرانی تہذیب کا ٹکراؤ تھا۔

اس فلم کی کہانی مکالمے اور اسکرین پلے رائٹر ایوب خان نے لکھے تھے۔ بہت ہی خوبصورت کہانی تھی اور اوم پوری، پوری فلم پر چھایا ہوا تھا۔ یہاں ایک بات میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اس فلم میں جب اوم پوری اپنی فیملی کے ساتھ پاکستان آتا ہے تو ایک ڈھابے کا منظر دکھایا گیا تھا، جہاں راستے کے مسافر رکتے ہیں اور ڈھابے میں کھانا کھاتے ہیں، چائے پیتے ہیں اور اس ڈھابے میں ریڈیو پر میرا فلم ''تیرے میرے سپنے'' میں لکھا ہوا گیت جو ناہید اختر نے گایا تھا جس کے بول تھے:

''میں ہوگئی دلدار کی
ہونے لگی چبھن پیار کی
دل میں کانٹا سا چبھ گیا چبھ گیا''

ریڈیو سے بجتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اوم پوری کو پاکستان سے بڑی محبت تھی اور وہ چاہتا تھا کہ پاکستان اور ہندوستان کے اشتراک سے کوئی فلم بنائے اور اس کی شوٹنگ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں کرے۔ اوم پوری کی یہ خواہش تو پوری نہ ہوسکی مگر اوم پوری نے پاکستان کی ایک فلم ''ایکٹر ان لاء'' میں کام کیا اور اس کی شوٹنگ کی غرض سے وہ پاکستان آیا تھا۔ کراچی اور لاہور کو خوب دل بھر کے دیکھا اور اس طرح ایک فلم میں کام کرکے اس کی دیرینہ خواہش کسی طرح پوری ہوگئی تھی۔ اوم پوری پاکستان اور ہندوستان کے درمیان دوستی اور بھائی چارہ چاہتا تھا۔

اس کی خواہش تھی کہ جس طرح دو بھائی اپنے خاندان کی فلاح و بہبود کی خاطر دو الگ الگ گھروں میں رہ کر پیار اور محبت سے رہتے ہیں، اسی طرح دو پڑوسی ممالک بھی اچھے تعلقات کے ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے۔ اسے ہر دو ممالک کے سیاسی بازی گروں، تعصب پرست مذہبی تنظیموں سے نفرت تھی۔ وہ چاہتا تھا کہ جس طرح پاکستان کے لیجنڈ فنکار اور گلوکار ہندوستان جاکر اپنے فن کا اظہار کرتے ہیں اسی طرح ہندوستان کے فنکاروں کو بھی پاکستان آکر اپنے اپنے فن کے اظہار کی ضرورت ہے۔

میں یہاں برسبیل تذکرہ ایک پرانی تلخ حقیقت بھی بیان کرنا چاہوںگا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب میں کالج کا طالب علم تھا اور پاکستان میں ہندوستان کی نامور گلوکارہ لتا منگیشکر کے میوزک کنسرٹ کی تیاریاں کی جارہی تھیں اور لتا منگیشکر نے بھی بخوشی رضامندی کا اظہار کردیا تھا۔ ساری تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں مگر ہمارے ملک کے نام نہاد مذہبی ٹھیکے داروں نے کھل کر یہ اعلان کردیا تھا کہ لتا منگیشکر کسی صورت میں بھی پاکستان نہیں آئے گی۔ موسیقی حرام ہے، ہم لتا منگیشکر کے میوزک کنسرٹ کو کسی صورت میں برداشت نہیں کریں گے۔ پھر اس پروگرام کے پروموٹرز کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ اور ان دھمکیوں کے بعد لتا منگیشکر کی پاکستان آمد پر قد غن لگادیا گیا تھا۔

اگر ایک بار گلوکارہ لتا منگیشکر پاکستان آجاتی اور اپنے پرستاروں کے روبرو اپنی آواز کا جادو جگاتی تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی جب کہ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہندوستان نے ہمارے نامور فنکاروں، ملکہ ترنم، نورجہاں، مہدی حسن اور غلام علی کو ہندوستان میں گاہے گاہے بلایا، ان کو عزت دی اور ان کی راہوں میں اپنی آنکھیں بچھادی تھیں۔ یہ تو خیر سے بڑے عظیم فنکار تھے، ہندوستان میں تو عدنان سمیع، عاطف اسلم، علی ظفر اور شفقت امانت تک کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ان کے فن کو سراہنے میں کسی بھی قسم کا پس وپیش نہیں کیا۔

اوم پوری بھی اسی سوچ کا حامل تھا۔ وہ دو پڑوسی ملکوں کے درمیان نفرت کی خلیج کو پاٹنے کا متمنی تھا۔ وہ بہت ہی محبت بھرا دل رکھتا تھا، وہ انسانیت پرست ہی نہیں اسلام پرست بھی تھا۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں محبت، انصاف، ایثار اور رواداری ہے اور دنیا میں اگر کسی مذہب کو عظمت، غلبہ اور پذیرائی حاصل رہے گی وہ اسلام ہی ہے۔ اب اوم پوری دنیا میں نہیں رہا مگر اسلام اور پاکستان سے اس کے پیار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں